Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ
نماز عیدین کے احکام و مسائل
4. باب الرُّخْصَةِ فِي اللَّعِبِ الَّذِي لاَ مَعْصِيَةَ فِيهِ فِي أَيَّامِ الْعِيدِ:
باب: عید کے روز جن کھیلوں میں گناہ نہیں ان کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2065
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، وَاللَّفْظُ لِهَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثٍ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ: مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " دَعْهُمَا "، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا، وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِمَّا قَالَ: " تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ "، حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ، قَالَ: " حَسْبُكِ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاذْهَبِي ".
محمد بن عبد الرحمان نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر میں) داخل ہوئے جبکہ میرے پاس دو بچیاں جنگ بعاث کے اشعار بلندآواز سے سنارہی تھیں۔آپ بستر پرلیٹ گئے اور اپنا چہرہ (دوسری سمیت) پھیر لیا۔اس کے بعدحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔تو انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں شیطان کی آواز؟اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: "انھیں چھوڑیئے"جب ان (ابو بکر رضی اللہ عنہ) کی توجہ ہٹی تو میں ان کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔اورعید کا ایک دن تھا، کالے لوگ ڈھالوں اور بھالوں کےکرتب دکھا رہے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے د رخواست کی یا آپ نے خود ہی فرمایا: "دیکھنے کی خواہش رکھتی ہو؟"میں نے کہا: جی ہاں۔آ پ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑاکرلیا، میرا رخسار آپ کے رخسار پر (لگ رہا) تھا اور آ پ فرمارہے تھے: "اے ارفدہ کے بیٹو! (اپنا مظاہرہ) جاری رکھو۔"حتیٰ کہ جب میں اکتا گئی (تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارےلئے کافی ہے؟"میں نے کہا: جی ہاں۔فرمایا: "توچلی جاؤ۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر میں) داخل ہوئے جبکہ میرے پاس دو بچیاں جنگ بعاث کے اشعار بلند آواز سے سنا رہی تھیں۔ آپ بستر پرلیٹ گئے اور اپنا چہرہ پھیر لیا۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ تو انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا: شیطانی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: انھیں چھوڑیئے جب ان کی توجہ ہٹی تو میں ان کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ اورعید کا دن تھا، حبشی ڈھالوں اور بھالوں کےکرتب دکھا رہے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے د رخواست کی یا آپ نے خود ہی فرمایا: دیکھنے کی خواہش رکھتی ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا رخسار آپ کے رخسار پر لگ رہا تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے ارفدہ کے بیٹو! اپنا مظاہرہ جاری رکھو۔ حتیٰ کہ جب میں اکتا گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس میں نے کہا:جی ہاں۔ فرمایا: چلی جاؤ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2065 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2065  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
دَرَق:
درقة کی جمع ہے چمڑے کی ڈھال،
حِرَاب،
حَربة کی جمع بھالا،
چھوٹا نیزہ۔
(2)
بنو ارفده:
حبشیوں کا لقب ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2065   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 950  
950. (حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ) چونکہ وہ عید کا دن تھا، اس لیے حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی یا آپ نے خود فرمایا: کیا تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا، میرا رخسار آپ کے دوش پر تھا۔ آپ نے فرمایا: اے بنو ارفدہ! اپنا کام جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: بس تجھے کافی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اب چلی جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:950]
حدیث حاشیہ:
بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت نہیں۔
وأجاب ابن المنیر في الحاشیة بأن مراد البخاري رحمه اللہ الاستدلال علی أن العید ينتضر فیه من الانبساط مالا ینتضرفي غیرہ ولیس في الترجمة أیضاً تقیید بحال الخروج إلی العید بل الظاھر أن لعب الحبشة إن کان بعد رجوعه صلی اللہ علیه وسلم عن المصلی لأنه کان یخرج أول النھار۔
(فتح الباري)
یعنی ابن منیر نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کا استدلال اس امر کے لیے ہے کہ عید میں اس قدر مسرت ہوتی ہے جو اس کے غیر میں نہیں ہوتی اور ترجمہ میں حبشیوں کے کھیل کا ذکر عید سے قبل کے لیے نہیں ہے بلکہ ظاہر ہے کہ حبشیوں کا یہ کھیل عیدگاہ سے واپسی پر تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ شروع دن ہی میں نماز عید کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 950   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:950  
950. (حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ) چونکہ وہ عید کا دن تھا، اس لیے حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی یا آپ نے خود فرمایا: کیا تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا، میرا رخسار آپ کے دوش پر تھا۔ آپ نے فرمایا: اے بنو ارفدہ! اپنا کام جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: بس تجھے کافی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اب چلی جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:950]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دراصل ایک ہی حدیث ہے۔
چونکہ اس میں دو قسم کے مضامین تھے، اس لیے اس حدیث کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
پہلی حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ انصار کی بچیاں عید کے دن گیت گا رہی تھیں۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 952)
ایک روایت میں ہے کہ حج کے موقع پر قیام منیٰ کے دوران میں ایسا ہوا اور وہ گانے کے ساتھ دف بھی بجا رہی تھیں۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 987)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے ابوبکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے جس میں وہ خوش ہوتے اور جشن مناتے ہیں اور ہماری عید آج کے دن ہے۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3931) (2)
اس حدیث سے بعض روشن خیال حضرات نے گانے بجانے اور آلات موسیقی کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔
اس کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ گانے والی بچیاں پیشہ ور گلوکارائیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے اسلاف کی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار پڑھ رہی تھیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 952)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں گانے بجانے کے فن سے ناواقف تھیں جس طرح عام طور پر گانے بجانے کا کام کرنے والی لڑکیاں واقف ہوا کرتی ہیں۔
مغنیہ اسے کہتے ہیں جو خاص طور پر اپنے فن کے مطابق گائے، جس میں لے اور زیروبم ہوتا ہے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اس میں فواحش و منکرات کی تصریح یا تعریض ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ واقعے میں ایسا نہیں تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف بجایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔
٭ دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ گھنگرو کی جھنکار نہیں ہوتی۔
٭ دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں، کیونکہ آلات موسیقی کی حرمت پر قرآن مجید کی واضح نصوص موجود ہیں۔
قرآن کریم نے انہیں "لهو الحدیث" کہہ کر ان سے نفرت کا اظہار کیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی یہ علامت بتائی ہے کہ لوگ اسے جائز سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔
٭ رزمیہ، یعنی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار ہوں، بزمیہ اشعار، یعنی ہیجان انگیز اور عشقیہ غزلیں نہ گائی جائیں۔
٭ جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں اس طرح خوشی کا اظہار کر سکتی ہیں۔
٭ یہ اہتمام بھی ایسے حلقے میں ہونا چاہیے جہاں اپنے ہی عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کے سامنے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
٭ گیت اور اشعار خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ اس قسم کے اشعار پڑھنا حرام اور ناجائز ہے۔
٭ اس کے باوجود اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اس طرح کا مباح کام کرنا بھی ناجائز قرار پائے گا۔
مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔
(3)
اس حدیث پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچیوں کے گاتے اور دف بجاتے وقت اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا تھا اور بعض روایات کے مطابق اسے کپڑے سے ڈھانپ لیا تھا، گویا چشم پوشی کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی ظاہر فرما دی اور یہ بھی تاثر دیا کہ آپ اس گیت اور دف کی آواز سے کسی طرح بھی محظوظ نہیں ہو رہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حالات میں گانا اور دف بجانا بھی اباحت مرجوح کے درجے میں تھا۔
واللہ أعلم۔
(4)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے دوسرے حصے سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ عید کے موقع پر ہتھیاروں کی مشق اور اسلحہ کے کھیل جائز ہیں، البتہ اس کے بعد ایک دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب ما يكره من حمل السلاح في العيد والحرم)
عید کے دن اور حرم میں ہتھیار لے جانا مکروہ ہے۔
ان دونوں عنوانات میں بظاہر تعارض ہے۔
اسے یوں حل کیا گیا ہے کہ ہتھیاروں سے کھیلنے کی اجازت حالت امن کے ساتھ خاص ہے اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی ممانعت بدامنی کے پیش نظر ہے۔
بعض شارحین نے بایں طور تطبیق دی ہے کہ کھیلنے کی اجازت مسجد سے باہر نماز عید سے فراغت کے بعد ہے، عید کے دن اظہار سرور کے پیش نظر ایسا کرنا جائز ہے، البتہ عید کو جاتے وقت یا حرم میں اجتماع کے موقع پر ہتھیار لے کر چلنا منع ہے مبادا بے پروائی میں کسی کو نقصان پہنچ جائے۔
(5)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کی جہادی مشقیں دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ناجائز وہ نظر ہے جو غیر مردوں کے محاسن کی طرف ہو یا بطور لذت کے ہو، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب نظر المرأة إلی الحبش و نحوهم من غير ريبة)
کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر عورت کا اہل حبشہ اور دوسرے لوگوں کو دیکھنا واضح رہے کہ اس وقت پردے کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے۔
جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی چادر سے چھپا رکھا تھا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 454)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 950