Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ
روزوں کے احکام و مسائل
12. باب بَيَانِ أَنَّ الْقُبْلَةَ فِي الصَّوْمِ لَيْسَتْ مُحَرَّمَةً عَلَى مَنْ لَمْ تُحَرِّكْ شَهْوَتَهُ:
باب: روزہ میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا حرام نہیں بشرطیکہ شہوت نہ ہو۔
حدیث نمبر: 2573
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ إِحْدَى نِسَائِهِ وَهُوَ صَائِمٌ "، ثُمَّ تَضْحَكُ.
علی بن حجر، سفیان، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مسکرپڑیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے کسی کا روزہ کی حالت میں بوسہ لیتے تھے پھر وہ ہنس پڑتیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2573 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2573  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہنسی کا سبب یہ ہے کہ وہ اشارہ اس بات کا اظہار کردیں کہ میں خود صاحب واقعہ ہوں اور چشم دید گواہ ہوں یا وہ وقت یاد کر کے کہ کبھی ایسا دور بھی تھا اور حضور کا اس قدر پیار اور محبت حاصل تھا ہنس دیتی تھیں یا اس لیے ہنس پڑتیں کہ مسئلہ بتانے کی خاطر ایسی باتوں کا بھی اظہار کرنا پڑتا ہے جن کا اظہار عام حالات میں پسندیدہ نہیں ہے امام احمد،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ ظاہری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک روزے دار کے لیے بلا تخصیص (ہر ایک کے لیے)
بوسہ لینا جائز ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہر ایک کے لیے مکروہ ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جوان کے لیے مکروہ ہے اور بوڑھے کے لیے جائز ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے اور ایک قول یہ ہے نفل میں جائز ہے فرض روزہ میں جائز نہیں ہے اگر انزال ہو جائے تو بالا تفاق روزہ فاسد ہو جائے گا۔
مذی کی صورت میں احناف و شوافع کے نزدیک روزہ ہو جائے گا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک روزہ مکمل کرنا ہوگا اور قضائی دینی پڑے گی امام احمد کے نزدیک افطار کر کے قضائی ہو گی لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جوان ہو یا بوڑھا روزہ فرض ہو یا نفل اگر اپنی خواہشات اور جذبات پر کنٹرول کر سکتا ہے تو جائز ہے اگر بے قابو ہونے کا اندیشہ ہے تو جائز نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2573   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1927  
´روزے کی حالت میں بیوی سے مباشرت`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن (اپنی ازواج کے ساتھ) «يقبل» (بوسہ لینا) و مباشرت (اپنے جسم سے لگا لینا) بھی کر لیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1927]
فقہ الحدیث:
روزے کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بخاری کی حدیث:
صحیح بخاری کی ایک حدیث کو لے کر منکرین حدیث عوام کو خوب گم راہ کرتے ہیں، اور سادہ لوح افراد ان کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ:
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کا بوسہ لے لیتے اور مباشرت فرمایا کرتے جب کہ آپ روزے سے ہوتے۔
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث، آئمہ حدیث اور امام بخاری کے وہ لتے لیتے ہیں کہ الامان ... ایسے ایسے جذباتی جملے بولتے ہیں کہ ہر کوئی دھوکہ کھا جاتا ہے .... مزید تفصیل میں جائے بغیر، کہ یہ کیا کرتے ہیں، ہم حدیث کی طرف جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں مباشرت میاں بیوی کے جنسی تعلقات اختیار کرنے کو بولا جاتا ہے، اور اسی تصور اور تاثر کو منکرین لے کر حقائق کو چھپاتے ہیں۔
عربی میں مباشرت کا معنی ہے بدن سے بدن ملانا، جسم کا جسم سے مس ہونا۔
امام شوکانی کہتے ہیں کہ: «ان المباشره فى الاصل التقاء البشرتين . . .»
یعنی مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں۔ [منقول، تفهيم اسلام]
عون المعبود شرح سنن ابی داؤد میں ہے کہ:
«معني المباشرة ههنا المر باليد من التقاء البشرتين»
یعنی یہاں مباشرت سے صرف ہاتھ سے چھونا، اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے۔
کیا اس میں حرام کا کوئی پہلو ہے؟
آپ کی بیوی ہے کوئی اچھوت تو نہیں کہ دن میں اگر آپ میاں بیوی روزے کی حالت میں بھی باہم مل کر آرام کر لیں، ایک دوسرے سے لپٹ جائیں، آپ اپنی بیوی سے محبت سے پیش آ جائیں، تو اس سے روزے کو کیا فرق پڑ جائے گا ..؟
لیکن برا ہو تعصب کا، انکار حدیث کا، کہ مقصد دین کی تفہیم نہ رہی بلکہ اپنے نظریات کی خاطر لوگوں کو دھوکہ دینا ٹھرا اور جذباتی فضاء بنا کر حدیث بارے نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔
اسی حدیث کا اگلا حصہ اس کی مزید وضاحت کرتا ہے، دیکھئے گا:
«كان املككم لاربه» یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہشات پر تم میں سب سے زیادہ قابو پانے والے تھے .... سمجھنے کے لیے مکرر عرض ہے اگر بار خاطر نہ ہو کہ:
آپ پنی بیویوں کا بوسہ لے لیتے، ان سے مباشرت کرتے اور آپ تم میں سے سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مباشرت کا مطلب جنسی ملاپ ہی ہے تو خواہش پر قابو پانا کہاں گیا؟ .. آپ کو عربی نہ بھی آتی ہو . مفکر صاحب آپ کو دھوکہ بھی دینا چاھیں تو آپ ان سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں:
جناب پھر خواہش پر قابو کیسا ہووا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اپنی خواہش پر ایسا قابو تھا تو مطلب یہی بنتا ہے نا کہ آپ کا عمل محض بیویوں سے دلجوئی کی، محبت کی ترغیب ہے۔ بتائیے اس میں کیا گناہ ہے؟ ...
اس حدیث کا صاف صاف مطلب ہے کہ بغیر شہوت کے، محض محبت کے ساتھ آپ اپنی بیوی سے قربت اختیار کر سکتے ہیں۔ ذرا انسانی نفسیات کی طرف آئیے ...
آپ کی بیوی، آپ سے گھنٹہ بھر پہلے اٹھ جاتی ہے، گرمی ہو یا سردی چولہے پر جا کے کھڑی ہو جاتی ہے، آپ کے لیے پکوان بناتی ہے، آپ کے ناز اٹھاتی ہے، اور پندرہ منٹ پہلے آپ کو ہولے سے آ کر اٹھاتی ہے کہ
جی سرتاج! سحری کیجئے۔
آپ مزے سے سحری کرتے ہیں، اور نماز پڑھ کر پھر سے دراز ہو جاتے ہیں، وہ بے چاری گھر بھر کے جھوٹے برتن دھو کے، سامان سمیٹ کے مزید تھک ہار کے بستر پر جاتی ہے ... ایسے میں آپ اس کو پیار سے سمیٹ لیتے ہیں، کیا محبت کی معراج ہے، اور کیسی انسانیت کی تکمیل ہے، اس کا جی کیسا اچھا ہو جاتا ہو گا، آپ اس کو گلے لگا لیں، بازوؤں میں چھپا لیں تو کیا برا کیا؟، اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، رحم دل تھے۔
بردران عزیز! آپ منکرین حدیث کے غلط ترجموں سے اور دھوکوں سے گھبرا کے ارتھ نہ ہو جایا کریں، تحقیق احوال کر لیا کریں، یہ بےچارے عموماً عربی نہیں جانتے ہوتے، اور قران کا بھی علم بس گزارا ہی ہوتا ہے گو دعوے بہت کرتے ہیں، ان کے چکر میں آ کر اپنی بیویوں کو اچھوت نہ جانئے، وہ آپ کی محبت کی، توجہ کی روزے کے مشکل دنوں میں زیادہ محتاج ہیں۔
ایک بات آپ کے سوچنے کے لیے بھی عرض کرتا ہوں .... آپ ان بڑے بڑے ناموں کو، جو صرف سوشل میڈیا کے مرہون منت زندہ ہیں، دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا علم رکھتے ہیں؟
سوال مگر یہ ہے کہ اس حدیث کے مفھوم کو چھپا کے، کیا یہ بد دیانتی کے مرتک نہیں ہوتے؟
اور جو دین کے معاملے میں بد دیانتی کرے، اس کو آپ اپنا دینی رہنماء مانے بیٹھے ہیں ... یاد رکھیے بھر برے لوگ بھی دین کے معاملے میں جھوٹ بولتے شرما جاتے ہیں، ان کو حیاء آ جاتی ہے، لیکن جو یہاں بھی دھوکہ دینے پر آ جائے اس کے حیاء باختگی کا کیا عالم ہو گا؟ ... اس لیے ایسے افراد سے دین کی رہنمائی لینے کا یہی مطلب ہے کہ آپ جان بوجھ کر اس دکاندار کے پاس جاتے ہیں جس کی آپ کو خبر ہے کہ:
اگر دودھ فروخت کرے گا تو کیمیکل ڈالے گا
اگر مسالے فروخت کرے گا تو برادہ شامل کرے گا
ارے نہیں بھائی! یہ عقیدے کے ملاوٹ ساز ہیں، جعل ساز تو ان سے کہین بہتر ہیں .. فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ان جعل سازوں سے علم حاصل کرنا ہے اور حدیث کا انکار کر کے زندگی سے روحانیت ختم کرنی ہے یا درست عقائد کو شعار کرنا ہے۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 37802   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 539  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیتے تھے اور معانقہ بھی فرما لیتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نسبت اپنی طبیعت پر زیادہ کنٹرول اور ضبط کرنے والے تھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں فعل رمضان میں کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 539]
لغوی تشریح 539:
یُقَبَّلُ تَقبِیل سے ماخوذ ہے۔ بوسہ دینا۔
یُبَاشِرُ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے جسم سے جسم ملانا، بغل گیر ہونا۔ اس سے جماع مراد نہیں ہے۔
لِأِربَہ ہمزہ اور را دونوں پر فتحہ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی حاجت، خواہش نفس (میاں بیوی کا صنفی تعلق)۔ اور ایک قول کے مطابق ہمزہ کے نیچے کسرہ اور را ساکن ہے۔ اس صورت میں دو احتمال ہیں: اس سے مراد حاجت ہے یا عضو مخصوص، یعنی اپنے جذبات پر یا اپنی شرمگاہ پر تمھاری نسبت خوب ضبط رکھنے والے تھے۔ اس حدیث کی رو سے بوسہ اور مباشرت جسمانی ایسے آدمی کے لیے مباح ہے جو اپنے آپ پر ق ابواور کنٹرول رکھنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتا ہو۔ یہ رعایت ایسے آدمی کے لیے نہیں جسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول نہ ہو۔ یہ قول اس مسئلے میں تمام اقوال و آراء سے زیادہ مناسب اور مبنی برعدل ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 539   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1653  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان اور اس سلسلہ میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ۱؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1653]
1653۔ اردو حاشیہ:
➊ یہاں سے آگے چند روایات میں امام نسائی رحمہ اللہ ابواسحاق کے شاگردوں کا اختلاف بیان کر رہے ہیں۔ ابواسحٰق شاگردوں میں سے عمر بن ابی زائدہ کے نزدیک یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے جبکہ یونس کے نزدیک یہ روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔
➋ نفل نماز بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے اگر بلا عذر ہو تو نصف ثواب ہو گا۔ اور اگر کوئی عذر (مرض، بڑھاپا وغیرہ) ہو تو پورا ثواب ملے گا بشرطیکہ وہ صحت اور جوانی میں کھڑا ہو کر پڑھتا رہا ہو، البتہ فرض نماز عذر کے بغیر بیٹھ کر نہیں پڑھی جا سکتی۔ عذر کے ساتھ بیٹھ کر جائز ہے۔ ثواب بھی پورا ہو گا۔
➌ روزے کی حالت میں جماع منع ہے۔ مطلق شہوت اور بوسہ وغیرہ (جماع وانزال کے بغیر) روزے کے منافی نہیں۔ اس سے ثواب میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا الایہ کہ ان سے جماع کا خطرہ ہو یا انزال کا، پھر منع ہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو بوسے کی اجازت نہیں دی تھی اور ایک بوڑھے کو اجازت دے دی تھی کیونکہ اس سے جماع کا خطرہ نہیں تھا بخلاف نوجوان کے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1653   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2384  
´روزہ دار بیوی کا بوسہ لے اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوسہ لیتے اور آپ روزے سے ہوتے اور میں بھی روزے سے ہوتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2384]
فوائد ومسائل:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات صحیح احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے، اسی لیے شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
میاں بیوی کے لیے روزے کی حالت میں بوس و کنار جائز ہے مگر لازمی ہے کہ اپنے جذبات پر ضبط رکھنے والے ہوں۔
اگر حد سے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اس عمل سے بچنا لازمی ہے۔

(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے ان مخفی امور کو ذکر کرنا شرعی ضرورت کی بنا پر ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت ازدواج کی ایک حکمت یہ بھی رہی ہے کہ زوجین اور اندرون خانہ کی شرعی زندگی امت کے سامنے آئے اور ان کے لیے ہدایت اور اسوہ ثابت ہو۔
اگر یہ حقائق بیان نہ ہوتے تو دین کا بڑا حصہ ہم سے اوجھل رہتا اور بڑی آزمائش ہوتی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2384   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2386  
´روزہ دار کے تھوک نگلنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لیتے اور ان کی زبان چوستے تھے۔ ابن اعرابی کہتے ہیں: یہ سند صحیح نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2386]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اس میں بیان کردہ بات (زبان کا چوسنا) صحیح نہیں ہے۔
البتہ روزے کی حالت میں بوسہ لینا ثابت ہے۔
روزہ دار اگر کسی غیر کا لعاب چوسے اور نگل لے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2386   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1687  
´روزہ دار کا بیوی سے مباشرت (ساتھ سونے) کا بیان۔`
اسود اور مسروق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرتے (ساتھ سوتے) تھے؟، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ایسا کرتے تھے، اور آپ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے آدمی تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1687]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد قابل احترام خاتون سے اور عورتیں قابل احترام مرد سے ادب واحترام کا لحاظ رکھتے ہوئے شرم وحیا سے تعلق رکھنے والے معاملات کے مسائل دریافت کریں تو کوئی حرج نہیں۔

(2)
اس قسم کے مسائل پوچھتے اور بتاتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہے تاکہ مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور فحش گوئی بھی نہ ہو۔

(3)
مباشرت سے مراد بوس وکنار اور معانقہ وغیرہ جیسے معاملات ہیں۔

(4)
یہ جواز اس شخص کے لئے ہے۔
جسے اپنی ذات پر اعتماد ہو کہ جائز حد سے تجاوز نہیں کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1687   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 727  
´روزہ دار کے بوسہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 727]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے،
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں،
رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جا سکتا ہے،
لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 727   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2575  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں میرا بوسہ لے لیتے تھےاور تم میں سے کون ہے جو اپنی خواہش و ضرورت یا مخصوص عضو پر اس طرح قابو پا سکے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضرورت و حاجت اور مخصوص عضو پر کنٹرول رکھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2575]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
أرب:
ضرورت و حاجت اور خواہش نفس۔
إرب:
ضرورت و حاجت یا مخصوص عضو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2575   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1927  
1927. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ روزے کی حالت میں کبھی بوسہ دیتے اور کبھی اپنا بدن میرے بدن سے لگا دیتے مگر وہ اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو یافتہ تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ مَآرِبُ سے مراد حاجت ہے نیز حضرت طاوس کہتے ہیں کہ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ سے مراد وہ لوگ جنھیں عورتوں کی خواہش نہیں ہوتی۔ جابر بن زید کہتے ہیں کہ اگر وہ عورت کو دیکھے اور اسے انزال ہوجائے تو وہ روزہ پورا کرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1927]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض روایات میں اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ حضرت علقمہ اور شریح بن ارطاۃ حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرو کہ روزہ دار اپنی بیوی سے بوس و کنار کر سکتا ہے؟ اس وقت حضرت عائشہ ؓ نے مذکورہ حدیث بیان کی۔
(فتح الباري: 1904)
حضرت عائشہ بنت طلحہ کہتی ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس تھی کہ میرا خاوند (عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابوبکر)
بھی وہاں آیا۔
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
تو اپنی بیوی سے بوس و کنار کیوں نہیں کرتا؟ انہوں نے کہا:
کیا میں بحالت روزہ اس کو بوسہ دے سکتا ہوں؟ تو انہوں نے فرمایا:
ہاں۔
(الموطأ للإمام مالك: 270/1، حدیث: 661) (2)
اگر کسی روزہ دار کو اپنے آپ پر کنٹرول ہو کہ بیوی سے بوس و کنار کرنے سے شہوت پیدا نہیں ہو گی تو اس کے لیے اپنی بیوی سے بغلگیر ہونا جائز ہے، بصورت دیگر جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر قابر نہ رکھتے ہوئے جماع کر بیٹھے اور اپنا روزہ خراب کر لے۔
چونکہ حدیث میں لفظ "إرب" آیا ہے اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے قرآنی الفاظ کی لغوی تشریح فرمائی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1927   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1928  
1928. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں اپنی کسی بیوی کو بوسہ دیتے تھے۔ پھر وہ خود ہی ہنس پڑیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1928]
حدیث حاشیہ:
(1)
دین اسلام دین فطرت ہے۔
اس میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
یہاں بیوی کے تعلقات کو کسی حالت میں نظرانداز نہیں کیا گیا۔
اس میں بحالت روزہ بیوی سے بوس و کنار کو جائز رکھا گیا ہے بشرطیکہ ایسے حالات میں فریقین کو اپنے آپ پر کنٹرول ہو، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کو بوسہ دے جبکہ وہ دونوں روزے سے ہوں تو آپ نے فرمایا:
دونوں کا روزہ جاتا رہا۔
(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1686)
لیکن یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایک راوی ابو یزید ضِني مجہول ہے۔
امام دارقطنی نے فرمایا:
یہ حدیث ثابت نہیں۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسے "منکر" قرار دیا ہے۔
(عمدةالقاري: 86/8) (2)
حضرت عائشہ ؓ کے ہنسنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی صاحب واقعہ ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ایسے موقع پر ہنس دینا کبھی شرمندگی کی وجہ سے ہوتا ہے کہ اپنے حالات کی خود ہی خبر دے رہی ہیں۔
بعض نے کہا ہے کہ اس سے اپنا مرتبہ اور مقام بنانا مقصود ہے جس سے آپ خوش ہوئی تھیں۔
(فتح الباري: 195/4)
یاد رہے کہ یہ بات سیدہ عائشہ ؓ سے ان کے بھانجے سیدنا عروہ ؒ بیان کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1928