صحيح مسلم
كِتَاب الْجُمُعَةِ
جمعہ کے احکام و مسائل
4. باب فِي السَّاعَةِ الَّتِي فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ:
باب: جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کے وقت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1970
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَال أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ قَائِمٌ يُصَلِّي، يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ "، وَقَالَ: بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا يُزَهِّدُهَا.
ایوب نے محمد سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک جمعے کے دن میں ایک گھڑی ہے کوئی مسلمان بھی کھڑا نماز پڑھتے ہو ئے اس کی موافقت کر لیتا (اسے پالیتا) ہے (اور) اللہ تعا لیٰ سے کسی خیر کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے وہی (خیر) عطا کر دیتا ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہا تھ سے اس کے قلیل اور کم ہو نے کو بیان کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں ایک گھڑی ہے جسے مسلمان نماز میں کھڑا پا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے جس خیر کا سوال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے وہی دے دیتا ہے۔“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اس کی قلت اور تھوڑا ہونے کو بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1970 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1970
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يُقَلِّلُهَا يُزَهِّدُهَا:
دوسرا لفظ اپنے لفظ کی تاکید ہے کیونکہ تزهید کا معنی بھی تقلیل ہے،
کیونکہ کم اور حقیر چیز سے انسان بے رغبتی اور پرہیز کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1970
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 211
´جمعہ کے دن ایک گھڑی قبولیت کی ہے`
«. . . 332- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر يوم الجمعة فقال: ”فيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو قائم يصلي يسأل الله شيئا إلا أعطاه إياه وأشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده يقللها.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس میں ایک ایسا وقت ہے جس میں مسلمان بندہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، پھر اللہ سے جو بھی سوال کرتا ہے تو اللہ اسے قبول فرماتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کیا کہ یہ بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 211]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 935، ومسلم 852، من حديث مالك به]
قولِ راجح میں جمعہ کے دن عصر کے بعد مغرب تک کا وقت دعا کی مقبولیت کا وقت ہوتا ہے لہٰذا اسے غنیمت سمجھتے ہوئے کثرت سے اذکار و ادعیہ میں مصروف رہنا چاہئے۔ واضح رہے کہ دعا صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہئے۔
تفقه:
➊ جمعہ کے دن مقبولیت دعا کے وقت کے بارے میں روایات میں اختلاف ہے:
◄ ایک روایت میں آیا ہے کہ یہ جمعہ کے دن کا آخری وقت ہوتا ہے۔ دیکھئے الموطأ حدیث: 515
◄ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وقت امام کے (منبر پر) بیٹھنے اور نماز ختم ہونے کے درمیان ہے۔ [صحيح مسلم: 853، دارالسلام: 1975]
◄ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فالتمسوھا آخر ساعة بعد العصر۔» اسے عصر کے بعد آخری گھڑی میں تلاش کرو۔ [سنن ابي داود: 1048، وسنده صحيح وصححه الحاكم عليٰ شرط مسلم 1/279 ووافقه الذهبي]
● بعض کہتے ہیں کہ «فالتمسوها» سے آخر تک ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ راویٔ حدیث کا قول ہے لیکن اس قول کی کوئی دلیل معلوم نہیں ہے۔ واللہ اعلم
● ممکن ہے کہ مختلف لوگوں کے احوال کے لحاظ سے مقبولیتِ دعا کی یہ گھڑی کسی کے لئے بعد از عصر ہو اور کسی کے لئے خطبے اور نماز کے درمیان ہو۔ واللہ اعلم
➋ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ مذکورہ شخص نماز کا پابند ہو۔ دیکھئے [التمهيد 19/18، 19] اور [فتح الباري 2/416 تحت ح935،]
➌ طاؤس تابعی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ وقت جس کی اُمید ہے، جمعہ کے دن عصر کے بعد ہوتا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/144 ح5471 وسنده صحيح]
➍ باقی ایام کی بہ نسبت جمعہ کا دن سب سے افضل ہے۔
➎ نماز میں اپنے لئے عربی زبان میں ہر اچھی دعا مانگنا جائز ہے اگرچہ اس کے الفاظ حدیث میں نہ ملیں۔
➏ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: صحابۂ کرام میں سے کچھ لوگ اکٹھے ہوئے تو انہوں نے جمعہ کے دن کی گھڑی کے بارے میں تذکرہ کیا پھر ان کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ یہ جمعے کی آخری گھڑی ہے۔ [الاوسط لابن المنذر 4/13، وسنده صحيح]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کی تشریح میں طویل بحث و تحقیق لکھی ہے۔ رحمہ اللہ
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 332
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 7
´جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةٌ لا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي يَسْأَلُ رَبَّهُ شَيْئًا، إِلا آتَاهُ إِيَّاهُ " . . . .»
”. . . اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اپنے رب سے مانگے تو اللہ اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔“ . . .“ [صحيفه همام بن منبه: 7]
شرح الحدیث:
اس حدیث سے جمعہ کے دن کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس دن میں ایسی گھڑی ہے جو الله تعالیٰ کی خاص رحمت اور قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔ اس گھڑی کے تعین میں اختلاف ہے کہ یہ گھڑی کس وقت آتی ہے؟ بعض صحابہ کا خیال یہ ہے کہ یہ گھڑی عصر کے بعد سے غروب شمس تک ہے، اس بات کو سعید بن جبیر نے عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے، اور یہی قول امام احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہما الله کا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ گھڑی عصر کے بعد ہے، اور زوال شمس کے بعد بھی اس کی امید کی جا سکتی ہے۔ [شرح السنة: 209/4 - سنن الترمذي، تحت حديث، رقم: 489]
سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«التمسوا الساعة التى ترجى فى يوم الجمعة بعد العصر إلى غيبوبة الشمس» [سنن الترمذي، كتاب الجمعه، رقم: 489]
- البانی رحمه الله نے اسے ”حسن“ کہا ہے۔
”جس گھڑی میں دعا کے قبول ہونے کی امید ہے تم اسے عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک تلاش کرو۔“
سیدنا جابر بن عبدالله رضی الله عنہ، نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«فالتمسوها آخر ساعة بعد العصر» [سنن أبو داؤد، رقم: 1048 - سنن نسائي، رقم: 139 - مستدرك حاكم: 279/1]
حاکم اور علامہ البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”تم اس گھڑی کو عصر کے بعد آخر وقت (یعنی غروب شمس کے قریب) تلاش کرو۔“
بعض روایات میں اس کے لیے وہ وقت بتلایا گیا ہے، جب امام نماز جمعہ شروع کرتا ہے، گویا نماز ختم ہونے تک درمیان میں یہ گھڑی آتی ہے۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«هي ما بين ان يجلس الإمام إلى ان تقضى الصلاة» [صحيح مسلم، كتاب الجمعه، رقم: 853/16]
”وہ گھڑی امام کے (خطبہ کے دوران) بیٹھنے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کے درمیان ہے۔“
سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے:
«أَنَّهَا فِيْمَا بَيْنَ الَٔاذَانِ إِلَي انْصِرَافِ الْاِمَامِ.» [شرح السنة: 211/4]
”یقیناً وہ گھڑی اذان سے لے کر امام کے نماز سے فارغ ہونے تک کے درمیان ہے۔“
اور ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ:
«هِيَ عِنْدَ نُزُوْلِ الْإِمَامِ»
”وہ امام کے منبر سے اترتے وقت ہے۔“ [شرح السنة: 211/4]
حافظ ابن حجر رحمة الله علیہ نے فتح الباری (2/ 415-420) پر بڑی تفصیل کے ساتھ ان جملہ روایات پر روشنی ڈالی ہے، اور اس کے متعلق علمائے اسلام و فقہائے عظام کے تنتالیس 43 اقوال نقل کیے ہیں۔
امام شوکانی نے علامہ ابن منیر رحمة الله علیہ کا خیال ان لفظوں میں نقل فرمایا ہے:
«إن فائدة الابهام لهذا الساعة ولليلة القدر بعث الدواعي على الاكثار من الصلاة والدعاء ولو وقع البيان لا تكل الناس على ذالك وتركوا ما عداها فالعجب بعد ذلك ممن يتكل الناس فى طلب تحديدها، وقال فى موضع آخر: يحن جمع الأقوال فتمون ساعة الاجابة واحدة منها لا بعينها فيصاد فها من اجتهد ي جميعها.» [نيل الاوطار: 277/3]
”یقیناً اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے اور اسی طرح لیلة القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں، اس صورت میں ضرور ضرور وہ گھڑی کسی نہ کسی ساعت میں حاصل ہو گی، اگر ان کو ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے، اور صرف اسی گھڑی میں عبادت کرتے۔ پس اس شخص پر تعجب ہے جو اس محدود وقت کو پا لینے پر بھروسہ کیے ہوئے ہے۔ بہتر ہے کہ مذکورہ اقوال کو بایں صورت جمع کیا جائے کہ اجابت کی گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیا جا سکتا۔ پس جو تمام اوقات میں اس کے لیے کوشش کرے گا، وہ ضرور اسے کسی نہ کسی وقت میں پا لے گا۔“
اس بارے میں راجح قول یہی ہے (یعنی ابن منیر رحمة الله علیہ کا) کہ اجابت اور قبولیت کی گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیا جا سکتا، لہذا اس کو پانے کے لیے ان تمام اوقات میں کوشش اور اجتہاد کرنا چاہیے۔ «والله اعلم!»
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 87
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1432
´جمعہ کے دن کی قبولیت دعا کی گھڑی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اس گھڑی کو پا لے، اور اس میں اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور دے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1432]
1432۔ اردو حاشیہ: جو چیز جتنی زیادہ قیمتی، بلند مرتبہ اور افضل ہو، اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ یہ فطری اصول ہے۔ یہ وقت بھی بہت فضیلت والا ہے، اس لیے قلیل ہے، نیز ایسی چیز بڑی چھپا کر رکھی جاتی ہے اور اس کے حصول میں بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت کو مبہم رکھا گیا تاکہ اس کی خصوصی شان ظاہر ہو۔ مباک ہیں وہ لوگ جو ایسی ساعات لطیفہ سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ لمثل ھذا فلیعمل العاملون۔ وفقنا اللہ لما یحبہ ویرضی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1432
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 370
´نماز جمعہ کا بیان`
یہ حدیث بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز جمعہ کا ذکر فرمایا کہ اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جو بندہ مسلم اس گھڑی میں نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عنائت فرماتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نے دست مبارک سے اشارہ کیا کہ وہ وقت بہت تھوڑا سا ہے۔“ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی مروی روایت میں ہے کہ وہ وقت خفیف (کم) سا ہوتا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 370»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجمعة، باب الساعة التي في يوم الجمعة، حديث:935، ومسلم، الجمعة، باب في الساعة التي في يوم الجمعة، حديث:852.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے روز ایک مخصوص وقت ایسا ہے جس میں بندے کی ہر دعا
(سوائے قطع رحمی اور گناہ کے) شرف قبولیت سے ہمکنار ہوتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعیین بیان نہیں فرمائی۔
اس گھڑی کو بھی شب قدر کی طرح مخفی اور پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ اسے تلاش کرنے میں اپنا زیادہ سے زیادہ قیمتی وقت صرف کریں۔
اس طرح ان کا شوق جستجو بڑھے اور ان کی نیکیوں میں اضافہ ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 370
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1137
´جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کے وقت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو مسلمان بندہ نماز پڑھتا ہوا اسے پا لے، اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے کسی بھلائی کا سوال کرے، تو اللہ اسے عطا فرماتا ہے“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے اس وقت کو بہت ہی مختصر بتایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1137]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک کے وقفہ میں ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، باب فی الساعة التی فی یوم الجمعة، حدیث: 853)
(2)
اس مسئلے میں بعض دیگر اقوال آئندہ روایات میں آرہے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1137
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 935
935. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن دوران وعظ فرمایا: ”اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اس گھڑی میں بندہ مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے۔“ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:935]
حدیث حاشیہ:
س گھڑی کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ گھڑی کس وقت آتی ہے بعض روایات میں اس کے لیے وہ وقت بتلایا گیاہے جب امام نماز جمعہ شروع کر تا ہے۔
گویا نماز ختم ہونے تک درمیان میں یہ گھڑی آتی ہے بعض روایات میں طلوع فجر سے اس کا وقت بتلایاگیا ہے۔
بعض روایات میں عصر سے مغرب تک کا وقت اس کے لیے بتلایا گیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں بہت تفصیل کے ساتھ ان جملہ روایات پر روشنی ڈالی ہے اور اس بارے میں علمائے اسلام وفقہاء عظام کے143قوال کیے ہیں۔
امام شوکانی نے علامہ ابن منیر کا خیال ان لفظوں میں نقل فرمایا ہے:
قَالَ ابْنُ الْمُنِيرِ:
إذَا عُلِمَ أَنَّ فَائِدَة الْإِبْهَام لِهَذِهِ السَّاعَة وَلِلَيْلَةِ الْقَدْر بَعْثَ الدَّوَاعِي عَلَى الْإِكْثَار مِنْ الصَّلَاة وَالدُّعَاءِ، وَلَوْ وَقَعَ الْبَيَان لَهَا لَاتَّكَلَ النَّاس عَلَى ذَلِكَ وَتَرَكُوا مَا عَدَاهَا، فَالْعَجَب بَعَدَ ذَلِكَ مِمَّنْ يَتَّكِل فِي طَلَب تَحْدِيدهَا. وَقَالَ فِي مَوْضِع آخَر:
يَحْسُن جَمْع الْأَقْوَال فَتَكُون سَاعَة الْإِجَابَة وَاحِدَة مِنْهَا لَا بِعَيْنِهَا، فَيُصَادِفهَا مَنْ اجْتَهَدَ فِي الدُّعَاء فِي جَمِيعهَا. (نیل الأوطار)
یعنی اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں اور اسی طرح لیلۃ القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں، اس صورت میں ضرورضرور وہ گھڑی کسی نہ کسی ساعت میں اسے حاصل ہوگی۔
اگر ان کو ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے۔
پس تعجب ہے اس شخص پر جواسے محدود وقت میں پالینے پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔
بہتر ہے کہ مذکورہ بالا اقوال کو بایں صورت جمع کیا جائے کہ اجابت کی گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیا جاسکتا پس جوتمام اوقات میں اس کے لیے کوشش کرے گا وہ ضرور اسے کسی نہ کسی وقت میں پالے گا۔
امام شوکانی ؒ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے:
وَالْقَوْل بِأَنَّهَا آخِر سَاعَة مِنْ الْيَوْم هُوَ أَرْجَحُ الْأَقْوَال، وَإِلَيْهِ ذَهَبَ الْجُمْهُور من الصحابة والتابعین والأئمة الخ۔
یعنی اس بارے میں راجح قول یہی ہے کہ وہ گھڑی آخر دن میں بعد عصر آتی ہے اور جمہور صحابہ وتابعین وائمہ دین کا یہی خیال ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 935
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6400
6400. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ”جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے اگر کوئی مسلمان بایں حالت اسے پالے کہ وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو بھلائی بھی وہ اللہ تعالٰی سے مانگے گا وہ اسے ضرور عنایت فرمائےگا آپ نےاپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا تو ہم نے اس سے یہ سمجھا کہ آپ اس گھڑی کے مختصر ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6400]
حدیث حاشیہ:
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں۔
ثمَّ اخْتلفت الرِّوَايَة فِي تَعْيِينهَا فَقيل:
هِيَ مَا بَين أَن يجلس الإِمَام إِلَى أَن تقضى الصَّلَاة لِأَنَّهَا سَاعَة تفتح فِيهَا أَبْوَاب السَّمَاء، وَيكون الْمُؤْمِنُونَ فِيهَا راغبين إِلَى الله، فقد أجتمع فِيهَا بَرَكَات السَّمَاء وَالْأَرْض. وَقيل بعد الْعَصْر ألى غيبوبة الشَّمْس لِأَنَّهَا وَقت نزُول الْقَضَاء، وَفِي بعض الْكتب الإلهية إِن فِيهَا خلق آدم، (حجة اللہ)
یعنی اس گھڑی کی تعیین میں اختلاف ہے۔
یہ بھی امام کے ممبر پر بیٹھنے سے ختم نماز تک ہوتی ہے اس لئے کہ اس گھڑی میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اس میں مومنوں کو اللہ کی طرف سے رغبت زیادہ ہوتی ہے، پس اس میں آسمانی وزمینی برکات جمع کی جاتی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عصر کے بعد سے غروب تک ہے، اس لئے یہ قضائے الٰہی کے نزول کا وقت ہے اور بعض حوالوں کی بنا پر یہ آدم کی پیدائش کا وقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6400
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:935
935. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن دوران وعظ فرمایا: ”اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اس گھڑی میں بندہ مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے۔“ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:935]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس گھڑی کی تعیین کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے 42 اقوال ذکر کیے ہیں۔
ان میں دو قول زیادہ مشہور ہیں:
٭ وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر اختتام صلاۃِ جمعہ تک ہے۔
اس قول کو امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بیان کیا ہے۔
٭ عصر کے بعد سے لے کر غروب شمس تک ہے۔
اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی جبکہ اس گھڑی کے متعلق ہے کہ انسان اس وقت حالت نماز میں ہوتا ہے۔
یہی اشکال ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ جو نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ محب طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے متعلق زیادہ صحیح حدیث، حدیث ابی موسیٰ ہے اور سب سے زیادہ مشہور قول عبداللہ بن سلام ؓ کا ہے۔
ان کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں وہ ان دونوں یا کسی ایک کے مطابق ہیں یا وہ ضعیف الاسناد یا موقوف روایات ہیں۔
امام بیہقی ؒ نے امام مسلم سے نقل کیا ہے کہ حدیث ابی موسیٰ اس بات میں سب سے زیادہ عمدہ اور صحیح ہے اور یہی بات خود امام بیہقی، ابن العربی اور جماعت محدثین نے کہی ہے۔
امام قرطبی ؒ نے کہا ہے کہ حدیث، اختلاف کے وقت بمنزلہ نص کے فیصلہ کن ہے، لہذا دوسرے احتمالات کی طرف التفات نہ کیا جائے، جبکہ بعض دوسرے حضرات نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کو ترجیح دی ہے۔
امام ترمذی نے امام احمد ؒ سے نقل کیا ہے کہ اکثر احادیث سے عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن سلام کا قول أثبت شئي في هذا الباب ہے۔
(فتح الباري: 542/2) (3)
حافظ ابن حجرؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں لیلۃ القدر کے مخفی رکھنے کی طرح یہ فائدہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے بکثرت نوافل ادا کیے جائیں اور دعائیں مانگی جائیں۔
اس صورت میں ضرور وہ گھڑی مل جائے گی جس کا وہ متلاشی ہے۔
اگر انہیں ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسا کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے، اس لیے اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو اسے کسی محدود مدت میں حاصل کرنے پر بھروسا کیے ہوئے ہے۔
(فتح الباري: 542/2) (4)
واضح رہے کہ ساعت موجودہ اس شخص کے لیے ہے جو نماز کا پابند ہو نہ کہ وہ شخص جو ساعۃ اجابت کی وجہ سے صرف جمعہ پڑھنے کے لیے آ جائے اور باقی نمازوں کو پابندی سے ادا نہ کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 935
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6400
6400. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ”جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے اگر کوئی مسلمان بایں حالت اسے پالے کہ وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو بھلائی بھی وہ اللہ تعالٰی سے مانگے گا وہ اسے ضرور عنایت فرمائےگا آپ نےاپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا تو ہم نے اس سے یہ سمجھا کہ آپ اس گھڑی کے مختصر ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6400]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس گھڑی کی تعیین میں لیلۃ القدر کی طرح چالیس اقوال ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مجھے اس گھڑی کے متعلق بتایا گیا تھا لیکن لیلۃ القدر کی تعیین کی طرح مجھ پر اس کے متعلق نسیان طاری ہو گیا۔
“ (مسند أحمد: 65/3) (2)
علامہ خطابی فرماتے ہیں:
اس کی تعیین دو طرح سے کی جا سکتی ہے:
ایک یہ کہ وہ دوران نماز میں آتی ہے دوسری یہ کہ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس وقت آتی ہے۔
(فتح الباري: 238/11)
شاہ ولی اللہ کہتے ہیں:
اس گھڑی کی تعیین میں اختلاف ہے، ممکن ہے کہ وہ امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے اختتام تک ہو کیونکہ اس وقت آسمانی اور زمینی برکات جمع ہوتی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گھڑی عصر کے بعد غروب آفتاب کے درمیان ہے کیونکہ یہ تقدیر کے فیصلوں کے نزول کا وقت ہے۔
(حجة اللہ البالغة: 29/2) (3)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پوروں کو وسطیٰ اور خنصر کے بطن پر رکھ کر اس کے مختصر ہونے کی طرف اشارہ کیا۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5294)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6400