Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجُمُعَةِ
کتاب: جمعہ کے بیان میں
28. بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ الْقَوْمَ وَاسْتِقْبَالِ النَّاسِ الإِمَامَ إِذَا خَطَبَ:
باب: امام جب خطبہ دے تو لوگ امام کی طرف رخ کریں۔
حدیث نمبر: 921
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ:" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحیی بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے، انہوں نے کہا ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 921 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 921  
حدیث حاشیہ:
اور سب نے آپ کی طرف منہ کیا۔
باب کا یہی مطلب ہے۔
خطبہ کا اولین مقصد امام کے خطاب کو پوری توجہ سے سننا اور دل میں جگہ دینا اور اس پر عمل کرنے کا عزم کرنا ہے۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امام کا خطاب اس طور پر ہو کہ سامعین اسے سمجھ لیں۔
اسی سے سامعین کی مادری زبان میں خطبہ ہونا ثابت ہوتا ہے، یعنی آیات واحادیث پڑھ پڑھ کر سامعین کی مادری زبان میں سمجھائی جائیں اور سامعین امام کی طرف منہ کر کے پوری توجہ سے سنیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 921   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:921  
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب الزکاة، کتاب الجهاد اور کتاب الرقاق میں بیان کیا ہے۔
یہاں الفاظ ہیں تشریف فرما ہوئے جبکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ منبر پر کھڑے ہوئے۔
(صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 2842)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے یہ مسئلہ بایں طور پر استنباط کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ ﷺ کے اردگرد ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھنا اور آپ کے وعظ کو سماعت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سب آپ کی طرف متوجہ تھے۔
(تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ان کی طرف متوجہ تھے۔
)

امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے کچھ بھی ثابت نہیں۔
(2)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطبۂ جمعہ کے علاوہ کسی اور وعظ کا ذکر ہے کیونکہ خطبۂ جمعہ کے دوران میں آپ کا کھڑا ہونا ثابت ہے۔
جب خطبۂ جمعہ کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اس قدر انہماک تھا تو خطبۂ جمعہ میں تو اس سے کہیں زیادہ ہو گا کیونکہ اس کے لیے خاموش ہونے اور اسے بغور سننے کا حکم ہے۔
(فتح الباري: 517/2) (3)
ہماری مساجد میں تو صف بندی کے ساتھ ساتھ استقبال بھی ہو جاتا ہے، البتہ مسجد نبوی میں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں محراب اور منبر میں کچھ فاصلہ ہے، درمیان میں کچھ صفیں ہیں وہاں استقبال امام کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ امام ان کے پیچھے ہوتا ہے۔
اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں کو چاہیے کہ وہ امام کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھیں اگرچہ ایسی حالت میں قبلے کی طرف پیٹھ ہو جائے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 921