Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجُمُعَةِ
کتاب: جمعہ کے بیان میں
16. بَابُ وَقْتُ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ:
باب: جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے۔
وَكَذَلِكَ يُرْوَى عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
‏‏‏‏ اور عمر اور علی اور نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اسی طرح مروی ہے۔
حدیث نمبر: 903
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عَمْرَةَ عَنِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" كَانَ النَّاسُ مَهَنَةَ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانُوا إِذَا رَاحُوا إِلَى الْجُمُعَةِ رَاحُوا فِي هَيْئَتِهِمْ فَقِيلَ لَهُمْ لَوِ اغْتَسَلْتُمْ".
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یحیٰی بن سعید نے خبر دی کہ انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور جمعہ کے لیے اسی حالت (میل کچیل) میں چلے آتے، اس لیے ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ (کبھی) غسل کر لیا کرتے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 903 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 903  
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت لفظ حدیث کانو ''إذا راحوا إلی الجمعة'' سے ہے۔
علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں لأن الرواح لا یکون إلابعد الزوال امام بخاری نے اس سے ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام جمعہ کی نماز کے لیے زوال کے بعد آیا کرتے تھے معلوم ہوا کہ جمعہ کا وقت بعد زوال ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 903   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:903  
حدیث حاشیہ:
(1)
جمعہ کا وقت جمہور ائمہ کے نزدیک وقت ظہر ہی ہے، یعنی اسے بھی زوال آفتاب کے بعد پڑھنا چاہیے جبکہ امام احمد کا موقف ہے کہ جمعہ، عیدین کے وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں امام احمد ؒ کے موقف سے اختلاف کر کے جمہور کے موقف کو ثابت کیا ہے، چنانچہ اس حدیث میں لفظ "راحوا" استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعد از زوال جانا ہے جیسا کہ اکثر اہل لغت نے اس کی صراحت کی ہے۔
پھر اس حدیث میں وضاحت ہے کہ اسی حالت میں لوگوں کو پسینہ آ جاتا جس سے بدبو پھیل جاتی۔
ایسا ہونا سخت گرمی میں ممکن ہے جبکہ وہ عوالی سے آتے تھے۔
معلوم ہوتا ہے کہ لوگ زوال یا اس کے قریب قریب مسجد میں آتے ہوں گے۔
اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے حدیث عائشہ ؓ کو ذکر کیا ہے۔
(فتح الباري: 499/2) (2)
بعض حنابلہ نے نماز جمعہ قبل از زوال، یعنی چاشت کے وقت پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کو مسلمانوں کی عید قرار دیا ہے، اس بنا پر عیدین کے وقت اسے پڑھا جا سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی عید قرار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عید کے تمام احکام اس پر چسپاں کر دیے جائیں۔
عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے لیکن جمعہ کے دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 498/2)
اس کے علاوہ جمعہ میں خطبہ نماز سے پہلے ہے جبکہ عیدین میں نماز کے بعد ہے۔
عیدین میں نماز سے پہلے نوافل ادا کرنا منع ہے جبکہ جمعہ سے پہلے جائز ہے۔
عیدین کے لیے اذان و اقامت نہیں جبکہ جمعہ کے لیے اذان اور اقامت کہی جاتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 903   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:178  
فائدہ:
اس حدیث سے جمعہ کے غسل کی اہمیت ثابت ہوتی ہے، راجح موقف یہی ہے کہ غسل جمعہ مستحب ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 178