Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
13. باب جَوَازِ غَسْلِ الْمُحْرِمِ بَدَنَهُ وَرَأْسَهُ:
باب: محرم کے لیے اپنا بدن اور سر دھونے کا جواز۔
حدیث نمبر: 2889
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَهَذَا حَدِيثُهُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أنهما اختلفا بالأبواء، فقال عبد الله بن عباس: يغسل المحرم رأسه، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يَسْتَتِرُ بِثَوْبٍ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، فَقُلْتُ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَسْأَلُكَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟، فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ:" اصْبُبْ، فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ"، ثُمَّ قَالَ:" هَكَذَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ"،
سفیان بن عیینہ اور مالک بن انس نے زید بن اسلم سے انھوں نے ابرا ہیم بن عبد اللہ بن حنین سے انھوں نے اپنے والد (عبد اللہ بن حنین) سے انھوں نے عبد اللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ابو اء کے مقام پر ان دونوں کے در میان اختلا ف ہوا۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: محرم شخص اپنا سر دھو سکتا ہے اور مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: محرم اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے (عبد اللہ بن حنین کو) ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا کہ میں ان سے (اس کے بارے میں) مسئلہ پوچھوں (جب میں ان کے پاس پہنچا تو) انھیں ایک کپڑے سے پردہ کر کے کنویں کی دو لکڑیوں کے در میان (جو کنویں سے فاصلے پر لگا ئی جا تی تھیں اور ان پر لگی ہو ئی چرخی پر سے اونٹ وغیرہ کے ذریعے ڈول کا رسہ کھینچا جا تا تھا) غسل کرتے ہو ئے پایا۔ (عبد اللہ بن حنین نے) کہا: میں نے انھیں سلام کہا: وہ بو لے: یہ کون (آیا) ہے؟میں نے عرض کی: میں عبد اللہ بن حنین ہوں مجھے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کی طرف بھیجا ہے کہ میں اپ سے پو چھوں: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرا م کی حا لت میں اپنا سر کیسے دھو یا کرتے تھے؟ (میری بات سن کر) حضرت ابو اءایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھ کر اسے نیچے کیا حتی کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا پھر اس شخص سے جو آپ پر پانی انڈیل رہا تھا کہا: پانی ڈا لو۔اس نے آپ کے سر پر پا نی انڈیلا پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو خوب حرکت دی اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے لے آئے اور پیچھے لے گئے۔پھر کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہو ئے دیکھا تھا۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مقام ابواء میں اختلاف پیدا ہو گیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، محرم اپنا سر دھو سکتا ہے اور مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، محرم اپنا سر نہیں دھو سکتا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ بن قیس کو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا، (عبداللہ کہتے ہیں) میں نے انہیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان نہاتے ہوئے پایا، جبکہ انہیں ایک کپڑے سے پردہ کیا گیا تھا، میں نے انہیں سلام عرض کیا تو انہوں نے پوچھا، یہ کون ہے؟ میں نے کہا، میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے آپ کے پاس عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے پوچھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ تو حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھ کر اسے نیچے کیا، حتی کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا، (مجھ پر ان کا سر ظاہر ہو گیا) پھر انہوں نے پانی ڈالنے والے انسان کو کہا، پانی ڈال، اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کو حرکت دی، دونوں ہاتھوں کو آگے اور پیچھے لے گئے پھر کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»