Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
23. بَابُ كَلاَمِ الإِمَامِ وَالنَّاسِ فِي خُطْبَةِ الْعِيدِ، وَإِذَا سُئِلَ الإِمَامُ عَنْ شَيْءٍ وَهْوَ يَخْطُبُ:
باب: عید کے خطبہ میں امام کا اور لوگوں کا باتیں کرنا۔
حدیث نمبر: 985
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ جُنْدَبٍ، قَالَ:" صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ ذَبَحَ، فَقَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہو تو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 985 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:985  
حدیث حاشیہ:
(1)
خطبۂ جمعہ کا سننا واجب ہے۔
اس دوران میں گفتگو کرنا منع ہے۔
خطبۂ عید کے متعلق اتنی سختی نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق حدیث میں ہے کہ جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے۔
اور جس کا جی چاہے وہ چلا جائے۔
اس کے علاوہ دیگر مواعظ میں رخصت ہے کہ کوئی اٹھ جائے یا بیٹھ کر سنتا رہے۔
(2)
یہ پابندی صرف مقتدی حضرات کے لیے ہے کیونکہ امام دوران خطبہ میں بات بھی کر سکتا ہے اور کسی کے سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطبۂ عیدین میں کچھ وسعت سمجھتے ہیں۔
مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی کو ثابت کیا گیا ہے۔
گویا اس میں حسب ذیل دو احکام ہیں:
٭ خطبۂ عید کے دوران خطیب اور سامع کسی مسئلے پر گفتگو کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ٭ کیا خطیب سے دوران خطبہ میں کوئی سوال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بعض شارحین نے اس عنوان کو تکرار قرار دیا ہے، حالانکہ پہلا حکم دوسرے حکم سے عام حیثیت رکھتا ہے۔
مصنف نے جواب اس لیے نہیں دیا کہ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے کیونکہ دوران خطبہ میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بردہ بن نیار ؓ کا باہمی گفتگو کرنا پہلا حکم ثابت کرتا ہے جبکہ بکری کے یک سالہ بچے کے متعلق حضرت ابو بردہ ؓ کا رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنا دوسرے حکم کی دلیل ہے، نیز واضح رہے کہ آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وہ خطبے کا حصہ ہیں، خطبے کی تکمیل کے بعد آپ نے قربانی کو ذبح فرمایا۔
(فتح الباري: 608/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 985   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1162  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا جندب سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید قربان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کسی نے نماز سے پہلے ہی اسے ذبح کر دیا ہے وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا اسے «بسم الله» پڑھ کر ذبح کرنا چاہے۔ (بخاری، مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1162»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔
اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔
2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔
مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔
اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔
مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔
3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔
امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔
داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔
اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔
احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث:
«حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔
پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔
۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4373  
´عیدگاہ میں قربانی کرنے کا بیان۔`
جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی میں تھا، آپ نے لوگوں کو نماز عید پڑھائی، جب نماز مکمل کر لی تو آپ نے دیکھا کہ کچھ بکریاں (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر دی گئیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز عید سے پہلے جس نے ذبح کیا ہے اسے چاہیئے کہ وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا ہے تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4373]
اردو حاشہ:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب باندھا ہے، وہ عام لوگوں کے عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کے متعلق ہے۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے نماز عید ادا کرنے کے بعد دیکھا تو کچھ بکریاں ذبح کی جا چکی تھیں، ظاہر ہے کہ آپ نے نماز عید، عید گاہ ہی میں پڑھائی تھی، لہٰذا ذبح کی ہوئی بکریاں بھی آپ نے وہاں ہی دیکھی ہوں گی۔
(2) مسجد سے الگ، باہر کھلے میدان میں نماز عید ادا کرنا سنت ہے۔ عام حالات میں باہر، عید گاہ ہی میں عید ادا کی جائے، تاہم بوقت ضرورت یعنی بارش، آندھی اور سخت سردی وغیرہ کی صورت میں نماز عید، مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
(3) نماز عید کی ادائیگی سے پہلے قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی ذبح کرے گا تو اس کی قربانی ہرگز ہرگز نہیں ہوگی، لہٰذا اس پر قربانی کے لیے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہوگا، بشرطیکہ دوسرے جانور کی استطاعت ہو۔ یہ اس لیے کہ قربانی کا وقت مقرر ہے۔ اس سے پہلے قربانی غیر معتبر ہے، جیسے نماز کا وقت مقرر ہے۔ وقت سے پہلے پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ اسی طرح عید کی نماز کے اختتام سے قبل قربانی کا وقت نہیں ہوتا، لہٰذا قربانی دوبارہ کرنا ہوگی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4373   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4403  
´امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔`
جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دن کچھ قربانیاں کیں، تو ہم نے دیکھا کہ لوگ نماز عید سے پہلے ہی اپنے جانور ذبح کر چکے ہیں، جب آپ فارغ ہو کر لوٹے تو انہیں دیکھا کہ وہ نماز عید سے پہلے ہی ذبح کر چکے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے ذبح کیا تو اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا یہاں تک کہ ہم نے نماز عید پڑھ لی تو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4403]
اردو حاشہ:
کسی ایک حدیث میں پوری تفصیلات ذکر نہیں ہوتیں، اس لیے اسے مختلف سندوں سے ذکر کیا جاتا ہے تاکہ تمام تفصیلات معلوم ہو جائیں۔ فیصلہ کرتے وقت تمام تفصیلات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4403   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:793  
793-سفیان بیان کرتے ہیں۔ اسود بن قیس سردیوں کے موسم میں دھوپ میں بیٹھے ہوئے اپنی جوئیں نکال رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں یہ حدیث سنائی۔ وہ کہتے ہیں۔ میں نے سیدنا جندب بجلی رضی اللہ عنہ کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں عید کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے نماز سے پہلے قربانی کرلی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کرلیا تھا وہ دوبارہ قربانی کرے اور جس نے پہلے ذبح نہیں کیا تھا، اب وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرلے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:793]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قربانی نماز عید کے بعد کرنا مشروع ہے۔ جس نے نماز عید سے قبل قربانی کر لی وہ اپنی قربانی دوبارہ کرے گا۔ اس سے سنت پر عمل کی اہمیت ثابت ہوتی ہے کہ اخلاص بھی ہو، قربانی رزق حلال سے بھی ہو لیکن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے وقت سے قبل قربانی کرلی جائے تو وہ قبول نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنی زندگی کا ہر ہر کام سنت کے مطابق کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 793   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5064  
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں عید الاضحیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا، جوں ہی آپ نماز پڑھ کر، نماز عید سے فارغ ہوئے سلام پھیرا، تو آپ نے فورا قربانیوں کا گوشت دیکھا، جنہیں آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ذبح کیا جا چکا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی قربانی نماز پڑھنے یا ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح کر ڈالی وہ اس کی جگہ اور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ اللہ کا نام لے کر ذبح... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5064]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اضاحي،
اضحية يااضحيه کی جمع ہے،
اس کوضحية بھی کہ دیتے ہیں،
جس کی جمع ضحايا ہے اوراضحاة بھی کہتے ہیں،
جس کی جمع اضحي ہے،
قربانی کوکہتے ہیں،
کیونکہ اس کودن چڑھے کیاجاتا ہے۔
(2)
لم يعد ان صلي:
ابھی آپ نے نماز ہی پڑھی تھی،
اس سے تجاوز نہیں کیا تھا۔
فوائد ومسائل:
قربانی بقول امام ابن قدامہ اور امام نووی،
اکثر اہل علم کے نزدیک سنت ہے،
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ،
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہی نظریہ تھا،
امام شافعی،
امام احمد،
امام ابو یوسف،
امام اسحاق،
علقمہ اسود کا ہی قول ہے،
امام ابوحنیفہ،
ربیعہ،
لیث اور اوزاعی کے نزدیک یہ واجب ہے،
امام مالک کے نزدیک بقول ابن قدامہ واجب ہے اور بقول نووی سنت ہے،
جو واجب کے قائل ہیں،
ان کے نزدیک مالدار پر واجب ہے،
(المغنی ج 13،
ص 360)

۔
قربانی کا وقت اہل مصر (شہر)
کے لیے،
امام کے خطبہ کے بعد ہے،
امام ابو حنیفہ،
امام احمد مالک،
اسحاق اور اوزاعی کا یہی خیال ہے اور جہاں عید کا خطبہ نہیں ہوتا،
وہاں امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلوع فجر کے بعد اور امام شافعی کے نزدیک،
دن چڑھنے کے بعد،
جب نماز اور دو خطبوں کا وقت گزر جائے،
پھر قربانی کی جا سکتی ہے،
امام احمد کے نزدیک یہ ان لوگوں کے لیے جہاں عید نہیں پڑھی جاتی،
(المغني ج 13،
ص 384-385)

صحیح بات یہی ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے،
امام مالک کے نزدیک بقول نووی،
امام کے ذبح کرنے کے بعد ذبح کرنا جائز ہے،
قربانی کا آخری وقت امام ابوحنیفہ،
امام مالک،
امام احمد اور ثوری کے نزدیک 12 ذوالحجہ ہے،
امام شافعی،
عطاء اور حسن کے نزدیک تیرہ (13)
ذوالحجہ ہے اور ابن سیرین کے نزدیک صرف دس (10)
ذوالحجہ،
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور عطاء بن یسار کے نزدیک پورا ذوالحجہ (المغني ج 13،
ص 286)

۔
بقول امام نووی،
علی بن ابی طالب،
ابن عباس،
عمر بن عبدالعزیز،
مکحول اور داود ظاہری وغیرہم کا موقف امام شافعی والا ہے،
صحیح بات یہ ہے،
دس (10)
کو قربانی افضل ہے اور ایام تشریق تک جائز ہے،
حافظ ابن قیم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ایام تشریق میں قربانی جائز ہے،
(زاد المعاد)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5064   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5500  
5500. سیدنا جندب بن سفیان بجلی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلےہی قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر ڈالی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلےہی ذبح کرلی ہیں تو آپ نے فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہواسے اس کی جگہ دوسری قربانی ذبح کرنی ہوگی اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح نہیں کی اسے چاہیئے کہ وہ نماز کے بعد اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5500]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جو لوگ قربانی کا جانور نماز سے پہلے ادھر ادھر لے جاکر ذبح کر دیتے ہیں وہ قربانی نہیں صرف ایک معمولی گوشت بن کر رہ جاتا ہے۔
قربانی وہی ہے جو نماز عید کے بعد ذبح کی جائے اور بس۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5500   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7400  
7400. سیدنا جندب ؓ سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن نبی ﷺ کے پاس موجود تھے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اور فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی وہ اس کی جگہ اور قربانی کرے اور جس نے ابھی تک قربانی ذبح نہ کی ہو تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7400]
حدیث حاشیہ:
اللہ کی کبریائی کے ساتھ اس کا نام لینا اس سے مدد چاہنا یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7400   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5500  
5500. سیدنا جندب بن سفیان بجلی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلےہی قربانی کی۔ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر ڈالی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فراغت کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے اپنی قربانیاں نماز سے پہلےہی ذبح کرلی ہیں تو آپ نے فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہواسے اس کی جگہ دوسری قربانی ذبح کرنی ہوگی اور جس نے ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح نہیں کی اسے چاہیئے کہ وہ نماز کے بعد اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5500]
حدیث حاشیہ:
(1)
قربانی، نماز عید کے بعد ہے۔
نماز سے پہلے جو جانور ذبح کیا جائے گا وہ قربانی نہیں بلکہ عام گوشت کا جانور ہے۔
قربانی وہی ہے جو نماز عید کے بعد کی جائے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ ذبح اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتا ہے اور بسم اللہ کے بغیر ذبح جائز نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے مت کھاؤ کیونکہ یہ گناہ کی بات ہے۔
(الأنعام: 121)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے ذبح کرنے کا مطلب نماز کے بعد قربانی ذبح کرنے کی اجازت دینا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ کے نام سے ذبح کرنے کا حکم دیا ہو۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے لیے بسم اللہ پڑھنا شرط ہے، ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو الگ بات ہے جس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
(فتح الباري: 780/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5500   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7400  
7400. سیدنا جندب ؓ سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن نبی ﷺ کے پاس موجود تھے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا اور فرمایا: جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر دی وہ اس کی جگہ اور قربانی کرے اور جس نے ابھی تک قربانی ذبح نہ کی ہو تو وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7400]
حدیث حاشیہ:

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی ایک بہترین ذریعہ ہے۔
اس کے متعلق حکم ہے کہ اسے ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تاکہ یہ عبادت اورقربانی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے شمار ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ عبادت کرتے وقت کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ کیا جائے۔
قربانی کے متعلق خاص حکم ہے:
کہہ دیجئے!میری نماز،میری قربانی،میری زندگی اور اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے۔
" (الأنعام: 162۔
163)

نیز ارشادباری تعالیٰ ہے:
آپ صرف اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔
(الکوثر 2/108)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ان احادیث کو بیان کرنے سے یہی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے وقت اس کے نام کا واسطہ دیا جائے اور اس کے نام سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کی جائے۔
جب اللہ تعالیٰ کا نام اس قدر بابرکت ہے توخود اللہ تبارک وتعالیٰ کس قدرخیروبرکت کا سرچشمہ ہوگا۔
یہ بات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزاج کےخلاف ہے کہ ایک فضول بات ثابت کرنے کے لیے احادیث ذکر کریں کہ اسم مسمی کا عین ہے یا اس کا غیر۔
ہمارے نزدیک نام اور مسمی الگ الگ دو حقیقتیں ہیں تاکہ اس کے متعلق کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو۔
اس تفصیل کے باوجود یہاں نام سے مراد مسمی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7400