Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
17. باب بَيَانِ وُجُوهِ الإِحْرَامِ وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ:
باب: احرام کی اقسام کابیان، اور حج افراد، تمتع، اور قران تینوں جائز ہیں، اور حج کا عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے، اور حج قارن والا اپنے حج سے کب حلال ہو جائے؟
حدیث نمبر: 2931
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ أَوْ خَمْسٍ، فَدَخَلَ عَلَيَّ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَقُلْتُ: مَنْ أَغْضَبَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ؟، قَالَ: " أَوَمَا شَعَرْتِ أَنِّي أَمَرْتُ النَّاسَ بِأَمْرٍ، فَإِذَا هُمْ يَتَرَدَّدُونَ "، قَالَ الْحَكَمُ: كَأَنَّهُمْ يَتَرَدَّدُونَ، أَحْسِبُ، " وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا سُقْتُ الْهَدْيَ مَعِي حَتَّى أَشْتَرِيَهُ، ثُمَّ أَحِلُّ كَمَا حَلُّوا "،
محمد بن جعفر (غندر) نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی، انھوں نے (زین العابدین) علی بن حسین سے، انھوں نے ذاکون مولیٰ عائشہ رضی اللہ عنہا سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے فر مایا: ذوالحجہ کے چار یا پانچ دن گزر چکے تھے کہ آپ میرے پاس (خیمے میں تشریف لا ئے، آپ غصے کی حالت میں تھے، میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو کس نے غصہ دلایا؟ اللہ اسے آگ میں دا خل کرے۔آپ نے جواب دیا: " کیا تم نہیں جا نتیں!میں نے لوگوں کو ایک حکم دیا (کہ جو قر بانی ساتھ نہیں لا ئے، وہ عمرے کے بعد احرا م کھول دیں) مگر اس پر عمل کرنے میں پس و پیش کررہے ہیں۔۔۔۔حکم نے کہا: میرا خیال ہے (کہ میرے استا علی بن حسین نے) "ایسا لگتا ہے وہ پس و پیش کررہے ہیں۔"کہا۔۔۔اگر اپنے اس معاملے میں وہ بات پہلے میرے سامنے آجا تی جو بعد میں آئی تو میں اپنے ساتھ قربانی نہ لا تا حتیٰ کہ میں اسے (یہاں آکر) خریدتا پھر میں ویسے احرام سے باہر آجا تا جیسے یہ سب (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین عمرے کے بعد) آگئے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار یا پانچ ذوالحجہ کو میرے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے تو میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے ناراض کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈالے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پتہ نہیں چلا، میں نے لوگوں کو ایک کام کا (احرام کھولنے کا) حکم دیا ہے تو وہ اس کی تعمیل میں پس و پیش کر رہے ہیں، (حکم کہتے ہیں، میرے خیال میں آپ نے تردد کے معنی پر دلالت کرنے والا لفظ بولا تھا)، اگر مجھے جس چیز کا بعد میں علم ہوا ہے، مجھے اس کا پہلے علم ہو جاتا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، حتی کہ اس کو یہاں خرید لیتا، پھر میں بھی ان کی طرح حلال ہو جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2931 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2931  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
۔
(لَوْ أَنِّيْ اِسْتَقْبَلْتُ)
کا مقصد یہ ہے کہ اگر مجھے مدینہ سے چلتے وقت اس بات کا علم ہو جاتا کہ حج کا احرام فسخ کر کے عمرہ کرنا پڑے گا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا (کیونکہ ہدی ساتھ لانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قران ضروری تھا)
اور تمھاری طرح عمرہ کر کے احرام کھول دیتا اور پھر آٹھ ذوالحجہ کو نئے سرے سے حج کا احرام باندھتا اور حج تمتع کی بنا پر قربانی یہیں مکہ سے خرید لیتا،
کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس بنا پر احرام کھولنے میں تردد پیدا ہو رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود احرام باندھے ہوئے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کرنا چاہتے تھے اور بعض حضرات نے اس کا یہ معنی لیا ہے کہ اگر آغاز ہی میں مجھے تمھارے اس تردو اور اضطراب کا پتہ چل جاتا تو میں بھی قربانی ساتھ نہ لاتا اور تمھاری طرح عمرہ کر کے احرام کھول دیتا لیکن چونکہ مجھے تمھارے تردو اور اضطراب کا پہلے علم نہیں ہو سکا،
اس لیے میں قربانی ساتھ لایا ہوں اس لیے میں عمرہ کر کے حلال نہیں ہو سکتا تمھارے پاس ہدی نہیں ہے،
اس لیے تم حلال ہو جاؤ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2931   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2952  
´مہینہ کے آخری دنوں میں سفر کرنا`
«. . . أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا، فَقَالَ: نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ سے (حجۃ الوداع کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے۔ (پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا، میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے؟ تو بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2952]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2952 کا باب: «بَابُ الْخُرُوجِ آخِرَ الشَّهْرِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مہینے کے آخری میں سفر کرنے کے متعلق باب قائم فرمایا اور جو حدیث پیش فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:
«خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لخمس ليال بقين من ذي القعدة.»
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نکلے جب ذی القعدہ کے پانچ روز باقی تھے۔
یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واقع ہو رہی ہے کیونکہ ذی القعدہ کے آخری پانچ روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا قصد فرمایا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کی تردید فرما رہے ہیں جو کہ مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو نحوست خیال کرتے ہیں، اس قسم کے مذموم قائدے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے ہوا کرتے تھے، امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أي ردا على من كره ذالك من طريق الطيرة، وقد نقل ابن بطال أن أهل الجاهلية كانو يتطيرون أوائل الشهور الأعمال، و يكرهون التصرف فى محاق القمر.» [فتح الباري، ج 6، ص: 141]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ ان کا رد فرما رہے ہیں جو مہینے کے آخری ایام میں سفر کو منحوس خیال کرتے ہیں، اور ابن بطال رحمہ اللہ نے نقل فرمایا کہ اہل جاہلیت یہ خیال کرتے کہ اگر مہینے کے آخر میں آدمی سفر کیلئے روانہ ہوتا ہے تو عمر گھٹ جاتی ہے، اور ہمارا کام گھاٹے میں آ جاتا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«الرد على من يزعم من القائلين متأثير الكواكب أن الحركة آخر الشهر فى محاق القمر مذمومة» [المستواري، ص: 161]
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو مہینے کے آخر میں سفر کرنے کو مذموم قرار دیتے ہیں ستاروں کی حرکت و تاثیر کی وجہ سے۔
(قلت) میں سمجھتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی بھی تردید فرمائی ہے جس کا ذکر امام حسان الدین الہندی (المتوفی 975) نے بھی اپنی کتاب «كنز العمال» میں ذکر فرمایا ہے۔ «اقترب آخر أربعا و فى الشهر يوم نحس و مستمر.» [كنز العمال، ج 2، ص: 11، رقم: 931]
یعنی مہینے کے آخری چار دن منحوس ہوا کرتے ہیں۔ (جن کا یہ عقیدہ ہے) امام بخاری رحمہ اللہ ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں۔
ایک اشکال کا جواب:
صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر نکلے اس وقت ذیقعدہ کے پانچ دن رہتے تھے۔ پچیسویں تاریخ کو مدینے سے نکلے اور ذی الحجہ کو چوتھی تاریخ کو مکہ پہنچے۔
اب جو یہاں تعارض اور اشکال کی صورت پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر حج کے لئے ہفتہ کے دن نکلے تھے تو ذیقعدہ کے چار دن باقی بچتے تھے، اس لئے کہ ذی الحجہ کی یکم تاریخ جمعرات کے دن تھی اور وہ وقف عرفہ جمعہ کا روز تھا، اور اگر سفر کی ابتداء جمعرات کو ہوتی ہے تو ذیقعدہ کے چھ روز باقی بچے تھے، سفر کی ابتداء کیلئے جمعہ کا دن تو قطعا نہیں بنتا اسی لئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: «صلى الظهر بالمدينة أربعا» اور ظاہر ہے ظہر کی نماز جمعہ کے دن نہیں پڑھی جاتی تو «لخمس بقين» کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و أجيب بأن الخروج كان يوم السبت، و انما قالت عائشة: لخمس بقين بناء على العدد، لأن ذوالقعدة كان أوله الأربعا فاتفق أن جاء ناقصا . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 142]
یعنی یوم الخروج ہفتہ کے دن کو بھی سفر کے ایام میں شمار کیا جائے تو بھی معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں اگرچہ نکلتے نکلتے دوپہر ہو چکی تھی لیکن تیاری تو پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، گویا انہوں نے جب تیاری مکمل کر لی تو ہفتہ کی شب کو انہوں نے ایام سفر کو شمار کیا تو یہ پانچ دن ہو گئے۔ بالکل اسی طرح سے تطبیق بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ نے بھی دی ہے۔ دیکھئے: [مناسبات تراجم البخاري، ص: 87-88]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 419   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 293  
´حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا صحیح ہے`
«. . . عن عائشة انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجة الوداع فاهللنا بعمرة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان معه هدي فليهلل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کرنے کے لئے) نکلے۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں (حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 293]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1556، ومسلم 1211/111، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حج کی تینوں قسموں افراد، قران اور تمتع پر عمل کرنا بالکل صحیح ہے۔ ديكهئے: [التمهيد 205/8]
● صحیح مسلم (1252) کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج افراد قیامت تک جاری رہے گا۔ نیز دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 2/5]
◄ لہٰذا حج افراد کو منسوخ کہنا باطل ہے۔

تنبیہ:
صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کی تینوں اقسام میں سے راجح قول کے مطابق حج تمتع سب سے افضل ہے۔
➋ حج قران اور حج افراد میں صرف ایک طواف (بیت اللہ کے سات پھیروں والا طواف) ہے جبکہ حج تمتع کرنے والے کو قربانی کے ساتھ دو طواف کرنے پڑتے ہیں۔ جتنا عمل مسنون زیادہ ہے اتنا ثواب زیادہ ہے۔
➌ حالت حیض میں طواف اور سعی جائز نہیں ہے۔
➍ اس پر اجماع ہے کہ عمرہ کرنے والا پہلے بیت اللہ کا طواف کرے گا اور پھر صفا و مروہ کی سعی کرے گا۔ دیکھئے: [التمهيد216/8] سوائے اس کے کہ وہ عرفات کی رات مکہ پہنچ جائے تو اس صورت میں پہلے عرفات جائے گا تاکہ حج (کا رکن اعظم) رہ نہ جائے۔
➎ حائضہ عورت جس پر عمرہ واجب ہے۔ تنعیم جا کر عمرہ کر سکتی ہے۔
➏ تنعیم مکہ مکرمہ کا ایک مقام ہے جسے آج کل مسجد عائشہ کہا جاتا ہے۔ بعض الناس یہاں سے نفلی عمرے کرتے رہتے ہیں جن کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ اور آثار سلف صالحین سے نہیں ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 39]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 38   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 308  
´جس کے پاس قربانی نہ ہو اور وہ حج کے مہینوں میں بیت اللہ پہنچ جائے`
«. . . 497- وبه: أنها سمعت عائشة تقول: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس ليال بقين من ذي القعدة ولا نرى إلا أنه الحج فلما دنونا من مكة أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن معه هدي إذا طاف بالبيت وسعى بين الصفا والمروة أن يحل. قالت: عائشة: فدخل علينا يوم النحر بلحم بقر، فقلت: ما هذا؟ فقالوا: نحر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أزواجه. قال يحيى: فذكرت هذا الحديث للقاسم بن محمد فقال: أتتك بالحديث على وجهه. . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینے سے) نکلے تو ذوالقعدہ کی پانچ راتیں باقی تھیں اور ہمارا صرف حج کا ارادہ تھا پھر جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کے پاس قربانی کے جانور نہیں ہیں، اگر اس نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی ہے تو احرام کھول دے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر قربانی والے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے یحییٰ (بن سعید الانصاری) نے کہا: پھر میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: عمرہ نے تمہیں یہ حدیث بالکل اصل کے مطابق سنائی ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 308]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1709، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ جس شخص کے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوں اور وہ حج کے مہینوں میں حج کی نیت سے مکہ پہنچ جائے تو اگر چاہے کہ عمرہ کر کے احرام کھول دے اور بعد میں حج تمتع کرے تو ایسا کر سکتا ہے۔
➋ گائے کا گوشت حلال ہے اور کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ گائے کا گوشت مضر ہے۔ اس سلسلے میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے جن روایات کو صحیح قرار دیا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔
➌ نیز دیکھئے: الموطأ حدیث: 38
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 497   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 298  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افرد الحج . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 298]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1562، ومسلم 118/1211، وابن ماجه 2965، من حديث مالك به]

تفقه
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صحیح حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا تھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم: 1231]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج افراد کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح مسلم 1213]
دوسری طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے کی لبیک کہی تھی۔ [صحيح بخاري: 4353، 4354 وصحيح مسلم: 1232]
اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی ہیں اور یہ متواتر ہے۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حج افراد کی لبیک کہی اور بعد میں حج قران (عمرے اور حج) کی لبیک کہی۔ ہر صحابی نے اپنے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کر دی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: شرح الزرقانی علی موطأ الامام مالک [ج2 ص251]
➋ حج افراد، حج قران اور حج تمتع یہ تینوں قسمیں حج کی ہیں اور قیامت تک ان میں سے ہر قسم پر عمل جائز ہے۔ بعض علماء کا حج افراد کی حدیث کو شاذ یا منسوخ قرار دینا باطل و مردود ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابن مریم روحاء کی گھاٹی سے حج (افراد) یا عمرہ کرنے (والے حج تمتع) یا دونوں اکٹھے (حج قران) کی لبیک کہتے ہوئے ضرور آئیں گے۔ [صحيح مسلم: 1252، وترقيم دارالسلام: 3030، السنن الكبريٰ للبيهقي 5/2 حاجي كے شب وروز ص82]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ حج افراد، حج قران اور حج تمتع قیامت تک باقی رہیں گے۔
➌ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے حج افراد کیا تو اچھا ہے اور جس نے تمتع کیا تو اس نے قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (دونوں) پر عمل کیا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/21 وسنده صحيح، حاجي كے شب وروز ص83]
سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنھم نے حج افراد کیا۔ [سنن الترمذي: 82٠ وسنده حسن]

تنبیہ:
دوسرے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حج تمتع سب سے افضل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 88   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1777  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1777]
1777. اردو حاشیہ:
➊ حج کے لیے احرم اورنیت کے تین انداز مشروع ہیں:ایک یہ کہ انسان احرام باندھتے ہوئے صرف اور صرف حج کی نیت کرے۔ اس بصورت میں انسان اعمال حج مکمل ہونے تک احرام ہی میں رہتا ہے۔اسے حج افراد (ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی مفرد حج۔دوسری صورت یہ ہے کہ حج اور عمرہ کی اکٹھی نیت ہو۔ اس صورت میں حاجی پہلے عمر ہ کرتاہے اس کے بعد احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ حج کے اعمال پورے کر لے۔ اس کو حج قران (قاف کی کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں یعنی حج اور عمرے کو ملا کر ادا کیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے۔مکہ پہنچ کر عمرہ کےاعمال مکمل کرکے حلال ہوجائے اور پھر 8ذوالحجہ کو دوبارہ حج کے لیے احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے۔ اس نوعیت کو حج تمتع کہتے ہیں یعنی ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی حاصل کر لیا۔سب سے افضل حج تمتع ہی ہے۔اگر قربانی ساتھ لے کر جائے تو قران ہو گا۔ او رحج افراد بھی ہر طرح سے جائز ہے۔(قربانی سمیت یا قربانی کے بغیر)رسول اللہﷺ کا حج قران تھا جبکہ صحابہ میں افراج والے بھی تھے اور تمتع والے بھی۔
➋ اس معنی کی احادیث میں نبی ﷺ کے ابتدائے عمل کا بیان ہے۔ قران کی نیت آپ نے بعد میں فرمائی تھی۔کچھ محدثین اس طرح کہتے ہیں کہ آپ شروع ہی سے قارن تھے۔مگر چونکہ «قارن» ‏‏‏‏ کو اجازت ہوتی ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» کسی وقت «لبیک تعمرۃ» ‏‏‏‏ اور کسی وقت «لبیک بحجة و عمرة» ‏‏‏‏ کہے اس لیے صحابہ کرام نے نبیﷺ کی زبان سے جو سنا بیان کیا۔ اس میں تعارض والی کوئی بات نہیں۔(مرعاۃ المفاتیح –شرح حدیث:2569]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1777   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1778  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکلنے کو ہوا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے۔‏‏‏‏ موسیٰ نے وہیب والی روایت میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہدی نہ لے چلتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔‏‏‏‏ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: رہا میں تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ ہدی ہے۔‏‏‏‏ آگے دونوں راوی متفق ہیں (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں تھی، آپ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ مجھے حیض آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیوں رو رہی ہو؟، میں نے عرض کیا: میری خواہش یہ ہو رہی ہے کہ میں اس سال نہ نکلتی (تو بہتر ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا عمرہ چھوڑ دو، سر کھول لو اور کنگھی کر لو۔‏‏‏‏ موسیٰ کی روایت میں ہے: اور حج کا احرام باندھ لو، اور سلیمان کی روایت میں ہے: اور وہ تمام کام کرو جو مسلمان اپنے حج میں کرتے ہیں۔‏‏‏‏ تو جب طواف زیارت کی رات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کو حکم دیا چنانچہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کر گئے۔ موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمرے کے عوض (جو ان سے چھوٹ گیا تھا) دوسرے عمرے کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس طرح اللہ نے ان کے عمرے اور حج دونوں کو پورا کر دیا۔ ہشام کہتے ہیں: اور اس میں ان پر اس سے کوئی ہدی لازم نہیں ہوئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: موسیٰ نے حماد بن سلمہ کی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب بطحاء ۱؎ کی رات آئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہو گئیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1778]
1778. اردو حاشیہ:
➊ حضرت عائشہ ؓ کو حیض کی کیفیت مکہ کے قریب وادی سرف میں لاحق ہوئی۔
➋ ایسی صورت میں عورت کو عمرے کی نیت کو حج میں بدل لینا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1778   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1781  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے پھر وہ حلال نہیں ہو گا جب تک کہ ان دونوں سے ایک ساتھ حلال نہ ہو جائے، چنانچہ میں مکہ آئی، میں حائضہ تھی، میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، لہٰذا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: اپنا سر کھول لو، کنگھی کر لو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرے کو ترک کر دو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میں نے حج ادا کر لیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا (تو میں وہاں سے احرام باندھ کر آئی اور) میں نے عمرہ ادا کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کی جگہ پر ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: چنانچہ جنہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر ان لوگوں نے احرام کھول دیا، پھر جب منیٰ سے لوٹ کر آئے تو حج کا ایک اور طواف کیا، اور رہے وہ لوگ جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابراہیم بن سعد اور معمر نے ابن شہاب سے اسی طرح روایت کیا ہے انہوں نے ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے عمرہ کے طواف کا احرام باندھا، اور ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1781]
1781. اردو حاشیہ: «قارن» ‏‏‏‏ کو رخصت ہے کہ دسویں تاریخ کو طواف (زیادہ /افاضہ) کے بعد صفا مروہ کی سعی نہ کرے بلکہ طواف قدوم کے ساتھ کی جانے والی سعی پر کفالت کرلے تو مباح ہے۔ «تمتع» ‏‏‏‏ والا دو طواف اور دو سعی کرنے کا پابند ہے۔ یعنی ایک بار عمرے کے لیے اور دوسری بار حج کے لیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1781   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1782  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا: عائشہ! تم کیوں رو رہی ہو؟، میں نے کہا: مجھے حیض آ گیا کاش میں نے (امسال) حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی ذات پاک ہے، یہ تو بس ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے واسطے لکھ دی ہے، پھر فرمایا: تم حج کے تمام مناسک ادا کرو البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرو ۱؎ پھر جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اسے عمرہ بنانا چاہے تو وہ اسے عمرہ بنا لے ۲؎ سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ہدی ہو، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے گائے ذبح کی۔ جب بطحاء کی رات ہوئی اور عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہو گئیں تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میرے ساتھ والیاں حج و عمرہ دونوں کر کے لوٹیں گی اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا وہ انہیں لے کر مقام تنعیم گئے پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہاں سے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1782]
1782. اردو حاشیہ:
➊ جس نے حج کا احرام باندھا ہو اور قربانی ساتھ نہ ہو تو اسے جائز ہے کہ اپنے احرام کو عمرے کا احرام بنا لے۔
➋ جوشخص مکہ میں ہوتے ہوئے عمرہ کرنا چاہے اسے قریب ترین میقات پر جاکر احرام باندھ کر آنا لازم ہے۔سیدہ عائشہ ؓ کو تو ایک طبعی عارضہ لاحق ہوگیا جس کی وجہ سے ان کا عمرہ رہ گیاتھا جس کا ان کو قلق تھا اس کا ازالہ ان کو تنعیم سے احرام بندھوا کر کرا دیا گیا یوں ان عمرہ بھی ہو گیا۔یہ خصوصی رعایت صرف حضرت عائشہ ؓ کے لیے تھی جس سے وہ عورتیں تو فائدہ اٹھا سکتی ہیں جو حضرت عائشہ ؓ کی طرح وہاں جاکرحائضہ ہو جائیں۔لیکن عام لوگ جو مزید عمرہ کرنا چاہیں وہ تنعیم (مسجد عائشہ)جاکر وہاں سے احرام باندھ کر آ کر عمرہ نہیں کر سکتے (جیسا کہ اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں۔) البتہ وہ ذوالحلیفہ قرن المنازل یا کسی بھی میقات سے احرام باندھ کرآئیں تو دوبارہ عمرہ کرنا صحیح ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1782   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1784  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے یہ بات معلوم ہو گئی ہوتی جواب معلوم ہوئی ہے تو میں ہدی نہ لاتا، محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اور میں ان لوگوں کے ساتھ حلال ہو جاتا جو عمرہ کے بعد حلال ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ سب لوگوں کا معاملہ یکساں ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1784]
1784. اردو حاشیہ: دراصل جاہلیت میں لوگ حج کے ساتھ یا حج کے مہینوں میں عمرہ گناہ کا کام سمجھتے تھے تو اس پرانی روش کے بدلنے کے لیے یہ تاکیدی حکم دیا گیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1784   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 592  
´احرام کی اقسام اور صفت کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے۔ ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے کچھ وہ تھے جنہوں نے حج اور عمرہ کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں حج کے لیے لبیک پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کے لیے تلبیہ پکارا۔ پھر جنہوں عمرہ کے لیے لبیک کہا تھا وہ حلال ہو گئے اور جنہوں نے حج کے لیے لبیک کہا تھا یا حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا وہ حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ قربانی کا دن آیا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 592]
592 لغوی تشریح:
«بَابُ وُجْوهِ الْاِحْرَامِ وَصِفَتِهِ» «الوجوه»، «وجه» کی جمع ہے۔ اور اس سے اقسام احرام مراد ہیں۔ اور وہ تین ہیں، یعنی صرف حج یا محض عمرہ یا دونوں کا احرام باندھنا۔ «صفته» سے مراد محرم کی وہ کیفیت ہے جسے وہ حالت احرام میں اختیار کرتا ہے۔
«خَرَجْنَا» ہم نکلے۔ حج کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں یہ نکلنا ہفتے کے روز نماز ظہر کے بعد تھا جبکہ ذی القعدہ کے پانچ دن ابھی باقی تھے۔
«عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ» حجتہ الوداع، دس ہجری میں ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی حج نہیں کیا۔ اور اسے حجۃ الوداع اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو الوداع کہا تھا۔
«أهَلَّ بِعُمْرَةِ» یعنی صرف عمرے کا احرام باندھا، ایسے شخص کو «متمتع» کہتے ہیں۔
«أهَلَّ بِحَجَّ وَ عُمْرَةِ» حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا۔ ایسے شخص کو «قارن» کہتے ہیں۔ اور جس نے صرف حج کے لیے احرام باندھا ہو اسے «مفرد» کہتے ہیں۔
«اَلْاِهْلَال»، آواز بلند کرنے کو کہتے ہیں اور اس سے مراد احرام باندھنے کے وقت بلند آواز سے تلبیہ کہنا ہے۔
«فَحَلَّ» یعنی وہ حلال ہو گیا۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرنے کے بعد سر کے بال منڈوائے جاتے ہیں یا کٹوائے جاتے ہیں اور احرام کھول دیا جاتا ہے۔
«يَوْمُ النَّحْرِ» «نحر»، یعنی قربانی کا دن اور وہ دس ذوالحجہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا حج کا احرام باندھا تھا، یعنی حج مفرد کیا تھا۔ لیکن دوسرے بہت سے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ قارن تھے اور حج و عمرے کا اکٹھا احرام باندھا تھا۔ اور یہی بات صحیح ہے تاہم اقسام حج میں سے کون سی قسم افضل ہے اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اور جو شخص مفرد ہوتا ہے وہ صرف قربانی کے دن ہی حلال ہوتا ہے، پھر یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم کی ان روایات کے بھی مخالف ہے جن میں ہے کہ آپ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے پاس ہدی، یعنی قربانی نہ تھی، انہیں فرمایا تھا کہ تم حج کو عمرہ بنا لو۔ عمرے کو مکمل کر کے حج کا احرام مکہ سے باندھ لو، اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت دراصل صرف ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے جن کے پاس قربانی تھی۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی تین قسمیں ہیں، حج قران، حج تمتع، اور حج افراد۔ ان تینوں میں سے افضل کون سا حج ہے؟ اس کی بابت اختلاف ہے، بعض حج قران کو افضل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی حج پسند کیا۔ اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس پر نفیس بحث کی ہے۔ بعض حج تمتع کو افضل کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلے پر اس کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اور بعض حضرات حج افراد کو افضل قرار دیتے ہیں مگر دلائل کے اعتبار سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج تمتع ہی افضل ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 592   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2651  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مدینہ سے حج کے لیے نکلنے کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ذی قعدہ کی پانچ تاریخیں رہ گئی تھیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) سے نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جن کے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہیں تھا حکم دیا کہ وہ طواف کر چکیں تو احرام کھول دیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2651]
اردو حاشہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے ہفتے کے دن نکلے جبکہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور آپ نے وقوف عرفہ جمعے کے دن فرمایا۔ مختلف تاریخوں کا ذکر ہے لیکن یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ واللہ أعلم
(2) حج کی نیت رکھتے تھے۔ اکثر صحابہ کی نیت یہی تھی مگر بعض صحابہ حتیٰ کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھیں۔
(3) احرام ختم کر دیں۔ یعنی عمرہ کر کے حلال ہو جائیں، خواہ احرام حج ہی کا ہو۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ کیا اب بھی ایسے جائز ہے کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل دیں؟ بظاہر یہ اب بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اخذ ہوتا ہے۔ اس موقف کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس موقع پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ آیا یہ اس سال کے ساتھ ہی خاص ہے یا یہ اجازت ہمیشہ کے لیے ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اسے قیامت تک کے لیے جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا: [دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِی الْحَجِ ّ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ، لَابَلْ لِأَبَدٍ اَبَدٍ]  تا قیامت عمرہ حج میں داخل ہوگیا، نہیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، نہیں بلکہ یہ اجازت ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (حجة النبي للألباني، ص: 15) لیکن جمہور اہل علم اب اس کے جواز کے قائل نہیں۔ ان کے بقول یہ حکم صرف اس سال کے لیے تھا کیونکہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کی اجازت تازہ تازہ ملی تھی۔ پہلے لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا گناہ سمجھتے تھے، اس لیے وضاحت کے لیے آپ نے یہ حکم دیا۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ توجیہ محل نظر ہے۔
(4) جب بیت اللہ کا طواف کر چکیں۔ یعنی مکمل عمرہ کر لیں۔ طواف کے بعد سعی بھی کر چکیں۔ یہ مسئلہ متفقہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2651   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2716  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2716]
اردو حاشہ:
احرام کی تین صورتیں ہیں: (1) صرف حج کا احرام (2)صرف عمرے کا احرام (3) عمرے اور حج دونوں کا بیک وقت احرام۔ پہلی صورت کو افراد دوسری کو (اگر اس کے بعد الگ احرام سے حج بھی کیا جائے تو) تمتع اور تیسری صورت کو قران کہتے ہیں۔ (اور اگر دوسری صورت میں صرف عمرہ ہی کیا جائے بعد میں حج نہ کیا جائے تو یہ بھی افراد ہی ہے مگر یہ افراد بالعمرہ ہے)۔ رسول اللہﷺ کے بارے میں اس بات پر تو اتفاق ہے کہ آپ نے فرضیت حج کے بعد صرف ایک ہی حج کیا تھا، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ نے صرف حج کیا یا حج اور عمرہ دونوں اکٹھے کیے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے حج اور عمرہ دونوں اکٹھے کیے ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث سے مفہوم اخذ ہوتا ہے لیکن مذکورہ روایت میں ہے کہ آپ نے صرف حج کیا یا صرف حج کا احرام باندھا۔ تطبیق یوں ہے کہ ابتدا میں نبیﷺ نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، بعد میں عمرے کا حکم نازل ہوا تو آپ نے حج کے احرام میں عمرے کو بھی داخل فرما لیا لیکن چونکہ آپ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرے کے بعد حلال نہ ہوئے بلکہ حج کے بعد ہی حلال ہوئے، لہٰذا آپ کے عمرہ کرنے کا پتہ نہیں چلا۔ جن لوگوں نے آپ کو آخر وقت میں لبیک پکارتے سنا، انھیں پتا چل گیا کہ آپ حج کے ساتھ عمرے کی لبیک بھی پکار رہے ہیں۔ جنھوں نے صرف اول وقت میں لبیک پکارتے سنا، انھوں نے کہا کہ آپ نے صرف حج کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2716   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2718  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں نکلے کہ (چند دنوں کے بعد) ہم ذی الحجہ کا چاند دیکھنے ہی والے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حج کا احرام باندھنا چاہے حج کا احرام باندھ لے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے عمرہ کا احرام باندھ لے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2718]
اردو حاشہ:
ابتداء میں تو ایسے ہی تھا کہ حج اور عمرے کے احرام میں اختیار تھا۔ بعد میں آپ نے وحی کی بنا پر عمرہ لازم فرما دیا کہ جن لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھ رکھا ہے اگر ان کے پاس قربانی کا جانور نہیں تو حج کا احرام عمرے سے بدل کر عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو جائیں اور جن کے ساتھ قربانی کے جانور ہیں، وہ حج کے ساتھ عمرہ بھی داخل کر لیں لیکن عمرہ کرنے کے بعد حلال نہ ہوں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2718   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2719  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2719]
اردو حاشہ:
یہ اکثریت کی بات ہے ورنہ بعض صحابہ کا احرام تو شروع ہی سے عمرے کا تھا جیسا کہ روایت: 2718 میں ہے، نیز یہ بات ابتدا کی ہے، بعد میں عمرے کا حکم آیا تو صورت حال بدل گئی۔ وضاحت اوپر گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2719   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2765  
´عمرہ کا تلبیہ پکارنے والی عورت کو حیض آ جائے اور اسے حج کے فوت ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو ہم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس ہدی ہو وہ حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پکارے، پھر احرام نہ کھولے جب تک کہ ان دونوں سے فارغ نہ ہو جائے، تو میں مکہ آئی، اور میں حائضہ تھی تو میں نہ بیت اللہ کا طواف کر سکی اور نہ ہی صفا و مروہ کی سعی کر سک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2765]
اردو حاشہ:
(1) عمرے کا احرام باندھا تفصیل سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔
(2) اپنا سر کھول لو… ان الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھا تھا اور انھوں نے صرف حج کیا تھا جیسا کہ احناف کا خیال ہے۔ لیکن درست بات یہی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حج اور عمرہ دونوں کیے تھے جیسا کہ گزشتہ روایت میں اس کی تفصیل ہے۔ عمرہ چھوڑ دے۔ سے مراد یہ ہے کہ عمرے کے افعال واعمال چھوڑ دے اور حج کا احرام باندھ لے کیونکہ عمرے کے اعمال حج کے اعمال میں داخل ہوگئے ہیں۔ اور نبیﷺ کا یہ فرمانا: تو اپنے حج اور عمرے دونوں سے حلال ہوگئی۔ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عائشہؓ کا حج اور عمرہ دونوں ہو گئے تھے اور تنعیم والا عمرہ محض حضرت عائشہؓ کے اطمینان قلب کے لیے تھا۔ واللہ أعلم
(3) سر کے بال کھول لو اور کنگھی کرو احرام میں کنگھی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ احناف ناجائز کہتے ہیں۔ بعض نے عذر کی بنا پر جائز کہا ہے جبکہ جمہور مطلق جائز سمجھتے ہیں۔ راجح بات جمہور اہل علم کی ہے کیونکہ کنگھی نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا احناف کا ان الفاظ سے عمرہ ختم کرنے کا استدلال درست نہیں۔ واللہ أعلم
(4) صرف ایک طواف کیا ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے منیٰ سے واپس آکر طواف نہیں کیا، حالانکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ یہ طواف تو فرض ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث: 2747، فائدہ: 3)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2765   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2993  
´حج کا احرام باندھنے والے کے پاس ہدی ہو تو وہ کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا تو جب آپ نے بیت اللہ کا طواف کر لیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر لی تو آپ نے فرمایا جس کے پاس ہدی ہو وہ اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہو جائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2993]
اردو حاشہ:
پیچھے تفصیل گزر چکی ہے کہ قربانی والا شخص قربانی ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتا۔ جس کے پاس جانور نہ ہو، وہ اپنے احرام کے حساب سے حلال ہوگا۔ حج کا احرام ہو تو حج کرنے کے بعد حلال ہوگا۔ بعض حضرات کے نزدیک آپ کا ایسے صحابہ کو، عمرہ کر کے حلال ہو جانے کا حکم صرف اس سال کے ساتھ خاص تھا تاکہ حج کے دنوں میں عمرے کو ناجائز سمجھنے کی عملاً تردید ہو جائے لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے جیسا کہ اس سے متعلقہ احادیث سے بالکل واضح پتا چلتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2993   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2994  
´عمرہ کا احرام باندھنے والے کے پاس ہدی ہو تو وہ کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو ہم میں سے بعض نے حج کا احرام باندھا اور بعض نے عمرہ کا، اور ساتھ ہدی بھی لائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور ہدی ساتھ نہیں لایا ہے، تو وہ احرام کھول ڈالے، اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے، اور ساتھ ہدی لے کر آیا ہے تو وہ احرام نہ کھولے، اور جس نے حج کا تلبیہ پکارا ہے تو وہ اپن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2994]
اردو حاشہ:
(1) حجۃ الوداع میں صحابہ کے احرام اور مابعد کے حالات کی تفصیلی بحث متعلقہ ابواب میں گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ کریں۔ اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے دوسری گزشتہ مشہور روایات کو دیکھا جائے گا۔
(2) حج مکمل کرے۔ یہ اس وقت ہے جب وہ قربانی کا جانور ساتھ لایا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا، ایسے اشخاص کو آپ نے عمرہ کر کے حلال ہونے کا حکم دیا، خواہ ان کا احرام حج ہی کا تھا۔ بہرحال اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر قربانی کا جانور ساتھ ہو تو جانور کے ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2994   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2964  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2964]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج کی تین قسمیں ہیں ان میں سے جس طریقے سے بھی حج ادا کیا جائے درست ہے۔

(ا)
حج افراد:
اس میں حج کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔
مکہ شریف پہنچ کر جو طواف کرتے ہیں وہ طواف قدوم کہلاتا ہے پھر احرام کھولے بغیر مکہ میں رہتے ہیں۔
یوم الترویہ (8 ذی الحجہ)
کو اسی احرام کے ساتھ منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
وہاں ظہر سے لیکر اگلے دن (9 ذوالحجہ)
کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرتے ہیں۔
سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
وہاں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں پھر سورج غروب ہونے تک ذکر الہی اور دعا ومناجات میں مشغول رہتے ہیں۔
یہ وقوف (عرفات میں ٹھرنا)
حج کا سب سے اہم رکن ہے۔
سورج غروب ہونے پر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرتے ہیں۔
رات مزدلفہ میں گزار کر صبح (دس ذوالحجہ کو)
فجر کی نماز ادا کرکے وہاں ٹھرے رہتے ہیں۔
کافی روشنی ہوجانے پر سورج نکلنے سے پہلے منی کی طرف چلتے ہیں۔
منی پہنچ کر سورج نکلنے کے بعد بڑے جمرے کو سات کنکریاں مارتے ہیں قربانی کرتے ہیں اور سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیتے ہیں اور اسی دن سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے طواف کعبہ کرتے اور رات منی میں واپس آ کر گزارتے ہیں۔
گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو منی میں ٹھرتے ہیں۔
ان تین دنوں میں روزانہ زوال کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔
اگر کوئی شخص گیارہ اور بارہ تاریخ کو کنکریاں مار کر واپس آنا چاہے تو آ سکتا ہے۔
حج افراد میں قربانی کرنا ضروری نہیں ثواب کا باعث ہے۔

(ب)
حج قران کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھتے ہیں۔
مکہ پہنچ کر طواف اور سعی کرتے ہیں۔
یہ عمرہ بن جاتا ہے لیکن اس کے بعد بال اتروا کر احرام نہیں کھولتے بلکہ احرام میں ہی رہتے ہیں۔
اس طرح آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کام کرتےہیں جو حض افراد میں بیان ہوئے۔
حج قران کرنے والے میقات سے یا وطن سے قربانی کے جانور ساتھ لیکرآتے ہیں۔

(ج)
حج تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرے کا احرام باندھتے ہیں مکہ شریف پہنچ کر طواف اور سعی کرکے بال چھوٹے کرا کے احرام کھول دیتے ہیں پھر آٹھ ذوالحجہ کو مکہ ہی سے احرام باندھ کر حج کےتمام ارکان ادا کرتےہیں۔
اور دس ذی الحجہ کو قربانی دیتے ہیں۔
جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھ لے جن میں سے تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں۔

(2)
مدینہ منورہ سے روانہ ہوتے وقت رسول اللہﷺ کا ارادہ حج مفرد کا تھا۔
بعد میں رسول اللہﷺ نے ارادہ بدل دیا۔
ام المومنین رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا یہی مطلب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2964   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2981  
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ پہنچے یا اس سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جن لوگوں کے پاس ہدی (قربانی) کا جانور نہیں تھا احرام کھول دینے کا حکم دیا، تو سارے لوگوں نے احرام کھول دیا، سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس ہدی (قربانی) کے جانور تھے، پھر جب نحر کا دن (ذی الحجہ کا دسواں دن) ہوا تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، لوگوں نے کہا: یہ گائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2981]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حدیث: 3135 میں صراحت ہے کہ اس موقع پر امہات المومنین کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک گائے کی قربانی دی گئی تھی۔

(2)
ایک گھر والوں کی طرف سے ایک گائے یا اونٹ کی قربانی کافی ہے اگرچہ ان کی تعداد سات سے زیادہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2981   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3000  
´تنعیم سے عمرہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا، اور میں حیض سے تھی، عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3000]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
تنعیم ایک مقام ہے جو مکہ سے قریب ترین ہے۔
آج کل اسے مسجد عائشہ کہتے ہیں۔

(2)
نبی اکرمﷺ تیرہ ذوالحجہ کو رمی جمرات سے فارغ ہوکر منی سے روانہ ہوئے اور وادی ابطح یعنی خیف بنی کنانہ میں ٹھہرے۔
اسی کو وادئ خصب بھی کہتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس دن ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں اسی مقام پر ادا کیں۔
اور عشاء کے بعد کچھ آرام فرما کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئےاور طواف وداع ادا فرمایا۔ (الرحیق المختوم ص: 620)

(3)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن عذر حیض کی وجہ سے عمرہ کیے بغیر حج کا احرام باندھنا پڑا۔
اس طرح کی صورت حال میں عمرے کے اعمال اد ا کیے بغیر حج اور عمرہ دونوں ادا سمجھے جاتے ہیں۔

(4)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ باقاعدہ عمرہ بھی ادا کریں چنانچہ رسول اللہﷺ نے انہیں ان کے بھائی کے ساتھ عمرے کے لیے بھیج دیا۔
یہ رسول اللہﷺ کا اپنی زوجہ محترمہ سے حسن سلوک کا اظہار تھا۔

(5)
تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر آ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔
اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی (حائضہ)
عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے چھوٹا عمرہ قرار دیتے ہیں۔
یہ رواج یا استدلال بے بنیاد ہے۔

(6)
حج کے بعد عمرہ کرنے سے حج تمتع نہیں بنتا بلکہ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے حج تمتع بنتا ہے۔
پہلے عمرے کی وجہ سے قربانی دی گئی اس دوسرے عمرے کی وجہ سے کوئی قربانی نہیں دی گئی۔
نہ اس کا متبادل فدیہ روزوں کی صورت میں ادا کیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3000   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3075  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے تین صورتوں میں نکلے، ہم میں تین قسم کے لوگ تھے، کچھ لوگوں نے آپ کے ساتھ حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ پکارا، اور کچھ لوگوں نے حج افراد کا، اور کچھ لوگوں نے صرف عمرہ کا، جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا تھا (یعنی قران کیا تھا) وہ حج کے سارے مناسک پورے کر لینے کے بعد حلال ہوئے، اور جس نے حج افراد کا تلبیہ پکارا تھا اس کا بھی یہی حال رہا، وہ بھی اس وقت تک حلال نہیں ہوا جب تک حج کے سارے مناسک پورے نہ کر لیے، اور جس نے صرف عمرہ کا تل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3075]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج کی ان تین صورتوں میں سے پہلی صورت کو حج قران دوسری صورت کو حض افراد اور تیسری صورت کو حج تمتع کہتےہیں۔

(2)
حالات کے مطابق جس طریقے سے بھی حج کیا جائے درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3075   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 820  
´حج افراد کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 820]
اردو حاشہ:
" 1؎ حج کی تین قسمیں ہیں:
افراد،
قِران اورتمتع،
حج افرادیہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے،
اور حج قِران یہ ہے کہ حج اورعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے،
اورقربانی کا جانورساتھ،
جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھرمکہ میں جاکرعمرہ کی ادائیگی کے بعداحرام کھول دے اورپھرآٹھویں تاریخ کومکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔
اب رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے کون سا حج کیا تھا؟توصحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیاتھا،
تفصیل کے لیے حدیث رقم 822 کا حاشہ دیکھیں۔
نوٹ:

(نبی اکرمﷺ کا حج،
حج قران تھا،
اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)

"
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 820   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:207  
فائدہ:
حج قران کے ذمہ صرف ایک ہی سعی ہونے کی کئی ایک دلیلیں ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں دی جاتی ہیں:
① نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قرآن کیا اور طواف قدوم کے بعد صفا مروہ کے مابین صرف ایک ہی سعی کی۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صفا مروہ کے مابین ایک ہی سعی کی۔ صحیح مسلم (1215)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام نے ایک ہی سعی کی) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ میں سے جو حج قران کرنے والے صحابہ تھے انہوں نے صفا مروہ کے مابین صرف ایک ہی سعی کی، اور جو حج تمتع کرنے والے تھے انہوں نے دو بار سعی کی ایک سعی عمرہ کے لیے اور دوسری سعی یوم النحر (عید کے دن) اپنے حج کے لیے۔
اس حدیث میں واضح طور پر امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کی دلیل پائی جاتی ہے کہ حج قران کرنے والے پر صرف ایک ہی طواف افاضہ اور ایک ہی سعی ہے۔
② سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: جنھوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا (اور وہ حج تمتع کرنے والے تھے) انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے مابین سعی کی اور پھر احرام کھول دیا اور جب منیٰ سے واپس آئے تو پھر ایک اور طواف کیا اور جنھوں نے حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا (اور حج قران کر نے والے ہیں) انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا تھا۔ (صحیح بخاری (1556) صحیح مسلم (1211)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج قران کر رہی تھیں رسول اللہ سلم نے نے انھیں فرمایا: (تیرا بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرنا تیرے حج اور عمرے کے لیے کافی ہے) سـنـن ابی داود (1897) علامہ البانی اللہ نے سلسۃ الصحيحة (1984) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز دیکھیں شرح حدیث 205۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 207   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2910  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم نے عمرے کا احرام باندھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس ہدی ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کے لیے بھی تلبیہ کہے، پھر وہ جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے، اس وقت تک احرام نہ کھولے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں مکہ، حیض کی حالت میں پہنچی، اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ ہی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2910]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حج کب فرض ہوا اس کے بارے میں اختلاف ہے۔
مشہور قول دو ہیں سن 6 ہجری اور سن 9 ہجری صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ سن 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد،
جب مکہ معظمہ پر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو گیا تو سن 9 ہجری میں حج فرض ہوا،
لیکن اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج نہیں کیا بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیرحج بنا کر بھیجا اور اس حج میں چند اہم اعلانات کروائے گئے تاکہ جب آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود حج فرمائیں تو اس میں جاہلیت کے گندے اور مشرکانہ طور طریقوں کی آمیزش نہ ہو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کرنے کے صحیح طور طریقے سیکھ لیں۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی خصوصی اہتمام سے تشہیر کروائی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس مبارک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل اوراحکام سیکھ سکیں۔
اس لیے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کی خاطر جوق درجوق اس حج میں شرکت کے لیے آئے اورراستہ میں بھی رفقائے سفر میں اضافہ ہوتا رہا۔

حج کی اقسام:
حج کی تین قسمیں ہیں۔

حج افراد۔
جس کے لیے میقات سے جانے والا اپنے مقررہ میقات سے صرف حج کا احرام باندھتا ہے اورحج سے فراغت تک محرم ہی رہتا ہے۔

حج تمتع۔
حج کے لیے جانے والا اپنے میقات سے صرف عمرہ کے لیے احرام باندھتا ہے اور یہ احرام حج کے مہینوں میں باندھا جائے گا۔
پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کرتاہے اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے پھر تحلیق یا تقصیر کے بعد احرام کھول دیتا ہے اور آٹھ ذوالحجہ کو نئے سرے سے حج کے لیے احرام باندھتا ہے اور حج کے تمام افعال نئے سرے سے ادا کرتا ہے۔
یعنی دس(10)
ذوالحجہ کو منیٰ سے آ کر طواف افاضہ کے بعد صفا اومروہ کے درمیان سعی کرتا ہے اورحج سے فارغ ہو جاتا ہے طواف افاضہ سے پہلے،
رمی۔
قربانی اور تحلیق یا تقصیر کر لیتا ہے۔

حج قِران۔
جس کے لیے حاجی میقات سے عمرہ اور حج دونوں کے لیے احرام باندھتا ہے اورعمرہ کرنے کے بعد احرام نہیں کھولتا بلکہ حج سے فراغت کے بعد حلال ہوتا ہے۔
یعنی طواف افاضہ سے پہلے احرام کھولتا ہے جبکہ وہ قربانی کرنے کے بعد تحلیق یا تقصیر کر لیتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن 25 ذوالحجہ سن 10 ہجری کو نماز ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے نکلے ہیں اور رات ذوالحلیفہ میں گزاری ہے اگلے دن اتوار کو نماز ظہر کے بعد مسجد ذوالحلیفہ سے احرام باندھا ہے چونکہ عربوں کا دستور یہ چلا آ رہا تھا کہ وہ جب حج کے لیے نکلتے تو صرف حج کا احرام باندھتے تھے حج کے ساتھ عمرہ نہیں کرتے تھے اس لیے مدینہ منورہ سے نکلتے وقت سب کا ارادہ صرف حج ہی کا تھا۔
لیکن جب وادی عقیق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحج کے ساتھ عمرہ کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عمرہ کا تلبیہ کہنے کا مشورہ دیا۔
اس لیے بعض لوگوں نے یہاں سے صرف عمرہ کا تلبیہ کہنا شروع کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چونکہ ہدی (قربانی کاجانور)
تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ عمرہ کو بھی ملا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن بن گئے،
ازواج مطہرات نے بھی عمرہ کا تلبیہ کہنا شروع کر دیا اور حج کو فسخ کر ڈالا لیکن کچھ لوگ صرف حج کے احرام پر قائم رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ اور صفا اورمروہ کے طواف سے فراغت کے بعد ان تمام لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم دیا جن کے پاس قربانی نہیں تھی،
اس طرح یہ سب لوگ متمتع ہو گئے،
اگرچہ جب مدینہ سے چلے تھے تو سب کا ارادہ حج افراد کا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے یہ عذر پیش فرمایا چونکہ میرے پاس ہدی ہے اس لیے میں احرام کھول کر متمتع نہیں بن سکتا۔
اگرمیرے پاس قربانی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح عمرہ کرنے کے بعد احرام کھو ل دیتا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی دوسری ازواج مطہرات کی طرح پہلے عمرہ کرنے کی نیت کر لی تھی لیکن چونکہ وہ طواف بیت اللہ سے پہلے حائضہ ہو گئیں تھیں اس لیے وہ پہلے عمرہ نہ کر سکیں۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی حج قرآن کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس میں عمرہ کے افعال حج کے افعال میں داخل ہو جاتے ہیں اس لیے جن لوگوں نے حج قران کیا تھا انہوں نے صفا اورمروہ کےدرمیان سعی صرف ایک دفعہ کی جبکہ حج تمتع کرنے والوں نے طواف افاضہ کرنے کے بعد دوبارہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چونکہ حج تمتع کا ارادہ کرلیا تھا جس میں عمرہ اورحج الگ الگ ہوتے ہیں لیکن وہ حیض کے عذر کی بنا پر الگ عمرہ نہ کرسکیں جبکہ باقی ازواج مطہرات نے الگ عمرہ کرلیا تھا اس لیے ان کی خواہش تھی کہ میں بھی الگ عمرہ کروں حالانکہ حج قران کے ساتھ ان کا عمرہ ہو چکا تھا۔
ان کی خواہش کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے فراغت کے بعد انہیں عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مقام تنعیم سے جو حل میں واقع ہے دوبارہ عمرہ کروایا۔

حج کی تینوں قسموں کے جواز میں ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
کے نزدیک حج افراد افضل ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع اورحج قرآن دونوں حج افراد سے افضل ہیں۔
اما ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج قران افضل ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع افضل ہے۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک متمتع سے وہ قارن افضل ہے جو قربانی ساتھ لاتا ہے اگرقربانی ساتھ نہیں لاتا تو متمتع افضل ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اورمحدثین کے نزدیک قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی فرض ہے اور متمتع کے لیے دو طواف اور دوسعی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قارن کے لیے بھی دو طواف اوردو سعی لازم ہیں۔
لیکن یہ مؤقف صحیح حدیث کے خلاف ضعیف احادیث کی بنیاد پر ہے جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زادالمعاد میں تفصیل سے بیان کیا ہے (زادالمعادج 2ص: 136تا 140)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے حضرات کا ایک قول یہ ہے کہ متمتع بھی ایک سعی پر کفایت کر سکتا ہے۔
اگرچہ افضل دو سعی ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2910   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2911  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم میں سے بعض نے عمرہ کا تلبیہ کہا اور کسی نے حج کا، حتی کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ حلال ہو جائے، (تحلیق و تقصیر کر لے) اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی ساتھ لایا ہے تو وہ اس وقت تک احرام نہ کھولے، جب تک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2911]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو مکمل کرنے کا حکم اس وقت دیا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی ان تمام لوگوں کے لیے حج فسخ کر کے عمرہ کا حکم نہیں دیا تھا جن کے پاس ہدی نہیں تھی،
لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم دے دیا تھا جن کے پاس قربانی نہیں تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مکہ پہنچنے سے پہلے سرف مقام پر حیض آنا شروع ہو گیا تھا اس لیے وہ طواف بیت اللہ نہیں کر سکتی تھیں اور طواف بیت اللہ کے بغیر صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں ہو سکتی،
اس لیے وہ عمرہ نہ کرسکیں اور عمرہ کے ساتھ ہی حج کا ارادہ کر کے اسے قران بنا لیا جیسا کہ آگے اس کی صراحت آ جائے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2911   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2913  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو حج اور عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، ایسا کر لے اور جو صرف حج کا احرام باندھنا چاہے، وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے، وہ اس کا احرام باندھ لے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور کچھ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2913]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
لوگوں کی یہ تقسیم آغاز سفر کے اعتبار سے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے صرف حج کا احرام باندھا تھا آگے جا کر اس میں عمرہ کو داخل کر لیا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن ہو گئےکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پہلی روایت میں گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
جس کے ساتھ ہدی ہے وہ حج کے ساتھ عمر کا احرام باندھ لے۔
اور آخر کار تمام وہ لوگ جن کے ساتھ ہدی نہیں تھی۔
وہ متمتع بن گئے تھے خواہ پہلے انھوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا یا صرف حج کا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2913   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2917  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم میں سے بعض کو عمرہ کا احرام تھا، بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اور بعض نے صرف حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، جن لوگوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، وہ (عمرے کے افعال ادا کرنے کے بعد) حلال ہو گئے، رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، یا حج اور عمرہ کا احرام... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2917]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کو منکر قرار دیا گیا ہے،
حالانکہ اس حدیث کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ نے ابھی ان لوگوں کو جن کے پاس قربانی نہیں تھی،
حج کو فسخ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا تو ان کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ دس ذوالحجہ سے پہلے احرام نہ کھولیں بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان کو محرم رہنے کی اجازت دی تھی جو گھر سے قربانی ساتھ لائے تھے اس لیے اب صرف حج کرنے والا کوئی نہیں رہ گیا تھا قربانی ساتھ لانے والے قارن تھے اور جن کے پاس قربانی نہیں تھی وہ متمتع بن گئے تھے ہاں اگر اس توجیہ کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر یہ حدیث دوسری صحیح حدیثوں کے خلاف ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2917   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2921  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج مفرد کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2921]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوسری روایات کی روشنی میں اس حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حج تمتع کرنے والوں کی طرح الگ عمرہ نہیں کیا،
یا اس سے مراد ابتدائی حالت کو بیان کرنا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2921   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1638  
1638. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرا ہ نکلے اور عمرے کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے، پھر وہ احرام کی پابندی سے آزاد نہیں ہو گا تاآنکہ وہ انھیں پورا کرے۔ میں جب مکہ مکرمہ آئی تو حالت حیض میں تھی۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا تو آپ نے مجھے عبد الرحمٰن ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا۔ وہاں سے میں نے عمرہ مکمل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمھارے پہلے عمرے کا بدل ہے۔ جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا انھوں نے طواف کیا اور احرام کی پابندی سے آزاد ہو گئے، پھر انھوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد ایک اور طواف کیا۔ اور جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1638]
حدیث حاشیہ:
تنعیم ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے تین میل دور ہے۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تطییب خاطر کے لیے وہاں بھیج کر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے فرمایا تھا۔
آخر حدیث میں ذکر ہے کہ جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ہی احرام باندھا تھا۔
انہوں نے بھی ایک ہی طواف کیا اور ایک ہی سعی کی۔
جمہور علماء اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی حج اور عمرہ دونوں کی طرف سے کافی ہے اورحضرت امام ابوحنیفہ ؓ نے دو طواف اور دو سعی لازم رکھے ہیں اور جن روایتوں سے دلیل لی ہے، وہ سب ضعیف ہیں (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1638   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1709  
1709. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم پچیس ذوالقعدہ کو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر چکے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا: یہ گوشت کیسا ہے؟لانے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ راوی حدیث یحییٰ بن سعید نے اس حدیث کا ذکر قاسم سے کیا تو اس نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1709]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اعتراض ہوا ہے کہ ترجمہ باب تو گائے کا ذبح کرنا مذکور ہے اور حدیث میں نحر کا لفظ ہے تو حدیث باب سے مطابق نہیں ہوئی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں نحر سے ذبح مراد ہے چنانچہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں جو آگے مذکور ہوگا ذبح کا لفظ ہے اور گائے کا نحر کرنا بھی جائز ہے مگر ذبح کرنا علماءنے بہتر سمجھا ہے اور قرآن شریف میں بھی ﴿أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾ (البقرة: 67)
وارد ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی فرمائی تھی، گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ مسلمہ ہے، حج کے موقع پر تو یہ ہر مسلمان کرسکتا ہے مگر عید الاضحی پر یہاں اپنا ہاں کے ملکی قانون (بھارتی قانون)
کی بنا پر بہتر یہی ہے کہ صرف بکرے یا دنبہ کی قربانی کی جائے اور گائے کی قربانی نہ کی جائے جس سے یہاں بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ قرآنی اصول ہے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أما التعبير بالذبح مع أن حديث الباب بلفظ النحر فإشارة إلى ما ورد في بعض طرقه بلفظ الذبح وسيأتي بعد سبعة أبواب من طريق سليمان بن بلال عن يحيى بن سعيد ونحر البقر جائز عند العلماء إلا أن الذبح مستحب عندهم لقوله تعالى إن الله يأمركم أن تذبحوا بقرة وخالف الحسن بن صالح فاستحب نحرها وأما قوله من غير أمرهن فأخذه من استفهام عائشة عن اللحم لما دخل به عليها ولو كان ذبحه بعلمها لم تحتج إلى الاستفهام لكن ليس ذلك دافعا للاحتمال فيجوز أن يكون علمها بذلك تقدم بأن يكون استأذنهن في ذلك لكن لما أدخل اللحم عليها احتمل عندها أن يكون هو الذي وقع الاستئذان فيه وأن يكون غير ذلك فاستفهمت عنه لذلك۔
(فتح)
یعنی حدیث الباب میں لفظ نحر کو ذبح سے تعبیر کرنا حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں بجائے نحر کے لفظ ذبح ہی وارد ہوا ہے جیسا کہ عنقریب وہ حدیث آئے گی۔
گائے کا نحر کرنا بھی علماءکے نزدیک جائز ہے مگر مستحب ذبح کرنا ہے کیوں کہ بمطابق آیت قرآنی بے شک اللہ تمہیں گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں لفظ ذبح گائے کے لیے استعمال ہوا ہے، حسن بن صالح نے نحر کو مستحب قرار دیا ہے اور باب میں لفظ ''من غیر أمرهن'' حضرت عائشہ ؓ کے استفہام سے لیا گیا ہے کہ جب وہ گوشت آیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے اگر ان کے علم سے ذبح ہوتا تو استفہام کی حاجت نہ ہوتی، لیکن اس توجیہ سے احتمال دفع نہیں ہوتا، پس ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو پہلے ہی اس کا علم ہو جب کہ ان سے اجازت لے کر ہی یہ قربانی ان کی طرف سے کی گئی ہوگی۔
اس وقت حضرت عائشہ ؓ کو خیال ہوا کہ یہ وہی اجازت والی قربانی کا گوشت ہے یا اس کے سوا اور کوئی ہے اسی لیے انہوں نے دریافت فرمایا، اس توجیہ سے یہ اعتراض بھی دفع ہو گیا کہ جب بغیر اجازت کے قربانی جائزنہیں جن کی طرف سے کی جارہی ہے تو یہ قربانی ازواج النبی ﷺ کی طرف سے کیوں کر جائز ہوگی۔
پس ان کی اجازت ہی سے کی گئی مگر گوشت آتے وقت انہوں نے تحقیق کے لیے دریافت کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1709   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1788  
1788. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم حج کے مہینوں میں حج کے اوقات میں احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ جب ہم نے مقام سرف پر پڑاؤ کیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں اور وہ اسے عمرے کے احرام میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اہل ثروت کے پاس قربانی کے جانور تھے۔ لہذا ان کےلیے یہ الگ عمرہ نہ ہوا۔ اس دوران میں نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: کیوں رو رہی ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو بات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمائی ہے اسے میں نے سن لیا ہے لیکن میں عمرے سے روک دی گئی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ایساکیوں ہے؟ میں نے کہا میں نماز پڑھ سکتی ہوں، رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1788]
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒ نے کہا اس روایت میں غلطی ہو گئی ہے صحیح یوں ہے کہ لوگ چل کھڑے ہوئے پھر آپ ﷺ نے بیت اللہ کا طوا ف کیا۔
امام مسلم اور ابوداؤد کی روایتوں میں ایسا ہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1788   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4395  
4395. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا۔ پھر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھے اور اس وقت تک محرم رہے جب تک حج اور عمرے دونوں سے فارغ نہ ہو جائے۔ جب میں آپ ﷺ کے ہمراہ مکہ پہنچی تو مجھے حیض آ چکا تھا، اس لیے میں نے نہ بیت اللہ کا طواف کیا اور نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی ہی کر سکی، اس بات کا میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا: سر کے بال کھول دو اور ان میں کنگھی کر لو، نیز عمرہ ترک کر کے حج کا احرام باندھ لو۔ چنانچہ میں نے حسب ارشاد ایسا ہی کر لیا۔ جب ہم نے حج کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تنعیم کی طرف بھیجا تو میں نے وہاں سے عمرہ کیا۔ آپ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4395]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ عمرہ کے ارکان حج میں شریک ہوگئے۔
علیحدہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
اس میں حنفیہ کا اختلاف ہے۔
یہ حدیث کتاب الحج میں گزر چکی ہے لیکن صرف اس لیے لائے کہ اس میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4395   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4408  
4408. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے تو کچھ لوگ ہم میں سے عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھے اور کچھ صرف حج کا جبکہ کچھ حضرات نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حج کی نیت کی تھی۔ جو لوگ صرف حج کا احرام باندھے ہوئے تھے یا جنہوں نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا تھا وہ قربانی کے دن حلال ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4408]
حدیث حاشیہ:
سفر حج میں میقات پرپہنچنے کے بعد حاجی کو اختیار ہے کہ وہ تین قسم کی نیت میں سے چاہے جس نیت کے ساتھ احرام باندھے۔
حج تمتع کی نیت سے احرام باندھنا بہتر ہے۔
جس میں حاجی مکہ شریف پہنچ کر فورا ہی عمرہ کر کے احرام کھول دیتا ہے اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو از سر نو حج کا احرام باندھ کرمنیٰ کا سفر شرو ع کرتا ہے۔
اس احرام میں حاجی کے لیے ہر قسم کی سہولتیں ہیں۔
حج قران جس میں عمرہ پھر حج ایک ہی احرام سے کیا جاتا ہے اور خالی حج ہی کی نیت کر ناحج افراد کہلاتاہے۔
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، پھر یہی حدیث بیان کی۔
اس میں یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع (کے لیے ہم نکلے)
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ہم سے امام مالک نے بیان کیا، اسی طرح جو پہلے مذکور ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4408   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1556  
1556. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نکلے پہلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے اسے عمرے کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہیے، پھر ایسا شخص حج اور عمرہ دونوں سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوگا۔ حضر ت ام المومنین ؓ فرماتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ آئی تو بحالت حیض تھی، اس لیے بیت اللہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی نہ کرسکی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا: اپنے سر کے بال کھول کر ان میں کنگھی کر لو اور عمرے کو چھوڑ کر صرف حج کی نیت کرلو۔ میں نے تعمیل حکم کی۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے میرے بھائی حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا تو میں نے وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1556]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
حضرت نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ چھوڑنے کے لئے فرمایا۔
یہیں سے ترجمہ باب نکلا کہ حیض والی عورت کو صرف حج کا احرام باندھنا درست ہے، وہ احرام کا دوگانہ نہ پڑھے۔
صرف لبیک پکارکر حج کی نیت کرلے۔
اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ حضرت عائشہ ؓ نے عمرہ چھوڑدیا اور حج مفرد کا احرام باندھا۔
حنفیہ کا یہی قول ہے اور شافعی کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ عمرہ کو بالفعل رہنے دے۔
حج کے ارکان ادا کرنا شروع کردے، تو حضرت عائشہ ؓ نے قران کیا، اور سرکھولنے اور کنگھی کرنے میں احرام کی حالت میں قباحت نہیں۔
اگر بال نہ گریں مگر یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے۔
(وحیدی)
وأما الذین جمعوا الحج والعمرة سے معلوم ہوا کہ قارن کو ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے اور عمرے کے افعال حج میں شریک ہوجاتے ہیں۔
امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
اس کے خلاف کوئی پختہ دلیل نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1556   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2952  
2952. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (جج کے لیے) اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ اس وقت حج کے علاوہ ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا۔ جب ہم مکےکےقریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ جب بیت اللہ کے طواف اور صفاو مروہ کی سعی سے فارغ ہو تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو ہمارے ہاں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے دریافت کیا: یہ گوشت کیسا ہے؟ ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے (یہ اس کا گوشت ہے۔) - [صحيح بخاري، حديث نمبر:2952]
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی آنحضرتﷺ کے سفر حج مبارک کا ذکر ہے کہ آپﷺ آخر ماہ میں اس کے لئے نکلے اور یہ موقع بھی ایسا ہی تھا۔
پس جہاد کے لئے بھی امام جیسا موقع دیکھے سفر شروع کرے۔
اگر مہینہ کے آخری دنوں میں نکلنے کا موقع مل سکے تو یہ اور بہتر ہوگا کہ سنت نبوی پر عمل ہوسکے گا۔
بہرحال یہ امام کی صواب دید پر ہے۔
روایت میں حضرت امام مالک ؒ کا نام آیا ہے‘ جن کا نام مالک بن انس بن مالک بن عامر اصجی ہے۔
ابو عبداللہ کنیت ہے‘ إمام دارلحجرة و أمیر المؤمنین في الحدیث کے لقب سے مشہور ہیں ان کے دادا عامر اصجی صحابی ہیں جو بدر کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔
امام صاحب ۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔
تبع تابعین میں سے ہیں۔
اگرچہ مدینہ مولد و مسکن تھا مگر کسی صحابی کے دیدار سے مشرف نہیں ہوئے۔
یہ شرف کیا کم ہے کہ إمام دار الھجرة تھے۔
حرم محترم نبیﷺ کے مدرس و مفتی نافع ربیعہ رائی‘ امام جعفر صادق اور ابو حازم وغیرہ بہت شیوخ سے علم حاصل کیا جن کی تعداد نو سو بیان کی گئی ہے۔
نافع نے وفات پائی تو امام صاحب ان کے جانشین ہوئے‘ اس وقت آپ کی سترہ سال کی عمر تھی۔
امام صاحب کی جائے سکونت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا مکان اور نشست گاہ حضرت عمر ؓ کا مکان تھا۔
امام صاحب کی مجلس درس نہایت آراستہ وپیراستہ ہوتی تھی۔
سب لوگ مؤدب بیٹھتے تھے‘ امام صاحب غسل کرکے خوشبو لگا کر عمدہ لباس پہن کر نہایت وقار و متانت سے بیٹھتے تھے‘ خلیفہ ہارون رشید خود حاضر درس ہوتا تھا‘ عالم شرق سے غرب تک امام صاحب کے آوازہ شہرت سے گونج اٹھا۔
شیخ عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ روئے زمین پر مالک سے بڑھ کر کوئی حدیث نبوی کا امانت دار نہیں۔
امام صاحب نے ایک لاکھ حدیثیں لکھی تھیں ان کا انتخاب مؤطا ہے (مقدمہ شرح مؤطا)
امام صاحب سخی و عابد و مرتاض تھے۔
اہل علم کی بہت مدد کرتے تھے‘ امام شافعیؒ کو گیارہ ہزار دیتے تھے‘ امام صاحب کے اصطبل میں بہت سے گھوڑے تھے مگر کبھی گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ میں نہ نکلتے تھے۔
فرمایا کرتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جو زمین رسول کریمﷺ کے قدم مبارک سے مشرف ہوئی ہے اس کو میں جانوروں کے سموں سے روندوں۔
امام صاحب کے تلامذہ کی تعداد تیرہ سو ہے‘ ان میں بڑے بڑے ائمہ اور محدثین اور امراء شامل ہیں۔
مالکی مذہب کی پیروی کرنے والے عرب اور شمالی افریقہ میں ہیں۔
امام مالک کی بہت سی تصانیف ہیں زیادہ مشہور مؤطا ہے۔
کتاب المسائل ہیں۔
خلیفہ ابو العباس سفاح کے سامنے بہت سے منتشر اوراق پڑھے تھے جن کے متعلق خلیفہ نے کہا کہ یہ امام مالک کے ستر ہزار مسائل کا مجموعہ ہے۔
(تزئین المالك)
جس حدیث کا سلسلہ روایت مالک عن نافع عن ابن عمر ہوگا‘ اس کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں۔
جعفر گورنر مدینہ نے امام صاحب کو حکم دیا کہ آئندہ طلاق (جبری)
کا فتویٰ نہ دیا کریں‘ امام صاحب کو کتمان حق گوارا نہ ہوا۔
تعمیل حکم نہ کی‘ جعفر نے غضب ناک ہو کر ستر کوڑے لگوائے۔
تمام پیٹھ خون آلود ہوگئی‘ دونوں ہاتھ مونڈھوں سے اتر گئے۔
خلیفہ منور جب مدینہ آیا تو امام صاحب سے عذر کیا اور کہا مجھ کو آپ کی تعزیر کا علم نہیں۔
میں جعفر کو سزا دوں گا۔
امام صاحب نے فرمایا میں نے معاف کیا‘ ۱۷۹ھ میں وفات پائی‘ ابن مبارک و یحییٰ قطان ان کے شاگرد تھے۔
امام صاحب اپنے اس شعر کو اکثر پڑھا کرتے تھے جس میں انہوں نے ایک حدیث کے مضمون کو لیا ہے۔
خیر الأمور الدین ما کان سنته وشر الأمور المحدثات البدایع
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2952   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:317  
317. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ہلال ذی الحجہ کے قریب حج کے لیے روانہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص عمرے کا احرام باندھنا چاہے، وہ عمرے کا احرام باندھ لے اور خود میں اگر ہدی (قربانی کا جانور) نہ لایا ہوتا تو عمرے ہی کا احرام باندھتا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا۔ اور میں ان لوگوں میں تھی جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ مجھے عرفے کا دن بحالت حیض آیا، چنانچہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا: عمرہ ترک کر دو اور سر کے بال کھول کر کنگھی کر لو، پھر حج کا احرام باندھ لو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ جب وادی محصب میں پڑاؤ کی رات آئی تو آپ نےمیرے ساتھ میرے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ کو بھیجا۔ میں (ان کے ساتھ) تنعیم تک گئی اور وہاں سے فوت شدہ عمرے کی جگہ دوسرا احرام باندھا۔ ہشام راوی کہتے ہیں کہ اب سب باتوں میں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:317]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غسل حیض میں سر کھولنا ہوگا، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سر نہ کھولنے کا تخفیفی حکم صرف غسل جنابت میں ہے، کیونکہ جنابت کثرت سے پیش آتی ہے، جبکہ غسل حیض مہینے میں ایک مرتبہ کرنا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ عورتیں غسل حیض کے وقت کےصفائی ونظافت کا پورا پورا اہتمام کرتی ہیں۔
جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم ابواب میں ذکر کیا ہے۔

مدینے سے روانہ ہوتے وقت عام لوگوں کا یہی خیال تھا کہ ہم صرف حج کریں گے، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں یہ ایام (اَشهُر حج)
حج کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے اور ان دنوں میں عمرہ کرنے کو بدترین گناہ خیال کیا جاتا تھا۔
اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے قبل ازیں ماہ ذوالقعدہ میں تین دفعہ عمرہ کر کے اس خیال کو عملی طور پر باطل قراردے دیا تھا، مگر آپ نے ان عمروں میں حج ساتھ نہیں کیا تھا، چونکہ یہ روانگی حج کے لیے تھی، اس لیے آپ نے اس کی وضاحت فرمادی اس کے علاوہ آپ نے مزید فرمایا کہ مجھے ایک مجبوری ہے میرے ساتھ قربانی کا جانور ہے اس لیے صرف عمرے کا احرام نہیں باندھ سکتا، اس لیے میری حالت کو نہ دیکھا جائے، بلکہ ہر انسان اپنی اپنی صوابدید کے مطابق عمل کرے۔

حضرت ہشام نے ان تمام باتوں میں ہدی روزہ اور صدقہ وغیرہ کی نفی کی ہے، کیونکہ ایسی چیزیں کسی جنابت کے ارتکاب پر ہوتی ہیں۔
عائشہ ؓ کے ذمے کوئی دم جنابت لازم نہیں آیا، کیونکہ حیض کا آجانا عذر سمادی تھا۔
اس میں ان کے اختیارکوکوئی دخل نہ تھا جبکہ ہدی وغیرہ کسی فعل اختیاری کی وجہ سے ہوتی ہے،4۔
اس حدیث سے متعلقہ دیگر احکام کتاب الحج میں بیان ہوں گے بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 317   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:319  
319. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ حجۃ الوداع کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم میں سے کسی نے عمرے کا احرام باندھا اور کسی نے حج کا۔ جب ہم مکہ مکرمہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عمرے کا احرام باندھا ہے اور وہ قربانی کا جانور ساتھ نہیں لایا تو وہ (عمرہ کرنے کے بعد) حلال ہو جائے۔ اور جس نے عمرے کا احرام باندھا ہے اور ہدی کا جانور ساتھ لایا ہے تو وہ ہدی کی قربانی سے پہلے حلال نہیں ہو گا۔ اور جس نے صرف حج کا احرام باندھا ہے اسے اپنے حج کو پورا کرنا ہو گا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: مجھے حیض آ گیا اور یوم عرفہ تک اسی حالت میں رہی۔ چونکہ میں نے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا، اس لیے نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر کھول کر کنگھی کر لوں، پھر حج کا احرام باندھ لوں اور عمرے کو ترک کر دوں۔ میں نے ایسا ہی کیا تا آنکہ میں نے اپنا حج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:319]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے اس عنوان کا مقصد بایں الفاظ متعین فرمایا ہے کہ آیا حائضہ حج یا عمرے کا احرام باندھ سکتی ہے یا نہیں؟اور عنوان میں لفظ کیف سے کوئی خاص کیفیت مراد نہیں، بلکہ موجودہ صورتحال کو استفہام کے انداز میں بیان کرنے کے لیے کیف کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس تقریر سے ان لوگوں کا اعتراض ختم ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ حدیث اور عنوان میں مطابقت نہیں، کیونکہ حدیث میں کسی خاص کیفیت کا تذکرہ نہیں ہے جس سے عنوان ثابت ہوتا ہو۔
(فتح الباري: 543/1)

اس کے بعد حافظ ابن حجر نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ حائضہ عورت دوران حیض میں احرام باندھ سکتی ہے، لیکن لغوی لحاظ سے لفظ (كَيْفَ)
حالت سے متعلق سوال کرنے کے لیے آتا ہے، اس لیے عنوان کا مطلب یہ ہے کہ حائضہ کس حالت و کیفیت کے ساتھ احرام باندھے؟ یعنی غسل کر کے احرام باندھے یا غسل کے بغیر ہی احرام باندھ لے؟ روایت سے ثابت ہوا کہ حائضہ غسل کر کے احرام باندھے۔
جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، الحج, حدیث: 2937 (1213)
ویسے بھی سر کھولنا اور کنگھی کرنا غسل سے کنایہ ہیں۔
اس عنوان کی ضرورت اس لیے ہے کہ حیض کی حالت میں غسل کرنے سے طہارت حاصل نہیں ہوگی اس لیے حائضہ کا غسل کرنا چہ معنی وارد؟روایت سے پتہ چلا کہ حائضہ کا غسل کرنا فائدے سے خالی نہیں، کیونکہ غسل کرنا احرام کی سنت ہے کم ازکم وہ تو حاصل ہو جائے گی۔
اس لیے حائضہ کو چاہیے کہ حالت حیض میں اس سنت کو ترک نہ کرے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ احرام کےوقت غسل کرنا نظافت و صفائی کے لیے ہے، خاص طور پر حائضہ عورت کے لیے بطور طہارت نہیں، کیونکہ خون حیض کے انقطاع سے پہلے طہارت کا حصول ممکن ہی نہیں لہٰذا حائضہ کو چاہیے کہ وہ احرام سے پہلے غسل نظافت کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 319   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1556  
1556. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نکلے پہلے ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے اسے عمرے کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لینا چاہیے، پھر ایسا شخص حج اور عمرہ دونوں سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوگا۔ حضر ت ام المومنین ؓ فرماتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ آئی تو بحالت حیض تھی، اس لیے بیت اللہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی نہ کرسکی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا: اپنے سر کے بال کھول کر ان میں کنگھی کر لو اور عمرے کو چھوڑ کر صرف حج کی نیت کرلو۔ میں نے تعمیل حکم کی۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے میرے بھائی حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا تو میں نے وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1556]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ ؓ کو تین ذوالحجہ بروز ہفتہ مقام سرف پر حیض آیا اور دس ذوالحجہ بروز ہفتہ وہ حیض سے پاک ہو گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت کو صرف حج کا احرام باندھنا چاہیے، وہ لبیک پکار کر حج کی نیت کرے۔
(2)
بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ عمرہ کو بالفعل رہنے دے اور حج کے ارکان شروع کر دے، اس دوران میں سر کھولنے اور کنگھی کرنے سے احرام ختم نہیں ہو گا، مگر یہ موقف ظاہر حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فراغت حج کے بعد عمرہ دوبارہ کیا تھا۔
اسی طرح جن لوگوں نے حج قران کی نیت کی ہو انہیں ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے کیونکہ عمرے کے افعال حج میں شامل ہو جاتے ہیں۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1556   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1560  
1560. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے، پھر ہم نے مقام سرف میں پڑاؤ کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو اور اس احرام سے عمرہ کرنا چاہتا ہوتو ایسا کرسکتا ہے مگر جس کے پاس قربانی کاجانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ حضرت عائشہ نے فرمایاکہ آپ کے اصحاب میں سے بعض نے اس حکم سے فائدہ اٹھایا اور کچھ اس سے قاصر رہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین صاحب حیثیت تھے اور ان کے پاس قربانی کے جانورتھے وہ عمرہ نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے پاس تشریف لائے تو میں رورہی تھی۔ آپ نے فرمایا: اے بھولی بھالی!کیوں روررہی ہو؟ میں نے عرض کیا: حضور!میں نے آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1560]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھنا چاہیے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کے مہینوں، حج کی راتوں اور حج کے احرام میں روانہ ہوئے۔
اس اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا معروف تھا۔
حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا صحیح نہیں۔
حضرت ابن عمر، ابن عباس، جابر بن عبداللہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام و تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ حج کے مہینوں میں حج کا احرام باندھنا حج کے لیے شرط ہے۔
(فتح الباري: 534/3) (2)
حضرت عائشہ ؓ نے حیض کا عارضہ ذکر کرنے کے بجائے ادب کے طور پر یہ فرمایا:
میں نماز کے قابل نہیں رہی۔
یہ اشارہ اس قدر مقبول ہوا کہ اب بھی عورتیں حیض کے موقع پر یہی الفاظ استعمال کرتی ہیں۔
(3)
بخاری کے بعض نسخوں میں يَضُرك کے بجائے يَضِيرك ہے۔
امام بخاری ؒ نے يضيرك کے متعلق فرمایا:
یہ باب یائی اور وادی دونوں طرح ہو سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1560   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1562  
1562. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (مدینہ منورہ سے) روانہ ہوئے تو ہم میں سے بعض نے صرف عمرے کااحرام باندھا تھا اور بعض حضرات نے حج اور عمرے دونوں کا اور کچھ لوگوں نے صرف حج کی نیت سے احرام باندھا تھا۔ البتہ رسول اللہ ﷺ نے صرف حج کرنے کی نیت کی تھی اور اسی کا احرام باندھا تھا، چنانچہ جنھوں نے صرف حج کا یا حج اورعمرے دونوں کا احرام باندھا تھا وہ یوم نحر سے پہلے احرام کی پابندیوں سے آزاد نہ ہوسکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1562]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت سے بھی حج کی تینوں اقسام افراد، قِران اور تمتع کا ثبوت ملتا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ دور جاہلیت میں عربوں کے اعتقاد کے مطابق حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا دنیا کا بدترین گناہ تھا، چنانچہ بیشتر صحابہ کرام ؓ نے صرف حج کا احرام باندھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس فاسد عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
یہ عقیدہ اسلام کے مطابق نہیں، اس لیے تم میں سے جو چاہے وہ عمرے کا احرام باندھ لے اور جو شخص چاہے وہ حج کا احرام باندھ لے۔
اس ہدایت نبوی کے پیش نظر صحابہ کرام ؓ نے حسب استطاعت عمرہ یا حج یا دونوں کا احرام باندھا جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہے۔
بہرحال اس حدیث میں احرام کی تینوں قسميں ذکر ہوئی ہیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد بھی اسی بات کو ثابت کرنا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1562   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1638  
1638. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرا ہ نکلے اور عمرے کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے، پھر وہ احرام کی پابندی سے آزاد نہیں ہو گا تاآنکہ وہ انھیں پورا کرے۔ میں جب مکہ مکرمہ آئی تو حالت حیض میں تھی۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا تو آپ نے مجھے عبد الرحمٰن ؓ کے ہمراہ تنعیم بھیجا۔ وہاں سے میں نے عمرہ مکمل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمھارے پہلے عمرے کا بدل ہے۔ جن لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا انھوں نے طواف کیا اور احرام کی پابندی سے آزاد ہو گئے، پھر انھوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد ایک اور طواف کیا۔ اور جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انھوں نے صرف ایک ہی طواف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1638]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے "طواف القارن" کے الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے۔
اس میں انہوں نے جزم اور وثوق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا کہ قارن کو دو طواف اور دو سعی کرنے چاہئیں یا ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے، البتہ اس سلسلے میں جن احادیث کا انتخاب کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی خیال کرتے ہیں، چنانچہ اس حدیث کے آخر میں صراحت ہے کہ جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔
اس سلسلے میں حضرت علی ؓ سے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تو ان کے لیے دو طواف اور دو سعی کیں، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے، لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے، اس کی سند صحیح نہیں، نیز حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث میں حسن بن عمارہ راوی متروک ہے۔
(فتح الباري: 625/3)
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک ہی طواف (سعی)
کیا۔
(مسندأحمد: 317/3)
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
مسند امام احمد میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمہیں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی طواف کافی ہو جائے گا۔
(مسندأحمد: 124/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1638   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1709  
1709. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم پچیس ذوالقعدہ کو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر چکے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا: یہ گوشت کیسا ہے؟لانے والے نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی ہے۔ راوی حدیث یحییٰ بن سعید نے اس حدیث کا ذکر قاسم سے کیا تو اس نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1709]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جب گائے کا گوشت لایا گیا تو انہوں نے اس کے متعلق پوچھا۔
اگر انہوں نے اجازت دی ہوتی تو پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ازواج مطہرات سے اس کی اجازت لی ہو لیکن جب گوشت سامنے آیا تو سوال کیا کہ آیا یہ وہی گوشت ہے جس کی ہم نے اجازت دی تھی یا کوئی دوسرا ہے، البتہ یہ تاویل امام بخاری کے مقصد کے خلاف ہے اور حدیث کا سیاق بھی اسے قبول نہیں کرتا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت یا اس کے علم میں لائے بغیر کوئی کارخیر سرانجام دیتا ہے تو اسے ثواب پہنچتا ہے، نیز اس میں گائے وغیرہ کی قربانی میں شراکت کا ثبوت بھی ہے۔
(3)
اس حدیث کی بنا پر بعض علماء کے نزدیک گائے کو نحر کرنا بھی جائز ہے لیکن ذبح کرنا مستحب ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً﴾ بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔
(البقرة: 67: 2، و فتح الباري: 695/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1709   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1720  
1720. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ماہ ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ہم نے صرف حج کا ارادہ کیا تھا۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ہمراہ قربانی نہیں ہے وہ جب بیت اللہ کا طواف کرلے تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہمارے پاس قربانی کے دن گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟بتایا گیا کہ نبی ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے اسے ذبح کیا ہے۔ راوی حدیث یحییٰ نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر جناب قاسم سے کیا تو انھوں نے کہا: عمرہ نے یہ حدیث تم سے ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1720]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھایا جا سکتا ہے، اسے سارے کا سارا صدقہ کرنا ضروری نہیں۔
(2)
قربانی کا گوشت کتنا خود استعمال کرنا ہے اور کتنا صدقہ کرنا ہے؟ اس کے متعلق کوئی متعین مقدار بیان نہیں ہوئی۔
بہتر ہے کہ اس کے تین حصے کر لیے جائیں:
ایک حصہ خود استعمال کرے، ایک حصہ دوست احباب کو تحفے میں دے اور ایک حصہ صدقہ و خیرات کر دے، چنانچہ عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت علقمہ کو حکم دیتے تھے کہ وہ قربانی کے تین حصے کرے:
ایک تہائی صدقہ و خیرات کر دے، ایک حصہ اپنے استعمال کے لیے رکھ لے اور ایک تہائی دوستوں کو بطور تحفہ بھیج دے۔
(عمدةالقاري: 33/7)
قرآن کی ایک آیت سے بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے۔
(الحج: 36: 22)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1720   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1783  
1783. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوچکا تھا۔ آپ نے ہمیں فرمایا: تم میں سے جو حج کا احرام باندھنا چاہتا ہے۔ وہ حج کا احرام باندھ لے اور جو عمرے کا احرام باندھنا پسند کرتا ہے وہ عمرے کا احرام باندھ لے۔ اگر میں نے قربانی ساتھ نہ لی ہوتی تو میں بھی عمرے کا احرام باندھتا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے بعض نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا احرام باندھ لیا اور میں ان لوگوں سے تھی جنھوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ عرفہ کا دن آیا تو مجھے حیض نے آلیا۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: عمرہ چھوڑ کر اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرلو پھر حج کا احرام باندھ لو۔ جب محصب کی رات تھی تو آپ نے میرے ساتھ حضرت عبدالرحمان ؓ کو تنعیم بھیجا تو میں نے گزشتہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1783]
حدیث حاشیہ:
(1)
ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ کو رات کے وقت رسول اللہ ﷺ نے تکمیل حج کے بعد مدینہ طیبہ کی طرف کوچ فرمایا تھا۔
چونکہ آپ کا پڑاؤ وادئ محصب میں تھا، اس لیے کوچ کی رات کو لیلۃ الحصبہ یا لیلۂ محصب کہا جاتا ہے۔
اس رات بعض ائمہ کرام نے عمرے کی ادائیگی کو مکروہ خیال کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اس رات یا اس کے علاوہ دیگر اوقات میں عمرہ کرنا جائز ہے کیونکہ حج کی تکمیل ہو چکی ہے، اس لیے عمرہ کرنے پر پابندی لگانا بے بنیاد ہے۔
(2)
ابن بطال فرماتے ہیں:
اس عنوان کا فقہی مسئلہ یہ ہے کہ حاجی جب اعمال حج مکمل کر لیتا ہے تو ایام تشریق کے ختم ہوتے ہی عمرہ کر سکتا ہے جیسا کہ حدیث عائشہ سے واضح ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 764/3)
البتہ ایام تشریق میں عمرہ کرنے کے متعلق اختلاف ہے۔
بعض حضرات کے نزدیک ان دنوں میں عمرہ کرنا درست نہیں کیونکہ ابھی اعمال حج مکمل نہیں ہوئے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے عمرے کا وعدہ فرمایا تھا۔
اگر ایام تشریق میں عمرہ کرنا جائز ہوتا تو آپ ان ایام میں انہیں عمرہ کرنے کا حکم فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایام حج کے فورا بعد انہیں عمرہ کرنے کا حکم دیا۔
(عمدةالقاري: 416/7)
واللہ أعلم۔
(3)
ہمارے نزدیک بھی یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق میں عمرہ کرنا حاجی کے لیے درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اعمال حج کی ادائیگی متاثر ہو گی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1783   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1786  
1786. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اس وقت (سفر حج پر) روانہ ہوئے جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص چاہے وہ عمرے کا احرام باندھ لے اور جو شخص حج کا ا حرام باندھنا پسند کرے وہ اس کا احرام باندھ لے اور اگر میں نے قربانی ساتھ نہ لی ہوتی تو میں عمرے کا احرام باندھتا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے بعض نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کااحرام باندھا۔ اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنھوں نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مجھے حیض آگیا اور مجھے یوم عرفہ نے اسی حالت میں آلیا کہ میں بحالت حیض تھی۔ میں نے اس بات کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی تو آپ نے فرمایا: عمرہ چھوڑ دو۔ سر کے بال کھول کر ان میں کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب محصب کی رات آئی تو آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1786]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ماہ ذوالحجہ میں حج کے بعد اگر کوئی عمرے کا احرام باندھتا ہے تو اسے قربانی دینی ہو گی۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید کی ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے حج کے بعد اور ایام تشریق گزر جانے کے بعد کیا جائے اس عمرے میں کوئی چیز واجب نہیں ہوتی کیونکہ وہ متمتع نہیں۔
متمتع وہ شخص ہے جو حج کے دنوں میں عمرے کرے اور وقوف عرفہ سے پہلے طواف کرے، اسے دم تمتع دینا ہوتا ہے۔
اور جو شخص اعمال حج ادا کرنے کے بعد عمرہ کرتا ہے اس پر ہدی، صدقہ اور روزہ وغیرہ واجب نہیں۔
(عمدةالقاري: 422/7) (2)
امام ابن خزیمہ ؒ اس حدیث کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پہلا عمرہ ترک کرنے اور اسے حج میں داخل کرنے سے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی اور نہ مقام تنعیم ہی سے عمرہ کرنے میں کوئی شے واجب ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس تاویل کو حسن قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 770/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1786   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1788  
1788. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم حج کے مہینوں میں حج کے اوقات میں احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ جب ہم نے مقام سرف پر پڑاؤ کیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں اور وہ اسے عمرے کے احرام میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اہل ثروت کے پاس قربانی کے جانور تھے۔ لہذا ان کےلیے یہ الگ عمرہ نہ ہوا۔ اس دوران میں نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: کیوں رو رہی ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو بات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمائی ہے اسے میں نے سن لیا ہے لیکن میں عمرے سے روک دی گئی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ایساکیوں ہے؟ میں نے کہا میں نماز پڑھ سکتی ہوں، رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1788]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ انہوں نے طواف عمرہ کے بعد طواف وداع نہیں کیا۔
غالبا امام بخاری ؒ نے اسی وجہ سے عنوان میں یقینی پہلو اختیار نہیں کیا بلکہ استفسار تک محدود رکھا ہے۔
(2)
ابن بطال نے کہا:
اس بات پر اتفاق ہے کہ عمرہ کرنے والا شخص جو طواف کرے اور اپنے شہر کو روانہ ہو جائے تو وہی طواف وداع کے لیے کافی ہو گا جیسا کہ ام المومنین ؓ نے کیا تھا، اس کے لیے دوبارہ طواف کرنے کی ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 772/3) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام سرف میں اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو فسخ احرام کا حکم دیا تھا کہ وہ اسے عمرے میں بدل لیں اور یہ مقام مکہ مکرمہ سے باہر ہے جبکہ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد حج کے احرام کو فسخ کر کے عمرے کے احرام کا حکم دیا تھا۔
اس میں تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آپ نے متعدد بار یہ حکم دیا ہو۔
(فتح الباري: 772/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1788   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2952  
2952. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (جج کے لیے) اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ اس وقت حج کے علاوہ ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا۔ جب ہم مکےکےقریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ جب بیت اللہ کے طواف اور صفاو مروہ کی سعی سے فارغ ہو تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو ہمارے ہاں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے دریافت کیا: یہ گوشت کیسا ہے؟ ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے (یہ اس کا گوشت ہے۔) - [صحيح بخاري، حديث نمبر:2952]
حدیث حاشیہ:

بعض جاہل لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مہینے کے آغاز میں سفرکرنا چاہیے،مہینے کے آخر میں سفر کرنا نحوست کا باعث ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس غلط عقیدے کی تردید کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفرحج کے لیے ماہ ذی القعدہ کے آخر میں روانہ ہوئے۔
اگراس وقت سفر کرنا منحوس ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے۔
اس سفر کا تعلق اگرچہ حج سے ہے مگر جہاد کے سفر کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔

حسب موقع اگر مہینے کے آخر میں سفر جہاد کے لیے نکلنا پڑے تواس میں کوئی حرج نہیں۔
بہرحال یہ امام اور فوج کے قائد کی صوابدید پر موقوف ہے۔
اگرمہینے کے آخری دنوں میں سفر کرنے کا موقع ملے تو یہ مزید بہتر ہوگا کیونکہ سنت پر عمل ہوسکے گا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2952   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4395  
4395. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا۔ پھر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس قربانی ہے وہ حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھے اور اس وقت تک محرم رہے جب تک حج اور عمرے دونوں سے فارغ نہ ہو جائے۔ جب میں آپ ﷺ کے ہمراہ مکہ پہنچی تو مجھے حیض آ چکا تھا، اس لیے میں نے نہ بیت اللہ کا طواف کیا اور نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی ہی کر سکی، اس بات کا میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا: سر کے بال کھول دو اور ان میں کنگھی کر لو، نیز عمرہ ترک کر کے حج کا احرام باندھ لو۔ چنانچہ میں نے حسب ارشاد ایسا ہی کر لیا۔ جب ہم نے حج کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ تنعیم کی طرف بھیجا تو میں نے وہاں سے عمرہ کیا۔ آپ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4395]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس مقام پر اسے بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سفر میں حج میں حضرت عائشہ ؓ نے تین دفعہ رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
ایک دفعہ مقام سرف میں جب آپ کو حیض آگیا تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے تو وہ رورہی تھیں۔
آپ ﷺ نے انھیں تسلی دی کہ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہے جو آدم ؑ کی بیٹیوں کے بارے میں طے شدہ ہے۔
آپ بیت اللہ کا طواف نہ کریں باقی مناسک حج ادا کرتی رہیں۔
دوسری مرتبہ اس وقت آپ سے شکوہ کیا جب آپ منیٰ کی طرف آٹھ ذوالحجہ کو جارہے تھے، جس کا اس حدیث میں ذکر ہے تو آپ نے فرمایا:
"سر کےبال کھول دواور ان میں کنگھی کرلو۔
" تیسری مرتبہ اس وقت شکایت کی جب آپ تیرہ(13)
تاریخ کو مدینہ طیبہ روانہ ہونے کے لیے تیاری کررہے تھے تو عرض کی کہ لوگ تو حج اورعمرہ دو، دوعبادتوں کا ثواب لے کرجارہے ہیں جبکہ میں صرف حج کے ثواب کی مستحق ہوئی توآپ نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ انھیں تنعیم روانہ کیا کہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ لیں اور عمرہ کرلیں۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1561)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4395   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4408  
4408. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے تو کچھ لوگ ہم میں سے عمرے کا احرام باندھے ہوئے تھے اور کچھ صرف حج کا جبکہ کچھ حضرات نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حج کی نیت کی تھی۔ جو لوگ صرف حج کا احرام باندھے ہوئے تھے یا جنہوں نے حج اور عمرے دونوں کا احرام باندھا تھا وہ قربانی کے دن حلال ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4408]
حدیث حاشیہ:
حج کی تین قسمیں ہیں:
حج تمتع، حج قرآن اور حج افراد۔
حاجی کو اختیار ہے کہ وہ حج کی جس قسم کی چاہے نیت کرے لیکن ان میں حج تمتع افضل ہے۔
جس میں حاجی مکہ مکرمہ پہنچ کرعمرہ کرکے احرام کھول دیتا ہے، پھرذوالحجہ کو آٹھ تاریخ کوحج کا احرام باندھ کر منیٰ کاسفر شروع کرتا ہے۔
اس احرام میں حاجی کےلیے ہر قسم کی سہولتیں ہیں۔
حج قرآن جس میں عمرہ پھر حج ایک ہی احرام سے کیاجاتا ہے۔
صرف حج کی نیت کرناحج افراد ہے۔
چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیاہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4408