Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
24. باب التَّرْغِيبِ فِي الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ وَالإِجَابَةِ فِيهِ:
باب: رات کے آخر میں دعا کرنے اور ذکر کرنے کی ترغیب اور اس میں قبولیت کا ذکر۔
حدیث نمبر: 1778
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّ حَدِيثَ مَنْصُورٍ أَتَمُّ وَأَكْثَرُ.
شعبہ نے ابو اسحاق سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بیان کی، البتہ منصور کی روایت مکمل اور زیادہ (تفصیلات پر محیط) ہے۔
یہی حدیث مصنف ایک اور سند سے نقل کرتے ہیں، لیکن مذکورہ بالا روایت مکمل اور مفصل ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1778 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1778  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

مذکورہ بالا روایت میں اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کا تذکرہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا اترنا یا نازل ہونا اس کی دوسری صفات کی طرف ایک فعلی صفت ہے۔
جس طرح اس کی ذات کی حقیقت اور کیفیت کو جاننا ممکن نہیں ہے لیکن یہ طے ہے کہ وہ خالق ہے اس لیے اس کی ذات بھی اس کی شان کے مطابق ہے مخلوق کی طرح نہیں ہے اسی طرح تمام صفات ذاتی ہوں یا فعلی ان کی کیفیت اورحقیقت کو جاننا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
اور اس کی صفات اس کی شانِ خالقیت کے مطابق ہیں مخلوق کی صفات کے مشابہ اور مماثل نہیں ہیں۔
اور ان پر بلا کیف ایمان لانا تمام سلف امت صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہ،
ائمہ دین فقہاء اورمحدثین کا عقید ہ ہے۔
اس لیے یہ تاویل کرنا کہ وہ متوجہ ہوتا ہے۔
یا اس کی رحمت اترتی ہے یا اس کے فرشتے اترتے ہیں یہ پہلے اس کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس کرنا ہے اورپھر ان کا انکار کرنا ہے اگر اس کی صفات کو اس کے شایان شان مانا جائے،
ان کی کسی کیفیت یا شکل کا تعین نہ کیا جائے تو صفات کےانکار کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔
کیا رحمت یا فرشتہ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے مانگو،
میں دوں،
مجھے پکارو،
میں دعا قبول کروں یا مجھ سے معافی طلب کرو میں معاف کروں۔

اللہ تعالیٰ کے نزول کا وقت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی حدیث میں رات کا آخری تہائی ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ پہلی تہائی گزرنے کے بعد اترتا ہے تو ظاہر ہے آخری تہائی پہلی تہائی کے بعد ہی آتی ہے۔
اس لیے تیسری حدیث میں:
(شَطْرُ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثَاهُ)
ہے اور شَطْرُ کا معنی اہم حصہ بھی ہوتا ہے۔
شَطْرُ اور ثُلُثَاهُ دوتہائی کا معنی ایک ہی ہے کہ وہ تہائی رات گزرنے کے بعد تیسری اور آخری تہائی میں اترتا ہے۔
اس لیے تمام روایات کا مقصد یہی ہے کہ آخری تہائی میں اعلان فرماتا ہے۔
اس لیے الفاظ میں بظاہر تعارض ہے لیکن حقیقتاً تضاد نہیں کہ ترجیح کی ضرورت پیش آئے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ علامہ عراقی اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے آخر تہائی کی روایت کو ترجیح دی ہے۔

کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے جو محتاج اور حق مارنے والی نہیں سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ وخیرات کرنا ہے اور اس کو قرض سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کئی گناہ بڑھا چڑھا کر بندے کو واپس فرماتا ہے۔

ان روایات سے رات کے آخری تہائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور بندوں کو شوق اوررغبت دلائی گئی ہے کہ وہ اس وقت اٹھ کر اللہ کےحضور اپنی گزارشات پیش کریں۔
اس سے اپنی حاجات مانگیں،
اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی طلب کریں اور اپنے دامن کو اپنی مرادوں سے بھریں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1778