Note: Copy Text and to word file

صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
57. باب صَلاَةِ الْخَوْفِ:
باب: نماز خوف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1945
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَصَفَّنَا صَفَّيْنِ صَفٌّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَدُوُّ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَبَّرْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَكَعَ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، وَقَامَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّجُودَ، وَقَامَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ انْحَدَرَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بِالسُّجُودِ وَقَامُوا، ثُمَّ تَقَدَّمَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ وَتَأَخَّرَ الصَّفُّ الْمُقَدَّمُ، ثُمَّ رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ الَّذِي كَانَ مُؤَخَّرًا فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، وَقَامَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ فِي نُحُورِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّجُودَ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، انْحَدَرَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بِالسُّجُودِ فَسَجَدُوا، ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمْنَا جَمِيعًا ". قَالَ جَابِرٌ: " كَمَا يَصْنَعُ حَرَسُكُمْ هَؤُلَاءِ بِأُمَرَائِهِمْ ".
عطاء نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں شریک ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری دو صفیں بنائیں، ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھی (اوردوسری ان کے پیچھے) اور دشمن ہمارے اور قبلے کے درمیان تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) کہی اور ہم سب نے بھی تکبیر کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور ہم سب نے رکوع کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور ہم سب نے سراٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کے لئے جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف نے بھی سجدہ کیا اور پچھلی صف دشمن کے مد مقابل کھڑی رہی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کے کرلیے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف (سجدے کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) کھڑی ہوگئی تو پچھلی صف سجدے کے لئے نیچے ہوئی اور پھر کھڑی ہوگئی، اس کے بعد پچھلی صف آگے آگئی اور اگلی صف پیچھے چلی گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا۔پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور ہم سب نے بھی سراٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف جو پہلی رکعت میں پیچھے تھی، سجدے کے لئے نیچے چلی گئی اور پچھلی صف دشمن کے مقابلے میں کھڑی رہی، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف نے سجدہ کرلیا تو پچھلی صف سجدے کے لئے جھکی۔انھوں نے سجدے کیے۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے بھی سلام پھیردیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بتایا: جس طرح تمہارےمحافظ (آجکل) اپنے امیروں کی حفاظت کے لئے کرتے ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں شریک تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری دو صفیں بنائیں، ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھی (اوردوسری ان کے پیچھے) اور دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر(تحریمہ) کہی اور ہم سب نے بھی تکبیر کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور ہم سب نے رکوع کیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور ہم سب نے سر اٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کے لئے جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف نے بھی سجدہ کیا اور پچھلی صف دشمن کے مد مقابل کھڑی رہی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سجدے کے کر لیے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف (سجدے کر کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی تو پچھلی صف سجدے کیے اور کھڑی ہو گئی پھر پچھلی صف آگے آ گئی اور اگلی صف پیچھے چلی گئی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور ہم سب نے بھی سراٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف نے جو پہلی رکعت میں پیچھے تھی، سجدے کیے اور پچھلی صف دشمن کے سامنے کھڑی رہی، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل صف دونوں سجدوں سے فارغ ہوئی، پچھلی صف سجدے کے لئے جھکی۔ انھوں نے دونوں سجدے کیے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے بھی سلام پھیر دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا: جس طرح تمہارےمحافظ (آجکل) اپنے امیروں کی حفاظت کے لئے کرتے ہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1945 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1945  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ازاء،
نحر،
نحور:
سب کا معنی،
مقابلہ میں یعنی سامنے ہے۔
(2)
حرس:
حارس کی جمع ہے،
محافظ،
باڈی گارڈ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1945   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1549  
´باب:`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ کھجور کے باغات میں تھے، اور دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی، تو سبھوں نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا، تو سبھوں نے رکوع کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس صف نے جو آپ سے قریب تھی سجدہ کیا، اور دوسرے لوگ کھڑے ان کی حفاظت کرتے رہے، پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو دوسروں نے بھی اپنی جگہوں پر جہاں وہ تھے سجدہ کیا، پھر وہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر آگے آ گئے ۱؎ پھر آپ نے رکوع کیا، تو سبھوں نے ایک ساتھ رکوع کیا، پھر آپ نے (رکوع سے سر) اٹھایا تو سبھوں نے سر اٹھایا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا، اور اس صف نے جو آپ سے قریب تھی، اور دوسرے لوگ کھڑے ان کی پہریداری کرتے رہے، پھر جب وہ لوگ سجدہ کر چکے اور (سجدہ کے بعد) بیٹھ گئے، تو دوسروں نے بھی اپنی جگہوں میں سجدہ کیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس طرح تمہارے امراء کرتے ہیں، (یعنی سلام پھیرتے ہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1549]
1549۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر بچہ بلوغت سے پہلے بے گناہ ہوتا ہے مگر جنازہ مسلم میت کی سنت ہے، نیز بخشش اور دعائے رحمت بچے کے والدین کے لیے ہو گی، اس لیے بچے کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت یا جہنم میں جانے والوں کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی فرد واحد کو قطعیت کے ساتھ جنتی یا جہنمی نہیں کہا: جا سکتا (جب تک وحی نہ آئے) خواہ وہ نابالغ بچہ ہی ہو، البتہ عمومی حکم یہی ہے کہ مسلمانوں کے بچے (بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے) جنات میں جائیں گے۔ ایک دوسری تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب بچوں کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نازل نہیں ہوا تھا بعد میں بتا دیا گیا کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے۔ کفار کے بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ جب کفار کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والد کافر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا کہ نہ انہیں غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ انہیںمسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کافر ہی ہیں باقی رہا آخرت میں ان کا حال تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ بڑے ہوتے تو دنیا میں کس طرح کے عمل کرتے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟ (صحیح البخاري، القدر، حدیث: 6597) نیز بعض اہل علم کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور ان کا بھی اہل فترت کی طرح امتحان ہو گا اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر نافرمانی کی تو جہنم رسید ہوں گے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترت کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔ اہل فترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کی دعوت نہیں پہنچی ہو گی۔ اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے، مثلاً: کفار اور مشرکین کے بچے، ان کا بھی امتحان ہو گا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) (بنی اسرآئیل 15: 17) اہل فترت کے بار میں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، فضیلۃ الشیخ ابن باز اور فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح التثیمین رحمہم اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے جبکہ بعض اہل علم کے بقول وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ وہ بے گناہ ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ ابن تیمیہ: 372/24، 273، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 193/19- 196)
➌ جنت اور جہنم کا وجود ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1549   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 381  
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں حاضر تھا۔ ہم نے دو صفیں بنائیں ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی ہوئی جبکہ دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم سب نے بھی اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اوپر اٹھایا اور ہم سب نے بھی اپنے سر اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والی صف بھی اور دوسری صف دشمن کے مقابلے کیلئے کھڑی رہی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ پورا کر لیا تو وہ صف جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھی کھڑی ہو گئی۔ پھر راوی نے ساری حدیث بیان کی۔ ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی صف نے بھی سجدہ کیا اور جب وہ سب کھڑے ہو گئے تو دوسری صف سجدے میں چلی گئی اور پہلی صف پیچھے ہٹ گئی اور دوسری صف آگے آ گئی اور پہلے کی طرح ہی ذکر کیا اور آخر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے بھی سلام پھیر دیا (مسلم) اور ابوداؤد نے ابو عیاش زرقی سے اس طرح روایت نقل کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ عسفان مقام پر (ادا کی گئی) تھی۔ اور نسائی نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا پھر ایک دوسرے گروہ کو اسی طرح دو رکعات پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ ابوداؤد میں سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی ایک روایت ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 381»
تخریج:
«أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:840، وحديث أبي عياش الزرقي أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1236 وسنده صحيح،وحديث جابر أخرجه النسائي، صلاة الخوف، حديث:1553 وهو حديث صحيح، وحديث أبي بكرة أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1248 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
اس حدیث میں نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔
ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ نماز خوف مختلف طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔
سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو رکعتیں پڑھائیں۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں۔
تو گویا آپ نے دو تو فرض پڑھے اور دو نفل ادا کیے کیونکہ دو مرتبہ دو دو فرض تو نہیں ہوتے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے مقتدی فرض پڑھ سکتے ہیں۔
احناف نے اس مقام پر انصاف سے کام نہیں لیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ قیاس کو چھوڑ کر حدیث صحیح کی اتباع کرتے لیکن ہوا یوں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ جیسے صاحب علم و فضل نے تو الٹا اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ حالانکہ اس کے منسوخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوعیاش زُرَقی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام زید بن ثابت ہے۔
انصاری زرقی مشہور ہیں۔
زرقی کے زا پر ضمہ اور را پر فتحہ ہے۔
ان سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
۴۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 381   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1946  
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہینہ قبیلے کے لوگوں سے جنگ لڑی، انھوں نے ہمارے ساتھ بڑی شدید جنگ کی جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھی تو مشرکوں نے کہا: کاش ہم ان پر یکبارگی حملہ کرکے انہیں حتم کر دیتے، جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کر دیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتا دیا۔ اور ان لوگوں نے کہا، ابھی ان کی ایک ایسی نماز کا وقت آنے والا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1946]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب دشمن سامنے قبلہ رخ ہوتو پھر نماز خوف کا طریقہ یہی ہے کہ تمام فوج کی دو صفیں بنائی جائیں گی اور تمام فوج نماز میں مشغول ہو گی رکوع کرنے تک تمام شریک رہیں گے،
پھر سجدے صرف پہلی صف امام کے ساتھ کرے گی اور ان کے کھڑے ہونے کے بعد دوسری صف سجدے کرے گی۔
پھر دوسری رکعت میں پہلی صف دوسری کی جگہ آ جائے گی اور دوسری پہلی صف کی جگہ لے گی اور پہلی رکعت کی طرح نماز پڑھیں گے اور پھر تشہد میں تمام فوج بیٹھ جائے گی دشمن سامنے نظر آ رہا ہو گا پھر تمام سلام پھیرے گی۔
دشمن کی گفتگو کی اطلاع جبرائل نے جنگ عسفان میں دی تھی اس لیے کہا جاتا ہے نماز خوف کی اجازت اس جنگ میں ملی اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے وگرنہ جبرائیل علیہ السلام کو اطلاع دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1946