Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ
جنازے کے احکام و مسائل
6. باب الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ:
باب: میت پر رونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2137
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ وَجَدَهُ فِي غَشِيَّةٍ، فَقَالَ: " أَقَدْ قَضَى "، قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا، فَقَالَ: " أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ، وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا، وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ، أَوْ يَرْحَمُ ".
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اپنی بیماری میں مبتلا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کےساتھ ان کی عیادت کے لئے ان کے پاس تشریف لے گئے۔جب آپ ان کے ہاں داخل ہوئے تو انھیں غشی کی حالت میں پایا، آپ نے پوچھا: "کیا انھوں نے اپنی مدت پوری کرلی (وفات پاگئے ہیں)؟"لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھاتو انہوں نے بھی روناشروع کردیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم سنو گے نہیں کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے غم پر سزا نہیں دیتا بلکہ اس۔۔۔آپ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کیا۔۔۔کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم کرتا ہے۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ بیمار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عبدالرحمان بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی معیت میں ان کی عیادت کے لئے آئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس اندر تشریف لائے تو انہیں سخت تکلیف میں دیکھا، یا ینہیں گھر والوں کی بھیڑ میں دیکھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ختم ہو چکے ہیں؟ لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نہیں۔ ابھی فوت نہیں ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کی کیفیت دیکھ کر) رونے لگے، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو وہ بھی رو پڑے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم سن نہیں رہے؟ یعنی اچھی طرح سن لو، اللہ تعالی آنگھ کے آنسو اور دل کے رنج و غم پر تو سزا نہیں دیتا، لیکن اس کی (غلط روی پر، یعنی زبان سے نوحہ اور ماتم کرنے پر) سزا بھی دیتا ہے اور اس کے (اناللہ پڑھنے پر اور دعاء واستغفار کرنے پر) رحمت بھی فرماتا ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2137 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2137  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اِنَّ للهِ مَا أَخَذَ:
یہ بچہ جو اللہ لے رہا ہے،
جس کی اس نے جان نکال لی ہے،
وہ اسی کا ہے،
تمہارا نہیں ہے۔
اس لیے جب اس نے اپنی ہی چیز لی ہے تمہاری چیز نہیں لی،
تو تمہیں اس پر جزع فزع کرنے کا کیا حق حاصل ہے۔
کیا اگر کوئی اپنی ودیعت کردہ یا امانت میں دی چیز واپس لے،
تو امین کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے؟ اس لیے صبر و سکینت سے کام لو۔
(2)
وَلَهُ مَا أعطٰي:
اس نے تمہیں کچھ بھی عنایت فرمایا ہے وہ اسی کا ہے،
اس کی ملکیت سے نکل نہیں گیا ہے۔
اور اسے حق حاصل ہے کہ اپنی ملکیت میں جو چاہے تصرف کرے۔
(3)
كُلُّ شَيءٌ عِنْدَهُ بِأَجَل﷭ مُّسَمًّي:
اس نے جو کچھ بھی عنایت فرمایا ہے اس کے لیے وقت اور مدت بھی متعین فرمائی ہے،
جب وہ مدت پوری ہو جائے گی اور اس کا وقت آ جائے گا تو وہ اس کو واپس لے لے گا۔
لہذا اپنا وقت پورا کرنے کے بعد جو چیز تم سے چلی گئی ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی تھی۔
اس لیے تمہارا شکوہ شکایت بے جا ہے اگر انسان آپ کے ان کلماتِ جامعہ پر غور فرما لے تو اس کے لیے کسی چیز سے محروم ہونے کے بعد،
اللہ تعالیٰ کی قضا اور اس کے فیصلہ و تقدیر پر راضی اور مطمئن ہونا کوئی مشکل نہیں ہے۔
اور اس کے لیے صبر و تسلیم کا مرحلہ طے کرنا بڑا آسان ہے۔
(4)
نفسه تقعقع:
اس کی جان نکلنے سے گلے میں آواز پیدا ہو رہی تھی جیسا کہ شن،
پرانی اور بوسیدہ مشک میں پانی ڈالنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔
غشية:
غین پر زبر ہے اور شین پر زیر ہے اور یاء مشدد ہے مصیبت و تکلیف کی سختی بھی مراد ہو سکتی ہے اور جمع ہونے والے اعزہ و اقارب کا اژدہام اور بھیڑ بھی۔
فوائد ومسائل:
(1)
کسی کی موت پرشدت غم سے اس کے اعزاہ واقارب اور دوست واحباب کا رنجیدہ اور غمگین ہونا اور اس کے نتیجہ میں ان کی آنکھوں سے آنسو بہنا اور اسی طرح گریہ کے دوسرے آثار کا ظاہر ہونا ایک بالکل فطرتی بات ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کے دل میں محبت و شفقت اور درد مندی کا جذبہ موجود ہے جو انسانیت کا ایک قیمتی اور پسندیدہ اثاثہ ہے۔
اس لیے شریعت نے اس پر قدغن یا پابندی عائد نہیں کی بلکہ ایک حد تک اس کی تحسین اورحوصلہ افزائی کی ہے۔
اس لیے آپ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اپنے انہیں بندوں پر رحم فرماتا ہے جن کے دلوں میں دوسروں کے لیے رحم اور درد مندی کا جذبہ موجود ہے۔
(2)
اگر انسان زبان سے غلط کام لینے کی بجائے (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے)
زبان سے ﴿إناللہِ وَإِنَّاإِلَیْهِ رَاجِعُون﴾ کہتا ہے دعا اور استغفار کرتا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے جو اللہ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کے حصول کا وسیلہ بنیں تو اس کا اعزہ واقارب اور میت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
(3)
حدیث میں آپﷺ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بچی حضرت امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شدید بیماری کا تذکرہ ہے حتی کہ ان کی والدہ کو ان کے چل بسنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے ان کو شفا حاصل ہو گئی اور وہ آپﷺ کے بعد تک زندہ رہی حتی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد ان سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شادی کی اور یہی صورت حال حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے وہ بھی آپﷺ کی دعا کی برکت سے اس سخت بیماری سے صحت یاب ہو گئے تھے اور آپﷺ کے بعد عہد صدیقی میں یا عہد فاروقی میں فوت ہوئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2137