Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ
روزوں کے احکام و مسائل
40. باب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِهَا وَبَيَانِ مَحِلِّهَا وَأَرْجَى أَوْقَاتِ طَلَبِهَا:
باب: شب قدر کی فضیلت اور اس کو تلاش کرنے کی ترغیب، اور اس کے تعین کا بیان۔
حدیث نمبر: 2779
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ وَهُوَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا لَيْلَةَ الْقَدْرِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَذْكُرُ حِينَ طَلَعَ الْقَمَرُ، وَهُوَ مِثْلُ شِقِّ جَفْنَةٍ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہم نے آپ میں لیلۃ القدر کا ذکر کیا تو آپ نے فر مایا: "تم میں سے کس کو یا د ہے جب چا ند طلوع ہوا اور وہ پیا لے کے ایک ٹکڑے کے مانند تھا (وہی رات تھی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہم نے لیلہ القدر کا باہمی تذکرہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس کو یاد ہے کہ شب قدر اس رات میں ہے جس کی صبح چاند طشت کے ایک ٹکڑے کی طرح طلوع ہو تا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2779 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2779  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جفنة:
پیالے کو کہتے ہیں اور شق نصف اور آدھے کو،
مقصد یہ ہے کہ یہ رات آخری راتوں میں ہے،
کیونکہ چاند کی یہ کیفیت آخری راتوں میں ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل:

لیلۃ القدر،
قدر کےمختلف معانی ہیں،

تعظیم یا عظمت فرمایا:
﴿وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾ انہوں نے پوری طرح اللہ کی عظمت وبڑائی کو نہیں پہچانا،
اس رات کو عظمت اور بزرگی حاصل ہے۔
کیونکہ اس میں قرآن مجید اترا،
فرشتوں کا نزول ہوتا ہے خیروبرکت اور رحمت ومغفرت کا نزول ہوتا ہے اس میں کیے گئے عمل کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے اور صاحب عمل کو شرف ومنزلت حاصل ہوتی ہے۔

قدر (تضیق وتنگی)
فرمایا:
﴿وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ﴾ جس کا رزق تنگ کر دیا جاتا ہے،
کیونکہ اس کا متعین طور پر یقینی اور قطعی علم نہیں ہے،
علم کی روشنی میں نہیں ہے یا فرشتوں کی کثرت سے زمین تنگ پڑ جاتی ہے۔
قدر:
تقدیر کے معنی میں ہے،
تقدیر کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اپنی حکمت کے تقاضے کے تحت،
مخصوص مقدار،
مخصوص کیفیت وہئیت اور مخصوص مقدار ومدت کے لیے پیدا فرماتا ہے پورے سال کے احکام،
قوموں کے عروج وزوال زندگی،
موت،
رزق،
بارش کے بارے میں فیصلے اس رات طے ہوتے ہیں،
فرمایا:
(فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)
تمام حکیمانہ فیصلے اس مبارک رات میں کیے جاتے ہیں۔

(قَدَر)
:
قدرت وطاقت،
اس رات میں اللہ کی قدرت کا ظہورہوتا ہے ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں سے زیادہ اجروثواب کا باعث بنتی ہے،
ہرکام کی انجام دہی کے لیے اپنے رب کے حکم سے فرشتے اورجبرائیل آتے ہیں،
ہرطرف مسلمانوں اور مومنوں کے لیے سلامتی پھیل جاتی ہے۔

﴿لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ :
﴿لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ﴾ خیروبرکت اور بڑھوتری اور فیضان الٰہی کی رات ہے،
اس میں قرآن جیسی مبارک کتاب نازل ہوئی ہے،
فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ ہم نے اسے قدرومنزلت والی رات میں اتارا ہے اوردوسری جگہ فرمایا:
﴿إِنَّا أَنـزلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ﴾ اور قرآن مجید کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ہے،
اس لیے فرمایا:
﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے،
لہٰذا اس سے یہ بات طے ہو گئی کہ لیلۃ القدر رمضان سے باہر نہیں ہے لیکن یہ رات کون سی ہے؟ اس کا قطعی تعین مشکل ہے کیونکہ اس کی تعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خواب میں کئی دفعہ ہوئی اور ہر دفعہ کسی نہ کسی سبب سے آپ بھول گئے،
اسی لیے کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
اس کو رمضان کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو،
کبھی فرمایا،
اس کو آخری سات راتوں میں تلاش کرو اور کبھی فرمایا:
اس کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو اور کبھی آپﷺ نے اس کی علامت اور نشانی بتلائی،
اس طرح آپﷺ نے اس کو متعین نہیں فرمایا تاکہ لوگ عبادت کو کسی ایک رات کے ساتھ مخصوص نہ کریں،
اس لیے علماء میں اس کی تعین کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں پینتالیس (45)
اقوال نقل کیے ہیں،
صحیح بات یہ ہے کہ یہ آخری عشرہ کی طاق رات ہے اور اس میں بدلتی رہتی ہے،
اگرچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان کردہ قرائن کہ اللہ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں زیادہ پسندیدہ عدد سات ہے۔
سات زمینیں،
سات آسمان،
سات دن،
سات طواف،
سات اعضائے سجود،
سات دفعہ سعی اور لیلۃ القدر میں نو حروف ہیں۔
اور یہ لفظ اس سورۃ میں تین دفعہ آیا ہے لہٰذا ستائیس حروف ہوئے وغیرہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یقین سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زیادہ گردش ستائیسویں میں ہے،
لیکن یہ نہیں کہ ہر دفعہ یہی رات ہو۔

شب قدر:
اپنے اپنے علاقوں یا ملکوں کے اعتبار سے ہے اور ہرملک کے لوگ طاق رات کی تعین اپنے روزوں کے اعتبار سے کریں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2779