Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
33. باب الْأَمْرِ بِتَعَهُّدِ الْقُرْآنِ، وَكَرَاهَةِ قَوْلِ نَسِيتُ آيَةَ كَذَا، وَجَوَازِ قَوْلِ أُنْسِيتُهَا
باب: قرآن کی نگہبانی کرنے کا حکم اور اس قول کے کہنے کی ممانعت کہ میں فلاں آیت بھول گیا اور آیت بھلا دی گئی کہنے کے جواز میں۔
حدیث نمبر: 1839
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ الإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ "،
امام مالک نے نافع کے واسطے سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صاحب قرآن (قرآن حفظ کرنے والے) کی مثال پاؤں بندھے اونٹوں (کے چرواہے) کی مانند ہے اگر اس نے ان کی نگہداشت کی تو وہ انھیں قابو میں رکھے گا اور اگر انھیں چھوڑ دے گا تو وہ چلے جا ئیں گے۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حافظِ قرآن کی مثال ان اونٹوں کی طرح ہے، جس کا پاؤں رسی سے باندھا گیا ہے، اگر اس نے ان کی نگہداشت کی تو وہ قابو میں رکھے گا، اوراگرانھیں چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1839 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1839  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اَلْاِبِلُ الْمُعَقَّلَه:
بندھے ہوئے اونٹ۔
مُعَقَّلَه:
عقال سے ماخوذ ہے۔
عِقَال:
رسی کو کہتے ہیں۔
(2)
اِنْ عَاهَدَا عَلَيْهَا اَمْسَكَهَا:
اگر وہ (مالک)
اونٹ کا خیال و دھیان رکھے گا اور رسی قائم رہے گی تو اونٹ اس کے قبضہ میں رہیں گے۔
(3)
وَاِنْ اَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ:
اگر انہیں رسی سے آزاد کر دے گا تو وہ چلے جائیں گے۔
فوائد ومسائل:
اونٹ ایسا حیوان ہے جو بہت بھگوڑا ہے وہ بھاگ کھڑا ہو تو رسی کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا اس لیے رسی کو قابو رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رسی میں بندھا رہے کیونکہ رسی کھول دی یا ٹوٹ گئی تو نکل کھڑا ہو گا۔
اس طرح قرآن مجید کو یاد رکھنے کی صورت اور اس کی عقال،
اس کی تلاوت وقرات پر استمرارودوام ہے۔
اگرانسان اس کی ہمیشہ تلاوت نہیں کرے گا تو وہ اس کے ذہن سے نکل جائے گا اور اسے دوبارہ یاد کرنے کی محنت وکوشش برداشت کرنی پڑے گی۔
اس کے بغیر یاد نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1839   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 567  
´حافظ قرآن کے لیے تنبیہ`
«. . . وعن نافع عن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما مثل صاحب القرآن كمثل صاحب الإبل المعقلة إن عاهد عليها امسكها وإن اطلقت ذهبت . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب قرآن (حافظ) کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے اونٹ بندھے ہوئے ہوں، اگر وہ ان کا خیال رکھے گا تو انہیں قابو میں رکھے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو یہ اونٹ (بھاگ کر) چلے جائیں گے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 567]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5031، و مسلم 789، من حديث مالك به من رواية يحييٰ بن يحييٰ و سقط من الأصل]
تفقہ:
➊ حافظ کو چاہئے کہ قرآن یاد کر لینے کے بعد بھی اس کی منزل مسلسل پڑھتا رہے تاکہ یہ اسے بھول نہ جائے۔ اگر منزل باقاعدگی سے نہ پڑھی جائے تو قرآن جلد بھول جاتا ہے۔
➋ طلبہ کو کثرت سے علمی مذاکرہ کرتے رہنا چاہئے۔
➌ مثال دے کر بات سمجھانا بہترین طریقہ ہے۔
➍ اعمال بجا لانا آسان ہے جبکہ ان کی حفاظت کرنا مشکل ہے، اسی لیے اعمال کے ساتھ ان کی محافظت پر زور دیا گیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 203   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 943  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب قرآن ۱؎ کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے اونٹ رسی سے بندھے ہوں، جب تک وہ ان کی نگرانی کرتا رہتا ہے تو وہ بندھے رہتے ہیں، اور جب انہیں چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 943]
943 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث مبارکہ میں قرآن کریم کا بار بار دور کرنے اور اس کی کثرت سے تلاوت کر کے اس کی حفاظت کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔
➋ قرآن کے حافظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو بار بارپڑھتا رہے۔ متشابہات کی طرف توجہ کرے ورنہ بھولنے کا خطرہ ہے۔
➌ کسی بات کی وضاحت کرنے کے لیے مثال بیان کرنی چاہیے تاکہ حقیقت حال ذہنوں کے قریب تر ہو جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 943   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3783  
´تلاوت قرآن کے ثواب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جب تک مالک اسے باندھ کر دیکھ بھال کرتا رہے گا تب تک وہ قبضہ میں رکھے گا، اور جب اس کی رسی کھول دے گا تو وہ بھاگ جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3783]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اونٹ کو بٹھا کررسی سے اس کا گھٹنا باندھ دیا جاتا ہے۔
اس رسی کو (عِقَال۔
۔
۔)

کہتے ہیں۔
اس کی وجہ سے اونٹ بھاگ نہیں سکتا۔

(2)
قرآن مجید یاد کرنے کے بعد اسے پڑھتے رہنا چاہیے تا کہ یاد رہے۔
اگر پابندی سے تلاوت نہ کی جائے تو حفظ کیا ہوا قرآن بھول جا تا ہے۔

(4)
اگر تلاوت فرض اور نفل نمازوں میں خصوصاً نماز تہجد میں ہو تو برکات کا حصول زیادہ ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3783   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5031  
5031. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اگروہ اس کی نگرانی کرے گا تو اسے روک سکے گا اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5031]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ اگر قرآن کا پڑھنا چھوڑ دے گا تو وہ بھول جائے گا اکثر حافظوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ سستی کے مارے قرآن کا پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں پھر ساری محنت برباد ہو جاتی ہے اور قرآن مجید کو بھول جاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5031   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5031  
5031. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اگروہ اس کی نگرانی کرے گا تو اسے روک سکے گا اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5031]
حدیث حاشیہ:

قرآن مجید کی تلاوت جاری رکھنے اور اسے ہمیشہ پڑھتے رہنے کو رسی سے بندھے ہوئےاونٹ سے تشبیہ دی جس کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔
جب تک اس کی نگرانی اور حفاظت رہے اور اس کا دور ہوتا رہے تو یاد رہے گا جیسا کہ رسیوں سے بندھا ہوا اونٹ بھاگ نہیں سکتا۔

اونٹ سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ اونٹ دوسرے گھریلو جانوروں کی نسبت زیادہ بھاگتا ہے اور اس کے بھاگ نکلنے کے بعد اسے پکڑنا بہپت مشکل ہوتا ہے۔
اکثرحفاظ کرام کو دیکھا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کا دورچھوڑ دیتے ہیں۔
پھر ساری محنت برباد ہو جاتی ہےاور قرآن مجید سینے سے نکل جاتا ہے، بھولا ہوا قرآن یاد کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
(إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5031