Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ
جنازے کے احکام و مسائل
9. باب الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ:
باب: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 2146
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: لَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ، جَعَلَ صُهَيْبٌ، يَقُولُ: وَا أَخَاهْ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا صُهَيْبُ أَمَا عَلِمْتَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ ".
۔ (ابو اسحاق) شیبانی نے ابو بردہ سے اور انھوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب حضڑت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے یہ کہنا شروع کر دیا: ہائے میرا بھا ئی! تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: صہیب!کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زندہ کے رونے سے میت کو عذاب دیا جا تا ہے: "
حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہو گئے تو حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، ہائے میرے بھائی! تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا، اے صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیا تمھیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: میت کو اس پر زندہ کے رونے کے سبب عذاب ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2146 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2146  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حي کا معنی زندہ بھی ہوتا ہے اور خاندان وقبیلہ بھی اہل کی مناسبت سے اس کا معنی قبیلہ ہی ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2146   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 476  
´دوسرے کے رونے کی وجہ سے مرنے والے کے لیے عذاب`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرنے والے کو اس پر نوحہ کرنے والوں کے سبب سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 476]
فائدہ:
اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس طرح تو کسی دوسرے کے رونے کی وجہ سے مرنے والے کے لیے عذاب ثابت ہو رہا ہے، حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَلَا تَزِرُوَازِرَةٌ وٌزَرَاُخْرٰي» [بني اسرائيل: 15، 17]
کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
علمائے کرام نے اس اشکال کے متعدد جواب دیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر نوحہ مرنے والے کا اپنا طریقہ بھی تھا اور زندگی میں اس نے اسے برقرار رکھا تو اس صورت میں اسے عذاب ہو گا ورنہ نہیں۔ اور ایک جواب یہ بھی ہے کہ مرنے والے کو عذاب اس صورت میں ہو گا کہ وہ خود اس کی وصیت کر گیا ہو، بصورت دیگر اسے عذاب نہیں دیا جائے گا۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 476   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1594  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، جب لوگ کہتے ہیں: «واعضداه واكاسياه. واناصراه واجبلاه» ہائے میرے بازو، ہائے میرے کپڑے پہنانے والے، ہائے میری مدد کرنے والے، ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور اور اس طرح کے دوسرے کلمات، تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے: کیا تو ایسا ہی تھا؟ کیا تو ایسا ہی تھا؟ اسید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: «ولا تزر وازرة وزر أخرى» کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا تو انہوں (موسیٰ) نے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1594]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث سے اس عذاب کی وضاحت ہوگئی ہے۔
جو رونے والوں کی وجہ سے مرنے والوں کو ہوتا ہے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حدیث میں رونے سے مراد محض آنسو بہانا نہیں بلکہ زبان سے نا مناسب الفاظ نکالنا میت کے عذاب کا باعث بنتا ہے۔

(2)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد کے اشکال کے جواب میں سند کی صحت کی طرف توجہ دلائی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث کبھی قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی۔
البتہ بعض اوقات ظاہری طور پر اختلاف محسوس ہوتا ہے۔
ایسے موقع پر آیت اور حدیث میں اسی طرح موافقت پیدا کی جاتی ہے۔
جس طرح قرآن مجید کی دو آیات اگر باہم متعارض محسوس ہوں تو علمائے کرام انکے اس انداز سے وضاحت فرما دیتے ہیں۔
کہ دونوں میں اختلاف نہیں رہتا۔

(3)
قرآن مجید کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس بات پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے۔
کہ میرے آباواجداد میں سے فلاں صاحب بزرگ او رنیک آدمی تھے۔
لہٰذا قیامت میں بھی مجھے نجات مل جائے گی۔
اور نہ کسی کو اس کی وجہ سے حقیر سمجھناچاہیے۔
کہ اس کے باپ دادا نیک نہیں تھے۔
بلکہ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اسے ثواب ملے گا۔
اور جو گناہ کرتا ہے اُسے عذاب ہوگا۔

(4)
جو شخص کسی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے۔
تو نیکی کرنے والے کے برابر اسے بھی ثواب ملتا ہے۔
یہ کہ ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو نہیں ملا۔
بلکہ یہ خود اس کے اس عمل کا ثواب ہے۔
جو کہ اس نے نیکی کی ترغیب دی تھی۔
اس ترغیب کا ثواب دوسرے کے عمل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے کی وجہ سے سزا میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی آیت اس حققیت کی تردید نہیں کرتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1594   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1290  
1290. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ زخمی کیے گئے تو حضرت صہیب ؓ روتے ہوئے کہنے لگے:ہائے میرے بھائی! حضرت عمر ؓ نے فرمایا:کیاتمھیں معلوم نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1290]
حدیث حاشیہ:
شوکانی ؒ نے کہا کہ رونا اور کپڑے پھاڑنا اور نوحہ کرنا یہ سب کام حرام ہیں ایک جماعت سلف کا جن میں حضرت عمر اور عبداللہ بن عمرؓ ہیں یہ قول ہے کہ میت کے لوگوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے اور جمہور علماء اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ عذاب اسے ہوتا ہے جو رونے کی وصیت کرجائے اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے مطلقاً یہ ثابت ہوا کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔
ہم نے آپ ﷺ کے ارشاد کو مانا اور سن لیا۔
اس پر ہم کچھ زیادہ نہیں کرتے۔
امام نووی ؒ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے وہ رونا پکار کر رونا اور نوحہ کرنا ہے نہ کہ صرف آنسو بہانا۔
(وحیدي)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1290  
1290. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ زخمی کیے گئے تو حضرت صہیب ؓ روتے ہوئے کہنے لگے:ہائے میرے بھائی! حضرت عمر ؓ نے فرمایا:کیاتمھیں معلوم نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1290]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث کے ذریعے سے امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر ؓ کے درمیان ایک اختلاف کو حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ کسی میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ان کا اپنا فعل ہے، میت پر اس کا وبال نہیں پڑے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ (سورة الأنعام: 164)
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
جبکہ حضرت ابن عمر ؓ اس کے برعکس یہ فرماتے تھے کہ میت کو گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہو گا اور اسے حدیث سے ثابت کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا جواب دیا کہ حدیث میں ایک جزوی واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک یہودی عورت کو عذاب دیا جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جسے حضرت ابن عمر ؓ نے مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کے لیے عام ضابطہ خیال کیا۔
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حضرت ابن عمر ؓ کو غلطی اور سہو کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، کیونکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے بھی حضرت ابن عمر ؓ کی طرح کی روایات ملتی ہیں۔
اس بنا پر سب کو تو وہم نہیں ہو سکتا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے میت کو اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہونے کی تقریبا آٹھ وجوہ بیان کی ہیں جنہیں بالتفصیل فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 198/3)
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے جو توجیہ اختیار کی ہے اسے عنوان میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے اس وقت عذاب ہو گا جب اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے نوحہ کا طریقہ جاری یا پسند کیا ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ و ماتم کریں گے، انہیں اس کام سے باز رہنے کی وصیت نہ کی ہو، کیونکہ ایام جاہلیت میں لوگ اپنے مرنے پر نوحہ کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔
اسلام نے نوحے اور ماتم سے منع فرمایا کہ رو رو کر مرنے والے کے اوصاف بیان نہ کیے جائیں یا ایسے اوصاف و افعال بیان نہ کیے جائیں جو شرعا ممنوع اور ناقابل بیان ہوں۔
صحیح اوصاف حمیدہ بیان کرنے پر کوئی قدغن نہیں، لیکن انہیں روتے ہوئے بیان نہ کیا جائے۔
نوحے کے بغیر رونے یا خودبخود آنسو آ جانے کی بھی اجازت ہے۔
(2)
امام بخاری نے لفظ "بعض" سے اشارہ کیا کہ جو رونا غلط ہے اس کا سبب چونکہ میت ہے، اس لیے اسے عذاب ہو گا، کیونکہ ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرنی چاہیے۔
گھر والوں کو غلط راستے سے نہ روکنے کی بنا پر میت سے مؤاخذہ ہو گا۔
اور جس رونے کی اجازت ہے وہ تو باعث رحمت اور رقتِ قلب کی علامت ہے، اس کی وجہ سے عذاب نہ ہو گا۔
امام بخاری نے پیش کردہ احادیث سے اس پر استدلال کیا ہے، یعنی اس توجیہ کا حاصل، عنوان کے مسئلے کو متعدد احوال پر تقسیم کرنا ہے، نیز یہ بتانا ہے کہ شریعت جہاں گناہ کے ارتکاب کا مؤاخذہ کرتی ہے وہاں جو اس گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے، اسے بھی پکڑتی ہے، لہذا کسی ایک حکم کو سب حالات پر لاگو کرنا اور دوسری صورت کو بالکل نظرانداز کر دینا درست نہیں۔
امام ابن حزم ؒ کی توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اہل جاہلیت نوحہ کرتے وقت میت کے وہ افعال ذکر کیا کرتے تھے جو عذاب جہنم کا سزاوار بنانے والے ہوتے تھے، مثلا:
تم نے فلاں قبیلے کو عداوت کی وجہ سے تہس نہس کر دیا، فلاں قبیلے پر غارت گری کی تھی، اس طرح کے مظالم کو وہ فخر کے طور پر بیان کرتے تھے۔
چونکہ یہ سب افعال شنیعہ میت کے ہوتے تھے، اس لیے ان کی وجہ سے اسے عذاب ہو گا، رونا اس کا سبب نہ ہو گا۔
بالفاظ دیگر میت کو عذاب اس کے اپنے افعال کی وجہ سے ہو گا دوسرے کے نوحہ کرنے سے نہیں ہو گا۔
یہ الگ بات ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے والوں سے خلاف شرع کام کرنے کی وجہ سے مؤاخذہ ہو گا۔
(3)
یہ توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ عذاب سے مراد میت کو عار دلانا ہے۔
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کا واقعہ ہے کہ جب ان پر غشی طاری ہوئی تو ان کی بہن نے نوحہ کرنا شروع کر دیا کہ تم ایسے تھے تم ایسے تھے۔
اس وقت فرشتوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ سے کہا کہ کیا واقعی تم ایسے تھے؟ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4267)
الغرض حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی نفیس بحث کی ہے، اسے ایک نظر دیکھ لیا جائے۔
(فتح الباري: 197/3، 198، 199) (4)
جس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کی میت کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو اس پر گریہ وزاری کر رہے ہیں جبکہ اسے اپنی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔
اس سے بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ کشید کیا ہے کہ عذاب قبر اس زمینی قبر میں نہیں ہوتا بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے، حالانکہ برزخی قبر کا انکشاف اس دور کی ایجاد ہے۔
قرون اولیٰ میں اس قبر سے کوئی متعارف نہیں تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ﴾ (سورة التوبة: 84)
ان (منافقین)
میں سے کوئی مر جائے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہونا ہے۔
اس مقام میں رسول اللہ ﷺ کو منافقین کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے مراد زمینی قبر ہے کیونکہ برزخی قبر تک کسی بندہ بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
اس کے علاوہ مذکورہ حدیث ایک اور سند سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی میت کی قبر سے گزرے تو آپ نے فرمایا:
اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر گریہ و زاری کر رہے ہیں۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3129)
اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ زمینی قبر ہی سے گزرے تھے۔
اس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1290