Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجُمُعَةِ
کتاب: جمعہ کے بیان میں
18. بَابُ الْمَشْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ:
باب: جمعہ کی نماز کے لیے چلنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 908
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ حدثنا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ، وأبي سلمة عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ وَأْتُوهَا تَمْشُونَ عَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے سعید اور ابوسلمہ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری سند سے بیان کیا) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ (اپنی معمولی رفتار سے) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ پھر نماز کا جو حصہ (امام کے ساتھ) پالو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تو اسے بعد میں پورا کرو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 908 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 908  
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جمعہ کی نماز بھی ایک نماز ہے اور اس کے لیے دوڑنا منع ہو کر معمولی چال سے چلنے کا حکم ہوا یہی ترجمہ باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 908   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:908  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جمعہ کے لیے جس سعی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سعی نہیں جس کی حدیث مذکورہ میں ممانعت ہے کیونکہ آیت میں سعی سے مراد کوشش کر کے جانا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے اس کی تفسیر مروی ہے اور حدیث میں سعی سے مراد دوڑ کر آنا ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں لفظ مشي استعمال ہوا ہے جس کے معنی پیدل چلنا ہیں۔
(فتح الباري: 502/2)
اس کے علاوہ سعي إلی الصلاة اور سعي إلی الجمعة میں فرق بھی ہے۔
سعي إلی الصلاة اس لیے منع ہے کہ جب انسان نماز کے لیے دوڑ کر آئے گا تو ہانپتا ہوا نماز میں شامل ہو گا، ایسا کرنا نماز میں خضوع خشوع کے منافی ہے جبکہ سعي إلی الجمعة میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ جب جمعہ کے لیے سعی کر کے آئے گا تو اسے نماز سے پہلے کچھ وقت سستانے اور آرام کرنے کے لیے مل جائے گا اور نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بھی نتیجے اور انجام کے لحاظ سے سکون و وقار کے منافی ہو گی وہ منع ہے اور جس سے سکون و وقار میں خلل پیدا نہیں ہو گا اس کے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 504/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 908   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 572  
´نماز کے لیے دوڑ کر آنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب نماز کی تکبیر کہہ دی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ، تو اب جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: زبیدی، ابن ابی ذئب، ابراہیم بن سعد، معمر اور شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اسی طرح: «وما فاتكم فأتموا» کے الفاظ روایت کئے ہیں، اور ابن عیینہ نے تنہا زہری سے لفظ: «فاقضوا» روایت کی ہے۔ محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور جعفر بن ربیعہ نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لفظ: «فأتموا» سے روایت کی ہے، اور اسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور ان سب نے: «فأتموا» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 572]
572. اردو حاشیہ:
➊ لفظ  «فاتموا»  مکمل کرو سے استدلال یہ ہے کہ «مسبوق» جسے پوری جماعت نہ ملی ہو جہاں سے اپنی نماز شروع کرتا ہے وہ اس کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور بعد از جماعت کی نماز اس کا آخر۔ امام ابوداؤد نے دلائل دیئے ہیں۔ کہ اکثر رواۃ  «فاتموا»  کا لفظ بیان کرتے ہیں، مگر کچھ حضرات کہتے ہیں کہ  «فاقضوا»  قضا دو کا مفہوم یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ جو پڑھتا ہے۔ وہ اس کی نماز کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ جیسے کے امام کی نماز کا لہٰذا اٹھ کر اسے فوت شدہ نماز کی قضا کی نیت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ لفظ شاذ ہے، جیسے کہ اس کی بابت شیخ البانی کی صراحت آگے آ رہی ہے۔ اس لئے راحج ہے کہ جہاں سے شروع کرے گا۔ وہ اس کی ابتداء ہو گی اور لفظ  «فاقضوا»  میں قضا ہمیشہ فوت شدہ کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ ادا کرنے، پورا کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مثلاً  «فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ»  جب نماز پوری ہو جائے اور  «فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ»  جب تم اپنے مناسک حج پورے کر لو۔ اسی طرح  «فاتموا»  اور  «فاقضوا»  میں تعارض نہیں رہتا۔  [عون المعبود]
➋ سورہ جمعہ کی آیت کریمہ بظاہر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ کر آنے کا حکم ہے۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ»  اور حدیث مذکورہ بالا میں سعی (دوڑنا) منع ہے تو اس میں تعارض کا حل یہ ہے کہ دراصل آیت کریمہ میں حکم یہ ہے کہ اپنے مشاغل دنیوی یا غفلت اور کسل مندی و سستی کو ترک کر کے جمعہ کے لئے جلدی کرو۔ گویا آیت میں سعیٰ دوڑ کر آنے کا مطلب فوراً دنیوی مشاغل ترک کر کے مسجد میں پہنچنا ہے۔ اور حدیث میں مسجد کی طرف آنے کا ادب بتایا گیا ہے کہ دوڑنے کی بجائے، باوقار چال سے چل کر آؤ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 572   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 862  
´نماز کے لیے دوڑ کر جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ چلتے ہوئے آؤ، اور تم پر (وقار) سکینت طاری ہو، نماز جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 862]
862 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کی طرف دوڑ کر آنا سنجیدگی کے خلاف ہے، بے ادبی ہے، مسجد کی حرمت کے خلاف ہے۔ رب العالمین کے حضور حاضری معمولی بات نہیں۔ اس میں کامل سکون اور وقار چاہیے۔ عام معاملات میں بھی جلدبازی نامناسب ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کیونکہ اس میں عام طور پر جانی اور مالی نقصان ہو جاتا ہے۔ عزت کا نقصان تو ہے ہی۔
➋ جو نماز امام کے ساتھ مل جائے، وہ اتبدائے نماز ہے یا امام والی؟ اس میں اختلاف ہے، یعنی مقتدی کی وہ کون سی رکعتیں شمار ہوں گی؟ پہلی شمار ہوں گی تو وہ بقیہ رکعتیں آخری رکعتوں کی طرح پڑھے گا اور اگر امام کی ترتیب کے حساب سے شمار ہوں گی تو بقیہ رکعتیں وہ ابتدائی رکعتوں کی طرح پڑھے گا۔ شوافع پہلی اور احناف دوسری بات کے قائل ہیں۔ دونوں طرف دلائل ہیں۔ اس حدیث کے آخری لفظ «فَاقْضُوا» امام شافعی رحمہ اللہ کے مؤید ہیں اور یہی راجح ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز اکثر روایات میں «فأتِمُّوا» کے الفاظ وارد ہیں جس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ مقتدی جہاں سے آغاز کرے گا، وہی اس کی ابتدائے نماز ہو گی۔ جو رہ چکی ہو گی، بعد میں اس کی تکمیل کرے گا، لہٰذا بعض احادیث میں منقول الفاظ «فَاقْضُوا» کے معنیٰ بھی یہی ہوں گے، یعنی جو نماز رہ چکی ہو، اسے بعد میں ادا کر لیا جائے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی، شرح سنن النسائي: 10؍355]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 862   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 335  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز کی اقامت سنو تو نماز کی طرف اطمینان و سکون اور وقار کے ساتھ چل کر آؤ۔ جلدی اور عجلت مت کرو۔ جتنی نماز جماعت کے ساتھ پا لو اتنی پڑھ لو اور جو باقی رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 335»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب لا يسعي إلي الصلاة....، حديث:636، ومسلم، المساجد، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار سكينة، حديث:602.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے نمازی جب مسجد میں نماز باجماعت کے لیے آئے تو بڑے آرام و سکون اور وقار و عزت کے ساتھ آئے۔
دوڑتا ہوا نہ آئے۔
چلتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھے۔
بولنے کی ضرورت ہو تو دھیمی اور پست آواز سے بولے۔
یوں اطمینان سے آنے کے بعد امام کو جس حالت میں پائے، نماز میں شریک ہو جائے اور باقی نماز کو بعد میں کھڑا ہو کر پورا کر لے۔
ایسی صورت میں مقتدی نے جو نماز امام کے ساتھ پڑھی وہ اس نمازی کی پہلی رکعتیں شمار ہوں گی یا پچھلی؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس مقتدی کی پچھلی رکعتیں شمار ہوں گی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کی یہ پہلی رکعتیں شمار ہوں گی۔
یہی بات حدیث کے الفاظ فَأَتِمُّوا کے موافق ہے‘ نیز یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ رکوع میں شامل ہونے والے کی یہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں؟ محتاط ترین اور قرین صواب بات یہ ہے کہ رکعت نہیں ہوگی کیونکہ رکوع میں شامل ہونے کی صورت میں سورۂ فاتحہ اور قیام کی ادائیگی نہیں ہو پاتی‘ یہ دونوں رکن نماز ہیں۔
ان کے فقدان سے نماز کیسے ہوگی؟
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 335   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث775  
´نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان سے چل کر آؤ، امام کے ساتھ جتنی نماز ملے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 775]
اردو حاشہ:
(1)
نماز باجماعت بہت ثواب والا عمل ہے اس کے حصول کی کوشش کرنا اچھی بات ہے لیکن اس مقصد کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ گھر سے بروقت روانہ ہوں۔
گھر سے روانہ ہوتے وقت دیر کردینا اور پھر نماز میں ملنے کے لیے بھاگنا درست نہیں۔

(2)
اطمینان سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس قدر آہستہ چلے گویا اسے نماز باجماعت کی کوئی پرواہ نہیں۔
مقصد یہ ہے کہ وقار کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو۔

(3)
بھاگ کر جماعت سے ملنے کے ممنوع ہونے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ نماز میں ملنے تک سانس نہ پھول جائے کیونکہ اس صورت میں نماز خشوع خضوع اور توجہ سے نہیں ادا کی جاسکے گی۔
واللہ اعلم
(4)
جو شخص نماز باجماعت میں اس وقت ملتا ہے جب امام ایک یا زیادہ رکعت ادا کرچکا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرے۔
علمائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائیں گی وہ نمازی کی آخری رکعتیں ہوں گی یا ابتدائی رکعتیں؟ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہےکہ امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتیں مقتدی کی ابتدائی رکعتیں ہیں صحیح بخاری میں بھی (صحيح البخاري، الأذان باب لا يسعي إلي الصلاة وَلْيَأْتِهَا بالسكينة والوقار، حديث: 636)
صحیح مسلم میں بھی زیادہ روایات اسی طرح کی ہے البتہ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
(وَاقْضِ مَا سَبَقَكَ) (صحيح مسلم، المساجد، باب استحباب إِتيان الصلاة بوقار و سكينة۔
۔
۔
۔
۔
، حديث: 602)

اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعتیں اصل میں پہلی رکعتیں ہیں یعنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کی قضاء ہے۔
علامہ محمد فواد عبد الباقی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کے حاشہ میں فرمایا ہے:
یہاں قضاء سے مراد صرف فعل (ایک کام کو انجام دینا)
ہے وہ قضاء مراد نہیں جو فقہاء کی اصطلاح ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ میں ہے کہ (فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰت) (حم السجدة: 12) (الله تعالی نے انھیں سات آسمان بنا دیا)
اور اس آیت میں:
(فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ) (البقرة: 200)
 (جب تم اپنے اعمال حج پورے کرلو۔
۔
۔
۔)

اور اس آیت میں (فَإِذَاقُضِيَتِ الصَّلٰوةُ) (الجمعه: 10)
 (جب نماز پوری ہوجائے۔)
اور جیسے کہا جاتا ہے قَضَيْتُ حَقَّ فَلَانٍ میں نے فلاں کا حق ادا کردیا ان تمام مقامات پر قضاء سے مراد کوئی کام کرنا اور اسے انجام دینا ہے۔
حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں امام امیر صنعانی ؒ نے فرمایا:
اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والاامام کے ساتھ جو نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پہلی رکعتیں ہوتی ہیں یا آخری؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پہلی ہی ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 775   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:964  
964- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ تم پر سکون لازم ہے جتنا حصہ تمہیں ملے اسے ادا کر لو اور جو گزر جائے اسے بعد میں ادا کرلو۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:964]
فائدہ:
مسجد کی طرف دوڑ کر آنا درست نہیں ہے، بلکہ اطمینان کے ساتھ آنا چاہیے، بعض لوگ طلباء پر نماز کے معاملے میں بہت زیادہ سختی کرتے ہیں، اس سختی کے ڈر سے طلباء کا دوڑ لگا کر آنا درست نہیں ہے، اور بعض کا سختی کے ڈر کی وجہ سے بے وضو نماز پڑھنا کبیرہ گناہ ہے، اس کا گناہ جہاں طلباء کو ہے، وہاں یہ غلط قانوں بنانے والی انتظامیہ اور ناجائزسختی کرنے والے اسا تذہ کو بھی ہوگا، تربیت کے اصول قرآن و حدیث کے موافق ہونے چاہئیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 963   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:636  
636. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب تم اقامت سنو تو نماز کے لیے سکون و وقار کے ساتھ چلو، تیزی اختیار نہ کرو، پھر جس قدر نماز مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:636]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز کےلیے تیز دوڑ کر آنے والے کی دو صورتیں ہیں:
٭ایک یہ کہ نماز کے لیے اقامت ہوچکی ہو، نمازی اس لیے تیزی کرتا ہے کہ وہ جلدی نماز میں شامل ہوکر تکبیر اولیٰ کی فضیلت حاصل کرسکے، لیکن اس قسم کے اچھےجذبات رکھنے کے باوجود نماز کے لیے تیز دوڑ کر آنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ مذکوہ حدیث میں ہے۔
٭دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی نماز کے لیے اقامت نہیں ہوئی، وہ یقینا تکبیر اولیٰ اور پہلی رکعت میں شامل ہوسکتا ہے، اس کے باوجود وہ نماز میں شمولیت کے لیے دوڑ کر آتا ہے، اس سے بھی منع کیا گیا، جیسا کہ حدیث ابی قتادۃ ؓ (635)
میں ہے، کیونکہ ایسا کرنا نماز کے وقار اور سکون کے خلاف ہے۔
بعض حضرات نے اس امتناعی حکم کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اقامت کے بعد تیز دوڑ کر نماز میں شامل ہونے والے کا سانس چڑھا ہو گا جو دوران نماز میں خشوع خضوع کے منافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی قراءت اور نماز سے متعلقہ دیگر احکام متاثر ہوسکتے ہیں۔
(2)
صحیح مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا قصد کرتا ہے تو نماز ادا کرنے سے قبل ہی بحالت نماز شمار ہوتا ہے۔
اس بنا پر نمازی کو نماز سے پہلے بھی ایسے کاموں سے اجتناب کرنا ہوگا جو نماز کے منافی ہیں۔
آرام و سکون سے نماز کی طرف آنے کی وجہ سے اگر نماز کا کچھ حصہ بھی نہ پاسکا تو بھی نماز کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔
نماز کے لیے پروقار طریقے سے آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ آہستہ آہستہ چلنا بھی اس کے ثواب میں اضافے کا باعث ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسے نماز کےلیے زیادہ قدم اٹھانے ہوں گے اور ہر قدم کے بدلے درجات کا بلند ہونا حدیث سے ثابت ہے۔
(فتح الباري: 154/2) (3)
صلاۃ مسبوق (جس آدمی کی نماز کا کچھ حصہ فوت ہوجائے)
کی ترتیب کا مسئلہ بھی اس حدیث کے تحت آتا ہے، کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے والے اکثر راوی باقی ماندہ نماز پڑھنے کےلیے لفظ اتمام بیان کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ امام کے ساتھ ادا کردہ نماز آخری حصہ ہے، اسے پہلے حصے کو پورا کرنا ہو گا۔
اس اختلاف کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوگا کہ ایک آدمی امام کے ساتھ مغرب کی تیسری رکعت میں شامل ہوتا ہے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس نے باقی ماندہ دو رکعت ادا کرنی ہیں، اتمام والے (شوافع)
حضرات کے نزدیک اگرچہ امام کی آخری رکعت تھی، لیکن مسبوق کی پہلی رکعت مکمل ہے، اس لیے سلام کے بعد پہلی رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا کر تشہد بیٹھے گا، پھر تیسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ کرے گا اور سلام پھیرے گا۔
اس کے برعکس قضا والے (احناف)
حضرات کا موقف ہے کہ امام کے ساتھ اس کی آخری رکعت ادا ہوئی ہے، اب اس نے پہلی اور دوسری رکعت پڑھنی ہے، اس لیے وہ سلام کے بعد پہلی رکعت میں ثنا، تعوذ اور فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی ملائے گا، اس طرح وہ دوسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ بیٹھے گا اور سلام پھیرے گا۔
ہمارے نزدیک پہلی صورت راجح ہے جس کے حسب ذیل دلائل ہیں:
٭حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ امام کے ساتھ جو نماز تم پا لو وہ تمھاری پہلی نماز ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیهقي: 299/2)
٭اتمام کا حکم اس بات کا ثبوت ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق نے جتنی نماز پڑھی تھی وہ اس کی ابتدائی نماز تھی۔
اور جن روایات میں لفظ قضا ہے وہ بھی اتمام کے معنی میں ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ﴾ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ۔
(الجمعة 62: 10) (3)
اگر امام کے ساتھ پڑھی گئی نماز مسبوق کی آخری رکعت ہو تو اسے باقی ماندہ نماز کی آخری رکعت کے لیے تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ امام کے ساتھ اسے پڑھ چکا ہے، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، بلکہ تمام حضرات اسے امام کے ساتھ تشہد پڑھ لینے کے باوجود بھی آخری رکعت میں تشہد پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 636   

  الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 636  
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے (معمولی چال سے) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو (بہرحال) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔ [صحيح بخاري ح: 636]
فوائد:
➊ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے پچھلے باب میں مروی حدیث میں ایک فرق ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اقامت سن کر سکون اور وقار سے آنے اور دوڑ کر نہ آنے کا حکم ہے جب کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر ہے کہ جب تم نماز کے لیے آؤ، یعنی خواہ اقامت سن کر آؤ یا اس سے پہلے آؤ، سکون اور وقار سے چل کر آؤ، دوڑ کر نہ آؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف اقامت سننے کے بعد ہی نہیں پہلے بھی سکون اور وقار کے ساتھ ہی آنا لازم ہے، دوڑ کر نہیں آنا چاہیے، کیونکہ یہ وقار اور سکون کے خلاف ہے، دوڑ کر آنے سے سانس بھی چڑھ جاتا ہے اور آدمی گھبرایا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے نماز کے خشوع و خضوع میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ سکینت کا تعلق دل سے ہے، فرمایا: «هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ» [الفتح: 4] وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی۔ اور وقار کا اظہار اعضا سے ہوتا ہے، جو دل کی سکینت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
➋ اقامت سن کر دوڑ کر آنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تکبیر تحریمہ اور رکعت نہ رہ جائے۔ اقامت سے پہلے دوڑ کر آنے کی وجہ بھی یہی ہو سکتی ہے کہ نماز پوری مل جائے، اس کا کچھ حصہ رہ نہ جائے۔ دونوں صورتوں میں دوڑ کر آنے کی ممانعت کی حکمت اسی حدیث کے ان زائد الفاظ سے معلوم ہوتی ہے جو مسلم نے «العَلَاءُ عَنْ أَبِيْهِ» کے طریق سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیے ہیں، چنانچہ انھوں نے اس باب میں مذکور حدیث کی طرح نقل کرنے کے بعد اس کے آخر میں یہ الفاظ روایت کیے ہیں: «فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ يَعْمِدُ إِلَى الصَّلَاةِ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ» [مسلم: 602/152] کیونکہ تم میں سے کوئی شخص جب نماز کے ارادے سے جا رہا ہو تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ یعنی وہ نمازی کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے اسے نمازی ہی کی طرح سکون و وقار کوملحوظ رکھنا چاہیے اور ان چیزوں سے بچنا چاہیے جن سے نمازی اجتناب کرتا ہے۔ یہ حکمت اس حدیث میں زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے جو ابو داؤد نے «عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ» کے طریق سے مرفوع بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ لَمْ يَرْفَعْ قَدَمَهُ الْيُمْنَى إِلَّا كَتَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ حَسَنَةٌ، وَلَمْ يَضَعْ قَدَمَهُ الْيُسْرَى إِلَّا حَطَّ الله عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ سَيِّئَةٌ فَلْيُقَرِّبْ أَحَدُكُمْ أَوْ لِيُبَعدْ فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى فِي جَمَاعَةٍ غُفِرَ لَهُ، فَإِنْ أَتَى المَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا بَعْضًا وَبَقِيَ بَعْضُ صَلَّى مَا أَدْرَكَ وَأَتَمَّ مَا بَقِيَ كَانَ كَذَلِكَ، فَإِنْ أَتَى الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّوْا فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ كَانَ كَذَلِكَ» [أبو داود: 563، وقال الألباني: صحيح] جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز کے لیے نکلے تو وہ دایاں قدم نہیں اٹھاتا مگر اللہ عزوجل اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور نہ بایاں قدم رکھتا ہے مگر اللہ عزوجل اس سے ایک برائی مٹا دیتا ہے، تو تم میں سے ہر شخص چاہے قریب قدم رکھے یا دور رکھے، پھر اگر وہ مسجد میں آ جائے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھے تو اسے بخش دیا جاتا ہے اور اگر وہ مسجد میں آئے اور لوگ کچھ نماز پڑھ چکے ہوں اور کچھ باقی ہو تو اسے جتنی نماز ملے وہ پڑھ لے اور جو باقی ہو اسے پورا کر لے تو وہ بھی اسی طرح ہوتا ہے اور اگر وہ مسجد میں آئے اور لوگ نماز پڑھ چکے ہوں، پھر اس نے (اکیلے ہی) نماز پوری کی تو وہ بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ ابو داؤد کی اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ گھر سے تیار ہو کر یعنی اچھی طرح وضو کر کے آنے والے کو کچھ نماز ملے یا کچھ بھی نہ ملے تو بھی ثواب (مغفرت) پورا ہی ملے گا، تو بھاگ کر آنے کا فائدہ کیا ہے؟
«وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا» (اور جو تم سے رہ جائے اسے پورا کرو): ان الفاظ سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت میں امام کے ساتھ ملے اس کی پہلی رکعت وہ ہو گی جس میں وہ امام کے ساتھ ملا ہے، کیونکہ کسی چیز کو پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے آخر تک پہنچایا جائے، مثلاً اگر کوئی شخص امام کے ساتھ آخری رکعت میں ملا ہے تو سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت پڑھ کر اسے تشہد میں بیٹھنا ہو گا اور اس کے مطابق باقی نماز پڑھنا ہو گی۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ بعد میں آنے والے مقتدی (مسبوق) نے امام کے ساتھ جو رکعت یا رکعتیں پڑھی ہیں وہ اس کی آخری رکعت ہیں، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر جو رکعت یہ پڑھے گا یہ اس کی سب سے پہلی رکعت ہو گی اور اسی کے مطابق وہ ہر دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے گا۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی بعض روایات میں «وَمَا فَاتَكُمْ فَاقْضُوا» کے الفاظ ہیں جس کا مطلب ان کے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ جو رہ جائے اس کی قضا دو۔ اور قضا اسی طرح ہوتی ہے جس طرح ادا ہے، اس لیے یہ اٹھ کر جو رکعت پڑھے گا وہ اس کی پہلی رکعت ہو گی۔ مگر «فَاقْضُوا» کا یہ مطلب کرنے سے ایک ہی حدیث کی روایات آپس میں متعارض ہو جائیں گی، اس لیے حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کی جن روایات میں «فَاقْضُوا» آیا ہے ان کا مطلب بھی «فأتموا» ہی ہے، کیونکہ «قَضَى يَقْضِي» کا معنی اتمام یعنی پورا کرنا بھی معروف ہے، جیسے فرمایا: «فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ» [الجمعة: 10] پھر جب نماز پوری کر لی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ . اور فرمایا: «فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَموتٍ فِي يَوْمَيْنِ» [حم السجدة: 12] تو انھیں دو دنوں میں پورے سات آسمان بنا دیا۔ تو جب دونوں الفاظ ایک ہی صحابی سے آئے ہیں تو ان کا معنی ایک ہی مراد لینا چاہیے۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو تو الگ نوافل پڑھنا منع ہے، کیونکہ حکم یہ ہے: «مَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوْا» جتنی نماز تمھیں ملے وہ پڑھو۔ یہ نہیں کہ سنتیں یا نوافل پڑھتے رہو۔ ایک حدیث میں یہ حکم صریح الفاظ میں آیا ہے: «إِذَا أُقِيِّمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ» [مسلم: 710] جب نماز کے لیے اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ امام جس حال میں ہے اس میں شامل ہو جانا چاہیے، قیام میں ہے تو قیام میں، رکوع میں ہے تو رکوع میں۔ [وَ عَلَى هَذَا الْقِيَاسِ]
   فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 636