صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
34. باب الْمِسْكِينِ الَّذِي لاَ يَجِدُ غِنًى وَلاَ يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ:
باب: مسکین کون ہے؟
حدیث نمبر: 2393
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ، فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا ".
اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (اصل) مسکین یہ گھومنے والا نہیں جو لو گوں کے پاس چکر لگا تا ہے پھر ایک دو لقمے یا ایک دوکھجور یں اسے واپس لوٹا دیتی ہیں۔" (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو مسکین کون ہے؟آپ نے فرمایا: " جو اتنی تونگری نہیں پاتا جو اسے (سوال سے) مستغنی کردے، نہ ہی اس (کے ضرورت مند ہونے) کا پتہ چلتا ہے کہ اس کو صدقہ دیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں سے کوئی چیز مانگتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اصل مسکین یہ گردش کرنے والا جو لوگوں میں گھومتا پھرتا ہے نہیں ہے جو ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں لے کر لوٹ جاتا ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا تو مسکین کون ہے؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس اتنی دولت و تونگری نہیں ہے جو اس کی ضروریات سے اس کو مستغنی کر دے یعنی اپنی ضروریات پوری کرنے کا سامان اس کے پاس نہیں ہے اور اس کے احتیاج کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس کو صدقہ دیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے کوئی چیز مانگتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2393 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2393
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مسکین وہ پیشہ ورسائل اور گدا گر نہیں ہیں جودر بدرگھوم پھر کر لوگوں سے مانگتے ہیں بلکہ اصل مسکین اور صدقہ کے مستحق ایسے باعفت ضرورت مند ہیں۔
جو شرم وحیاء اور عفت نفس کی وجہ سے لوگوں پر اپنی حاجت مندی ظاہر نہیں کرتے اور نہ ہی کسی سے سوال کرتے ہیں ایسے مسکینوں کی خدمت مدد شرعاً مطلوب اور محبوب ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2393
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 473
´مسکین کون؟`
«. . . 369- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ليس المسكين بهذا الطواف الذى يطوف على الناس، ترده اللقمة واللقمتان والتمرة والتمرتان“، قالوا: فمن المسكين يا رسول الله؟ قال: ”الذي لا يجد غنى يغنيه، ولا يفطن له فيتصدق عليه، ولا يقوم فيسأل الناس.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں گھومنے والا مسکین نہیں ہے جو ایک دو نوالے اور ایک دو کھجوریں لے کر واپس چلا آتا ہے۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے مال نہ ہو اور لوگوں کو اس (کی غربت) کا پتا نہ چلے کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور یہ شخص اٹھ کر لوگوں سے مانگتا بھی نہیں ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 473]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1479، من حديث مالك، ومسلم 101/1039، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ پیشہ ور بھکاری مسکین کے حکم میں نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے سائل ہیں جن کا حق ہوتا ہے۔
➋ اپنے قبیلے، محلے اور جان پہچان والوں میں ایسے آدمی تلاش کرکے خفیہ طور پر ان کی مدد کی جائے جو سفید پوش اور غیرت مند ہوتے ہیں لیکن ان کا گزر اوقات مشکل ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے تعاون کرنا عظیم نیکی اور بہت ثواب کا کام ہے۔
➌ سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الصدقة علی المسکین صدقة وھي علیٰ ذی الرحم المسکین ثنتان: صدقة وصلة۔»
مسکین کو صدقہ دینا تو صدقہ ہے اور رشتہ دار مسکین کو دینا دو (صدقے) ہیں: صدقہ اور صلہ رحمی۔ [مسند الحميدي بتحقيقي مخطوط ص562 ح825 وسنده صحيح، سنن الترمذي: 658 وقال: ”حديث حسن“ وصححه ابن خزيمه: 2067، والحاكم 1/407، والذهبي ولم أر لمضعفه حجة قوية]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 369
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1631
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور یا ایک دو لقمہ در بدر پھرائے، بلکہ مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال نہ کرتا ہو، اور نہ ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہوں کہ وہ مدد کا مستحق ہے کہ اسے دیں۔“ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1631]
1631. اردو حاشیہ:
➊ فقیر اور مسکین دونوں ہی نادار ہوتے ہیں۔ مگر مسکین کی ٹوہ لگانی پڑتی ہے۔مسکینی وہی محمود ہے۔جس میں سوال سے عفت اور صبروقناعت پائی جائے۔
➌ اس حدیث سے دیگر احادیث میں یہ ارشاد ہے کہ ایسے مساکین سے تعاون زیادہ افضل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1631
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2572
´مسکین کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور ایک لقمہ یا دو لقمے (در در) گھماتے اور (گھر گھر) چکر لگواتے ہیں۔ بلکہ مسکین سوال سے بچنے والا ہے ۱؎ اگر تم چاہو تو پڑھو «لا يسألون الناس إلحافا» ”وہ لوگوں سے گڑگڑا کر نہیں مانگتے“ (البقرہ: ۲۷۳)۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2572]
اردو حاشہ:
”مسکین وہ نہیں۔“ کیونکہ اس قسم کے لوگ عموماً پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور دوسروں سے زیادہ امیر ہوتے ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ قابل تعریف مسکین نہیں، اگرچہ مسکین تو ہیں۔ یا یہ اس قدر مستحق نہیں جس قدر سوال نہ کرنے والے حاجت مند لوگ مستحق ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2572
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2574
´مسکین کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک لقمے دو لقمے اور ایک کھجور، دو کھجور در در پھرائیں۔“ لوگوں نے کہا: پھر مسکین کون ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”مسکین وہ ہے: جو مالدار نہ ہو، اور لوگ اس کی محتاجی و حاجت مندی کو جان بھی نہ سکیں کہ اسے صدقہ دیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2574]
اردو حاشہ:
مذکورہ روایت معناً صحیح ہے جیسا کہ محقق کتاب نے لکھا ہے کہ بخاری ومسلم کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2574
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1090
1090- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے: ”مسکین وہ شخص نہیں ہے، جو ایک یا دو کھجوریں لے کر ایک یادو لقمے لے کر واپس چلا جاتا ہے مسکین وہ شخص ہے، جو مانگتا نہیں ہے اور اس کی حالت کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ اسے کچھ دے دیا جائے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1090]
فائدہ:
اس حدیث میں مسکین کی وضاحت کی گئی ہے کہ مسکین وہ شخص ہے جو نہ لوگوں سے مانگتا ہے، اور نہ لوگوں کو محسوس کر واتا ہے، مسکین انتہائی عاجز گمنام اور منکسر المزاج ہوتا ہے حتی کہ اپنی ضروریات زندگی بھی کسی کو بتانا گوارہ نہیں کرتا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1088
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2394
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اصل مسکین وہ نہیں ہے جو ایک دو کھجوریں یا ایک دو لقمے لے کر لوٹ جاتا ہے اصل مسکین تو عفت نفس کا مالک ہے (جو سوال نہیں کرتا) اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: وہ لوگوں سے لپٹ کر اصرار سے) نہیں مانگتے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2394]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عربی محاورہ اور اسلوب کے اعتبار سے اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتے ہی نہیں کہ اصرار کی ضرورت پیش آئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2394
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1476
1476. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”مسکین وہ نہیں جسے ایک یادو لقمے ادھر اُدھر گھومنے پر مجبور کردیں بلکہ حقیقی مسکین وہ ہے جو اس قدر مال نہ پائے جو اسے بے نیاز کردے اور وہ لوگوں سے سوال کرنے میں شرم محسوس کرے یا وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرسکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1476]
حدیث حاشیہ:
ابوداؤد نے سہل بن حنظلہ سے نکالا کہ صحابہ نے پوچھا تو نگری جس سے سوال منع ہو، کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب صبح شام کا کھانا اس کے پاس موجود ہو۔
ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے جب دن رات کا پیٹ بھر کھانا اس کے پاس ہو۔
بعضوں نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے دوسری حدیثوں سے جس میں مالدار اس کو فرمایا ہے جس کے پاس پچاس درہم ہوں یا اتنی مالیت کی چیزیں (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1476
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4539
4539. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں جسے ایک یا دو کھجوریں اور ایک یا دو لقمے در بدر پھرنے پر مجبورکر دیں بلکہ مسکین وہ ہے جو کسی سے سوال نہ کرے۔ اگر تم مطلب سمجھنا چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو۔“ ”وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4539]
حدیث حاشیہ:
اللہ کی مخلوق سے سوال نہ کرے، خالق سے مانگے، یہی مراد اس حدیث میں ہے (اللھم أحیني مسکینا)
بعضوں نے کہا:
سوال کرنا مسکین ہونے کے خلاف نہیں ہے لیکن سوال میں الحاف نہ کرے، یعنی پیچھے نہ پڑ جائے۔
ایک بار اپنی حاجت بیان کر دے اگر کوئی دے تو لے لے ورنہ چلا جائے، بھروسا صرف اللہ پر رکھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4539
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1476
1476. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”مسکین وہ نہیں جسے ایک یادو لقمے ادھر اُدھر گھومنے پر مجبور کردیں بلکہ حقیقی مسکین وہ ہے جو اس قدر مال نہ پائے جو اسے بے نیاز کردے اور وہ لوگوں سے سوال کرنے میں شرم محسوس کرے یا وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرسکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1476]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ مسکین وہ نہیں جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور وہ اسے ایک یا دو لقمے یا ایک کھجور یا دو کھجوریں دے دیں بلکہ مسکین وہ ہے جو ایسے حالات میں حیا کی وجہ سے سوال نہ کر سکے۔
اگر تم چاہو تو ارشاد باری تعالیٰ پڑھ لو:
﴿لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾ ”وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔
“ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4539) (2)
امام بخاری ؒ کا مقصد مال کی وہ مقدار بتانا ہے جس کی موجودگی میں لوگوں سے سوال کرنا منع ہے لیکن اس کی حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے، دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جس کے پاس صبح و شام کا کھانا موجود ہو اسے دوسروں سے سوال کرنے کی اجازت نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1476
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4539
4539. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسکین وہ نہیں جسے ایک یا دو کھجوریں اور ایک یا دو لقمے در بدر پھرنے پر مجبورکر دیں بلکہ مسکین وہ ہے جو کسی سے سوال نہ کرے۔ اگر تم مطلب سمجھنا چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو۔“ ”وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4539]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں محنت مزدوری کرنے کا سبق دیا ہے کسی کے سامنے دست سوال پھیلانے سے منع کیا ہے۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑیوں کا گٹھا اپنی کمر پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے جا کر دست سوال پھیلائے اور وہ دیں یا نہ دیں۔
" (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1470)
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے، قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی نہ ہوگی۔
" (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث 1474)
2۔
اس آیت اور حدیث میں ان حق دار مساکین کی تعیین کی گئی ہے جو مسلمانوں کے صدقات و خیرات کے حق دار ہیں چنانچہ جو لوگ در بدر پھر کر مانگتےرہتے ہیں اور دست سوال پھیلا کر ایک یا دو لقمے لے کر آوپس پلٹ جاتے ہیں وہ حق دار مساکین نہیں ہیں بلکہ حق دار مساکین وہ ہیں جو محتاج ہونے کے باوجود سوال نہیں کرتے بلکہ چمٹ کر مانگنے سے بچتے ہیں کیونکہ یہ بھکاریوں کا طریقہ ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4539