صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ
روزوں کے احکام و مسائل
27. باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ:
باب: میت کی طرف سے روزوں کی قضا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2695
وحَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، وَالْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ ، وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَمُجَاهِدٍ ، وَعَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ابو سعید اشج، ابو خالد، اعمش، سلمہ بن کہیل، حکم بن عتیبہ، مسلم بن جبیر، مجاہد، وعطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کی طرح روایت کیا۔
امام صاحب نے اپنے استاد ابو سعید اشج سے یہ روایت اعمش (سلیمان) سے سلمہ بن کہیل حکم بن عتیبہ اور مسلم بطین تینوں نے سعید بن جبیر، مجاہد اور عطاء کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2695 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2695
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ بات صراحتاً ثابت ہوتی ہے کہ میت کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھ سکتا ہے اور اسے روزے رکھنے چاہئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک مثال کے ذریعہ سمجھائی جب کہ روزہ انسان کے ذمہ اللہ کا حق ہے جو قرض کے حکم میں ہے،
جس طرح انسانی ادائیگی ضروری ہے،
اس سے بڑھ کر اللہ کے قرض کی ادائیگی لازمی ہے اور حج کی طرح روزہ بھی ایسا حق ہے،
جس کی انسان کی زندگی میں بھی نیابت،
عذر یا مجبوری کی صورت میں جائز ہے۔
لیکن نماز کی نیابت بالاتفاق جائز نہیں ہے۔
اس لیے اہل ظاہر کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بنا پر،
ولی کے لیے روزے رکھنا ضروری ہے،
محدثین،
ابوثور اور بعض شوافع کے نزدیک بھی ان صحیح احادیث کی بنا پر اس کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہ رائے ہے اور حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی پر زور وکالت کی ہے لیکن احناف اور شوافع جو عبادات میں بھی (یعنی بدنی عبادت میں)
قیاس سے کام لے کر میت کی طرف سے تلاوت قرآنی جائز قرار دیتےہیں،
حالانکہ کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے اور یہ نماز کی طرح خالص بدنی عبادت ہے جس میں نیابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،
ان کے نزدیک ولی،
میت کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا اور صحیح احادیث کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اقوال پیش کرتے ہیں یا ایسے قواعد وضوابط جو وضعی ہیں یا چسپاں نہیں ہوتے پیش کرتے ہیں۔
بہرحال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر میت نے اپنے مال سے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کی ہو تو فدیہ ادا کرنا واجب ہے۔
اگر وصیت نہ کی ہو تو مستحب ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نذر کی صورت میں روزے رکھے جائیں گے اور رمضان کی صورت میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہر روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔
علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری معنی کو ترجیح دی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2695