صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
34. باب اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ:
باب: خوش آوازی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1845
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ ".
سفیان بن عیینہ نے زہری سے انھوں نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی وہ اس (فر ما ن) کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعا لیٰ نے (کبھی) کسی چیز پر اس قدر کان نہیں دھرا (توجہ سے نہیں سنا) جتنا کسی خوش آواز نبی (کی آواز) پر کان دھرا جس نے خوش الحانی سے قراءت کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی چیز پر اس قدر کان نہیں دھرتا (انتہائی توجہ سے سنتا) جس طرح نبی کی آواز پر جو خوش الحانی سے قراءت کر رہا ہو، کان دھرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1845 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1845
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَذِنَ لِشَيْءٍ:
کان دھرنا،
اہتمام سے سننا،
یعنی استماع کرنا،
اور اللہ تعالیٰ کا استماع بھی اس کی ذاتی صفات کی طرح اس کے شایان شان ہے،
اس کی کیفیت و صورت کو نہیں جانا جا سکتا،
اس لیے یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اس کی بنا پر نبی کو قرب بخشتا ہے،
یا اس پر اجر جزیل اور وافر ثواب عنایت فرماتا ہے۔
(2)
يَتَغَنّٰي بِالْقُرْآنِ:
وہ اپنی کتاب کی خوش الحانی اور حسن صوت کے ساتھ قراءت کرتا ہے،
قرآن سے مراد یا تو مصدری معنی ہے قراءت کرنا یا مقروء مراد ہے یعنی جس کتاب کی وہ تلاوت قراءت کرتا ہے۔
فوائد ومسائل:
قرآن مجید کو خوش آوازی اور خوش الحانی سے پڑھناچاہیے لیکن اس کو گانا اور تجوید کے اصول وضوابط کو نظر اندا زکر کے ترنم پیدا کرنا پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک ہو تکلف اور تصنع اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ﴾ ”اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
! کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر مزدوری کا سوال نہیں کرتا اور نہ ہی میں تکلف کرنے والوں سے ہوں۔
“ بعض حضرات نے (يَتَغَنّٰى)
کا معنی وہ کیا ہے جو گھوڑوں کے رکھنے والے کے اجر وثواب والی حدیث میں (تَغَنِّياً)
کا ہے۔
یعنی قرآن یا اپنی کتاب کو باعث استغناء سمجھتا ہے۔
اس کے مقابلے میں کسی اور کتاب کی ضرورت واحتیاج نہیں سمجھتا یا کسی انسان کا اپنے آپ کو محتاج نہیں سمجھتا۔
یہ معنی اگرچہ اپنی جگہ درست ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اس حدیث میں مقصد خوش الحانی ہی ہے جیسا کہ دوسری حدیث ہے:
(زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ)
قرائت کو اپنی آوازوں سے مزیّن کرو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1845
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1018
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ کوئی چیز اتنی پسندیدگی سے نہیں سنتا جتنی خوش الحان نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے، جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتا ہو۔“ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1018]
1018۔ اردو حاشیہ:
➊ ”خوب صورت آواز والے نبی“ سے مراد بعض کے نزدیک خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد انبیاء کی جماعت ہے۔ جنھوں نے اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں، انہیں وہم ہوا ہے۔ [فتح الباري: 87/9، تحت حدیث: 5023]
➋ اس حدیث مبارکہ سے اللہ کی صفت سماع ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1018
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1019
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا۔“ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1019]
1019۔ اردو حاشیہ: بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے ایسی احادیث سن کر بڑے پیچاں و غلطاں ہو جاتے ہیں کہ ”کان لگانا، غور کرنا، توجہ فرمانا، سنتا“ تواللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں، لہٰذا تاویل کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ ان تاویلات سے تو یہ احادیث ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے حسنیٰ ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ تف ہے ایسی عقل پر جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جاننے والے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1019
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1473
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1473]
1473. اردو حاشیہ: یہاں [يتغنی بالقرآن]
كے معنی [يجهر به]
یعنی بلند آواز سے پڑھنا لیے گئے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1473
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:979
979- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کسی بھی بات کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنی توجہ سے وہ اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنتا ہے، جو خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:979]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے، اور تلفظ کا خاص خیال رکھنا چا ہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 978
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1847
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی چیز پر کان نہیں دھرتا جس قدر کان اس نبی کی خوش الحانی پر دھرتا ہے جو قراءت خوش الحانی سے کرتا ہے، اس کو بلند آواز سے پڑھتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1847]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(حُسْنُ الصَّوْتْ)
نبی کی آواز پر کان دھرنا جب کہ وہ بلند آواز سے قرات کرتا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ (يَتَغَنّٰى بِالْقُرْآن)
سے مراد خوش الحانی اور بلند آواز سے پڑھنا ہے،
بے نیازی اور تکلف مراد نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1847
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5023
5023. سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کسی چیز کے لیے اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر قرآن کریم کی وجہ سے بے نیاز ہونے کی دی ہے۔“ راوی حدیث کے ایک شاگرد کہتے ہیں: اس سے مراد قرآن کریم کو خوش الحانی سے بآواز بلند پڑھنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5023]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا قرآن مجید کی تلاوت میں کس طرح کی آواز سب سے زیادہ پسند ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس تلاوت سے اللہ کا ڈر پیدا ہو۔
“ یہ بھی روایت ہے کہ قرآن مجید کو اہل عرب کے لہجہ اور ان کی آواز کے مطابق پڑھو۔
گانے والوں اور اہل کتاب کے لب و لہجہ سے قرآن مجید کی تلاوت میں پرہیز کرو، میرے بعد ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو گویوں کی طرح گا گا کرپڑھے گی، یہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی اور ان کے دل فتنے میں مبتلا ہوں گے۔
“ ایسی تلاوت قطعاً منع ہے جس میں گویوں کی نقل کی جائے۔
اس ممانعت کے باجود آج پیشہ ور قاریوں نے قراءت کے موجودہ طور و طریق جو ایجاد کئے ہیں ناقابل بیان ہیں اللہ تعالیٰ نیک سمجھ عطا کرے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5023
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5024
5024. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے کسی چیز کی اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر اپنے نبی کو قرآن کریم سے غنا حاصل کرنے کی دی ہے۔“ سفیان نے کہا کہ اس کی تفسیر قرآن کریم سے غنا حاصل کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5024]
حدیث حاشیہ:
اب مخالف کتابوں یا دنیا کے مال و دولت کی اس کو پر واہ نہ رہے اور قر آن ہی کو اپنی سب سے بڑ ی دولت سمجھے۔
خوش آوازی سے قرآن کا پڑھنا مسنون ہے یعنی ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ متوسط آواز سے پڑھنا۔
خوش آوازی سے یہ مراد نہیں کہ گانے کی طرح پڑھے۔
مالکیہ نے اسے حرام کہا ہے اور شافعیہ اور حنفیہ نے مکروہ رکھا ہے، حافظ نے کہا اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی حرف کے نکالنے میں خلل نہ آئے اگر حروف میں تغیر ہو جائے تو بالاجماع حرام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5024
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5024
5024. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے کسی چیز کی اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر اپنے نبی کو قرآن کریم سے غنا حاصل کرنے کی دی ہے۔“ سفیان نے کہا کہ اس کی تفسیر قرآن کریم سے غنا حاصل کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5024]
حدیث حاشیہ: 1۔
عربی زبان میں
(تَغَنِّي) کے کئی معنی ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۔
(تحسين الصوت) یعنی قرآن کریم کو خوش الحانی اور بہترین آواز سے پڑھنا۔
۔
(استغنا) قرآن کریم کی وجہ سے دیگر کتب سے بے پروا ہو جانا اور ان کی طرف کوئی توجہ نہ دینا۔
۔
(التحزن) یعنی قرآن کریم کو غم و اندوہ سے پڑھا تا کہ فکر آخرت پیدا ہو۔
۔
(التشاغل) یعنی قرآن کریم میں اس قدر مصروف ہو جانا کہ دوسری کسی چیز کی طرف توجہ نہ جائے۔
۔
(التلذز) یعنی قران کریم پڑھتے وقت الذت و سرور حاصل کرنا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کتاب کی طرف توجہ نہ دی جائے اور نہ ان کی پروا ہی کرے۔
تائید کے لیے انھوں نے درج ذیل بالا آیت کریمہ پیش کی ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5024
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7482
7482. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی بات کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جس قدر نبی ﷺ کے قرآن پڑھنے کو متوجہ ہو کر سنتا ہے جبکہ وہ اسے خوش الحانی سے پڑھتے ہیں۔“ سیدنا ابو ہریرہ ؓ کے ایک شاگرد نے اس کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جب آپ اسے بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7482]
حدیث حاشیہ:
1۔
شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق نہیں ہے حتی کہ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث میں مذکورہ لفظ اذن سے قول مراد لیا ہے، حالانکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے فقیہ سے یہ بات بہت بعید ہے۔
(عمدة القاري: 672/16)
2۔
ہمارے نزدیک اس لفظ کے معنی ہیں:
متوجہ ہو کر سننا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ توجہ سے اسی کلام کو سنا جا سکتا ہے جو حروف وآواز پر مشتمل ہو اور خوش الحانی سے بھی وہی کلام پڑھا جا سکتا ہے جو الفاظ واصوات پر مشتمل ہو۔
اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ حقیقی کلام سے متصف ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7482
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7544
7544. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جس قدر خوش الحانی سے پڑھنے کی بنا پر نبی ﷺ کے قرآن پڑھنے کو سنتا ہے جب وہ اسے بلند آواز سے پڑھتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7544]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ ہر قسم کی آواز سنتا ہے لیکن اس کی کتاب پڑھنے والے خوش الحان کو پسند کرتا ہے۔
اسے توجہ سے سنتا ہے۔
اس حدیث میں خوش الحانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور عمل ہے اور یہ خوش الحانی اللہ تعالیٰ کو مطلوب اور اسے انتہائی پسند ہے۔
2۔
اس سے واضح ہوا کہ تلاوت اور آواز کا اچھا ہونا، اسے باآواز بلند پڑھنا یا آہستہ تلاوت کرنا یہ سب بندے کے افعال ہیں اور بندہ اپنے اعمال وافعال سمیت اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7544