Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
17. باب صَلاَةِ اللَّيْلِ وَعَدَدِ رَكَعَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ الْوِتْرَ رَكْعَةٌ وَأَنَّ الرَّكْعَةَ صَلاَةٌ صَحِيحَةٌ:
باب: نماز شب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل میں رکعتوں کی تعداد، وتر کے ایک ہونے کا بیان اور اس بات کا بیان کہ ایک رکعت صحیح نماز ہے۔
حدیث نمبر: 1731
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا أَلْفَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّحَرُ الأَعْلَى فِي بَيْتِي أَوْ عِنْدِي، إِلَّا نَائِمًا ".
ابو سلمہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ر وایت کی، انھوں نے کہا: سحر کے آخری حصے (جب طلوع فجر سے بالکل پہلے سحر اپنی انتہا پر ہوتی ہے) نے میرے گھر میں یا میرے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوئے ہوئے ہی پایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے آخری حصہ میں اپنے گھر میں یا اپنے پاس سوئے ہوئے پایا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے آخری حصہ میں، میرے گھر میں یا میرے پاس سوئے ہوئے پایا۔)
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1731 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1731  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مَااَلْفٰي:
نہیں پایا۔
(2)
اَلسَّحَرُ الْأَعْليٰ:
رات کا آخری حصہ،
صبح کے قریب کا وقت۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز سے صبح سے پہلے فارغ ہو جاتے تو لیٹ جاتے تھے اور بعض دفعہ سو بھی جاتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1731   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1318  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں صبح ہوتی تو آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سوئے ہوئے ہی ملتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1318]
1318. اردو حاشیہ: توضیح: نبیﷺ کا یہ سونا قیام اللیل کے بعد راحت کے لیے ہوتا تھا۔ بعض اوقات محض لیٹنا ہوتا اور بعض اوقات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرماتے۔ اور ممکن ہے کہ یہ لمبی راتوں کی بات ہو نہ کہ چھوٹی راتوں کی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ قیام اللیل کے بعد آرام کرنا، بدن کو راحت دیتا اور جاگنے کی مشقت دورکرتا ہے علاوہ ازیں جس کو نحیف بھی نہیں ہونے دیتا۔ بخلاف صبح تک جاگتے رہنے کے، اس سے کمزوری ہو جاتی ہے۔ (عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1318   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1197  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اخیر رات میں پاتی تو اپنے پاس سویا ہوا پاتی ۱؎۔ وکیع نے کہا: ان کی مراد وتر کے بعد۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1197]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا اکثر معمول نصف رات کے بعد تہجد شروع کرکے فجر سےگھنٹہ دو گھنٹہ پہلے فارغ ہوجانے کا تھا۔
اس لئے صبح صادق کے وقت رسول اللہ ﷺ آرام فرما رہے ہوتے تھے۔
لیکن بہت دفعہ رات کے آخر تک بھی نماز میں مشغول رہتے تھے جیسے کہ دوسری روایات میں مذکور ہے۔

(2)
ہرشخص اپنی سہولت کے مطابق رات کے کسی حصے میں تہجد ادا کرسکتا ہے۔
اور اس کا وقت بھی کم وبیش ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1197   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:189  
فائدہ:
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے آخری معمول کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد اور وتر سے فارغ ہوکر سحری کے آخری وقت میں تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے تھے، اور یہ اکثریت پر محمول ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 189   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1133  
1133. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو آخر شب، یعنی بوقت سحر سوئے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1133]
حدیث حاشیہ:
عادت مبارکہ تھی کہ تہجد سے فارغ ہو کر آپ ﷺ قبل فجر سحرکے وقت تھوڑی دیر آرام فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ ؓ یہی بیان فرما رہی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1133   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1133  
1133. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو آخر شب، یعنی بوقت سحر سوئے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1133]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں حضرت داود ؑ کی شب بیداری کو بیان فرمایا تھا۔
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کو اس کے مطابق ثابت کیا ہے کہ مرغ عام طور پر آدھی رات کو آواز دیتا ہے۔
یہ اس کی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔
اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نصف رات تک محو استراحت رہتے، اس کے بعد مرغ کی آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز میں مصروف رہتے، پھر سحری کے وقت تک سوئے رہتے۔
اس سے آپ ﷺ کے اور حضرت داود ؑ کے عمل میں یکسانیت ثابت ہوئی اور بوقت سحر سونا بھی ثابت ہوا، لیکن رمضان المبارک میں آپ کا یہ معمول نہیں ہوتا تھا، کیونکہ آپ رات کے آخری حصے میں سحری تناول فرمانے میں مصروف ہو جاتے۔
اس سے فراغت کے بعد صبح کی نماز ادا فرماتے، جیسا کہ آئندہ عنوان میں اس کی وضاحت ہو گی۔
(فتح الباري: 25/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1133