صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
9. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ حَمْلِ السِّلاَحِ فِي الْعِيدِ وَالْحَرَمِ:
باب: عید کے دن اور حرم کے اندر ہتھیار باندھنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 967
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ:" دَخَلَ الْحَجَّاجُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ هُوَ؟ فَقَالَ: صَالِحٌ، فَقَالَ: مَنْ أَصَابَكَ؟ قَالَ: أَصَابَنِي مَنْ أَمَرَ بِحَمْلِ السِّلَاحِ فِي يَوْمٍ لَا يَحِلُّ فِيهِ حَمْلُهُ يَعْنِي الْحَجَّاجَ".
ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا میں بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ حجاج نے مزاج پوچھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اچھا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ برچھا کس نے مارا؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اس شخص نے مارا جس نے اس دن ہتھیار ساتھ لے جانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا۔ آپ کی مراد حجاج ہی سے تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 967 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 967
حدیث حاشیہ:
حجاج ظالم دل میں عبد اللہ بن عمر سے دشمنی رکھتا تھا۔
کیونکہ انہوں نے اس کو کعبہ پر منجنیق لگانے اور عبد اللہ بن زبیر کے قتل کرنے پر ملامت کی تھی۔
دوسرے عبد الملک بن مروان نے جو خلیفہ وقت تھا، حجاج کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ عبد اللہ بن عمر کی اطاعت کرتا رہے، یہ امر اس مردود پر شاق گزرا اور اس نے چپکے سے ایک شخص کو اشارہ کر دیا اس نے زہر آلود برچھا عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاؤں میں گھسیڑ دیا۔
خود ہی تو یہ شرارت کی اور خود ہی کیا مسکین بن کر عبد اللہ کی عیادت کو آیا۔
واہ رے مکار خدا کو کیا جواب دے گا۔
آخر عبد اللہ بن عمر ؓ نے جو اللہ کے بڑے مقبول بندے اور بڑے عالم اور عابد اور زاہد اور صحابی رسول ﷺ تھے، ان کا مکر پہچان لیا اور فرمایا کہ تم نے ہی تو مارا ہے اور تو ہی کہتا ہے ہم مجرم کو پالیں تو اس کو سخت سزا دیں۔
جفا کردی و خود کشتی بہ تیغ ظلم مارا بہانہ میں برائے پرسش بیماری آئی (مولانا وحید الزماں مرحوم)
اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا دار مسلمانوں نے کس کس طرح سے علماءاسلام کو تکالیف دی ہیں پھر بھی وہ مردان حق پرست امر حق کی دعوت دیتے رہے۔
آج بھی علماء کو ان بزرگوں کی اقتداءلازمی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 967
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:967
حدیث حاشیہ:
(1)
عید کے دن اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانے کی نفی مطلق اور مقید دونوں طرح احادیث میں آئی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن ہتھیار اٹھا کر جانے سے منع فرمایا ہے، نیز حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کے موقع پر ہتھیار لگا کر نکلنے سے منع فرمایا ہے، ہاں! اگر دشمن سامنے ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 586/2) (2)
اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ کسی معاملے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرنا۔
یہ پابندی اس کے لیے بہت گراں گزری تو اس نے ایک آدمی کو زہر آلود نیزہ دے کر آپ کا کام تمام کرنے پر مامور کیا۔
اس شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں نیزہ چبھو دیا۔
چند دن کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔
پہلی حدیث میں صراحت کے ساتھ حجاج بن یوسف کو ”مجرم“ ٹھہرایا گیا جبکہ دوسری ہدایت میں اشارے کے ساتھ اس کی طرف جرم کی نسبت کی گئی۔
ایک تیسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کیا۔
ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حجاج نے جو منصوبہ سازی کی تو خود بار بار تیمارداری کرنے کے لیے حاضر ہوا، چنانچہ پہلی مرتبہ تو خود اسے مجرم ٹھہرایا گیا، پھر اس کی طرف اشارہ کیا، تیسری مرتبہ اسے نظر انداز کر کے اس سے گفتگو کرنا بھی گوارا نہ فرمائی۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج بن یوسف نے حرم پاک اور عید کے دنوں میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دے رکھی تھی جس کی شرعاً اجازت نہ تھی۔
امام بخاری ؒ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیدین اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔
(فتح الباري: 587/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 967