Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجُمُعَةِ
کتاب: جمعہ کے بیان میں
12. بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الْجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ:
باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 898
رَوَاهُ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلَّهِ تَعَالَى عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقٌّ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا.
اس حدیث کی روایت ابان بن صالح نے مجاہد سے کی ہے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک دن (جمعہ) غسل کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 898 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 898  
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ دن جمعہ کا وہ دن ہے جس کی تعظیم عبادت الٰہی کے لیے فرض کی گئی تھی۔
قسطلانی ؒ نے چند آثار ذکر کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ ؑ نے اپنی امت کو خاص دن اللہ کی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا اور وہ جمعہ کا دن تھا۔
لیکن بہ سبب نا فرمانی کے اپنے اجتہاد کو دخل دے کر اسے ترک کر دیا اور کہنے لگے کہ ہفتہ کا دن ایسا ہے کہ اس میں اللہ نے بعد پیدائش تمام کائنات کے آرام فرمایا تھا۔
پس ہم کو بھی مناسب ہے کہ ہم ہفتہ کو عبادت کا دن مقرر کریں اور نصاری کہنے لگے کہ اتوار کے دن اللہ نے مخلوق کی پیدائش شروع کی۔
مناسب ہے کہ اس کو ہم اپنی عبادت کا دن ٹھہر الیں۔
پس ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کواللہ نے صراحتاً بتلادیا کہ جمعہ کا ہی دن بہتر دن ہے۔
ابن سیرین سے مروی ہے کہ مدینہ کے لوگ آنحضرت ﷺ کے آنے سے پہلے جبکہ ابھی سورۃ جمعہ بھی نازل نہیں ہوئی تھی، ایک دن جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ یہود ونصاریٰ نے ایک ایک دن جمع ہوکر عبادت کے لیے مقرر کئے ہوئے ہیں، کیوں نہ ہم بھی ایک دن مقرر کر کے اللہ کی عبادت کیا کریں۔
سو انہوں نے عروبہ کا دن مقرر کیا اور اسعد بن زرارہ کو امام بنایا اور جمعہ ادا کیا۔
اس روز یہ آیت نازل ہوئی:
۔
﴿یٰآیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُو ااِذَا نُودِیَ لَلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ﴾ (الجمعة: 9)
اس کو علامہ ابن حجر ؒ نے صحیح سند کے ساتھ عبد الرزاق سے نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ اس کا شاہد اسناد حسن کے ساتھ احمد، ابو داؤدو ابن ماجہ نے نکالا۔
استاذنا مولانا حضرت محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمیت الجمعة لاجتماع الناس فیھا وکان یوم الجمعة یسمی العروبة۔
یعنی جمعہ اس لیے نام ہوا کہ لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں اور عہد جاہلیت میں اس کا نام یوم العروبہ تھا۔
اس فضیلت کے بارے میں امام ترمذی ؒ یہ حدیث لائے ہیں۔
عن أبي ھریرة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال خیر یوم طلعت فیه الشمس یوم الجمعة فیه خلق آدم وفیه أدخل الجنة وفیه أخرج منھا ولا تقوم الساعة إلا في یوم الجمعة۔
یعنی تمام دنوں میں بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔
اس میں آدم پیدا ہوئے اور اس دن میں جنت میں داخل کئے گئے اور اس دن ان کا جنت سے خروج ہوا اور قیامت بھی اس دن قائم ہوگی۔
فضائل جمعہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، یہ امت ہفتہ واری عید ہے۔
مگر صد افسوس کہ جن حضرات نے دیہات میں جمعہ بند کرانے کی تحریک چلائی اس سے کتنے ہی دیہات کے مسلمان جمعہ سے اس درجہ غافل ہو گئے کہ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ آج جمعہ کا دن ہے۔
اس کی ذمہ داری ان علماءپر عائد ہوتی ہے۔
کاش یہ لوگ حالات موجودہ کا جائزہ لے کر مفادامت پر غور کر سکتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 898   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:898  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ جہاں روایات مختلف ہوں یا کسی مسئلے میں ائمہ کا اختلاف ہو وہاں کوئی حکم لگانے کے بجائے لفظ "هل" سے اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، چنانچہ جمعہ کے دن غسل کے متعلق وہ قسم کی روایات ہیں:
ایک روایت یہ ہے کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل کرنا ضروری ہے، خواہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے۔
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جمعہ صرف نماز پڑھنے والے کے لیے ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔
ان دونوں روایات کے عموم میں تعارض ہے۔
امام بخاری ؒ نے لفظ "هل" سے اسی تعارض کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
پھر اختلاف روایات کی بنا پر اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ یہ غسل نماز جمعہ کے لیے ہے یا یوم جمعہ کے لیے۔
پھر ایک تیسری روایت بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے، گویا الگ الگ تین قسم کے غسل ہیں:
٭ نماز جمعہ کے لیے۔
٭ یوم جمعہ کے لیے۔
٭ غسل نظافت جو ہفتے میں ایک دن کرنا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے:
حدیث ابی ہریرہ کے الفاظ ہیں کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے، یہ حکم مرد وزن، بچوں اور غلاموں الغرض تمام کو شامل ہے لیکن حدیث ابن عمر میں یہ شرط ہے کہ جو آدمی جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جسے جمعہ کے لیے آنا ضروری نہیں اس پر غسل کرنا ضروری نہیں۔
پھر حدیث ابی سعید میں بالغ افراد کی شرط ہے۔
اس سے غیر بالغ افراد پر غسل کا عدم وجوب ثابت ہوا۔
اس تفصیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث کو اس عنوان کے تحت کیوں بیان کیا ہے۔
(2)
حدیث ابی ہریرہ میں ہے کہ ہر مسلمان کو ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔
اس حدیث میں کسی دن کا تعین نہیں ہے، جبکہ سنن نسائی میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ مسلمان کو ہر ہفتے میں جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے، نیز ابوبکر بن ابی شیبہ نے حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ مسلمان کو جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔
امام طحاوی ؒ نے ایک انصاری سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں مطلق طور پر غسل کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد جمعے کا دن ہے۔
(فتح الباري: 492/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 898