وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، قَالَ سَعِيدٌ: فَلَمَّا خَشِيتُ الصُّبْحَ، نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ، ثُمَّ أَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْتُ لَهُ: خَشِيتُ الْفَجْرَ، فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُسْوَةٌ؟ فَقُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ ".
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 112
´قبلے کا بیان`
«. . . 278- وبه: أنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته فى السفر حيثما توجهت به، قال عبد الله بن دينار: وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر، جس طرف بھی اس کا رخ ہوتا تھا (نفل) نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 112]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 37/700، من حديث مالك، والبخاري 1096، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے لیکن فرض نماز جائز نہیں ہے جیسا کہ صحیح بخاری [1097۔ 1099] اور صحیح مسلم [700] وغیرہما کی احادیث سے ثابت ہے۔
➋ نوافل میں سواری پر قبلہ رُخ ہونا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ قبلہ رخ ہو کر نفل شروع کئے جائیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سفر میں اپنے گدھے پر بغیر قبلہ رخ ہوئے نماز پڑھتے تھے، آپ اشارے سے رکوع اور سجدہ کرتے اور اپنے چہرے کو کسی چیز پر نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ 1/151، وسنده صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباعِ سنت میں ہر وقت مستعد اور پیش قدم رہتے تھے۔
➍ جب کشتی چل رہی ہوتی تو سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے اور جب کشتی رُکی ہوتی تو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 3/155، وسنده صحيح]
➎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کَشتی میں نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو اِلا یہ کہ غرق ہونے کا ڈر ہو۔ [المستدرك للحاكم 275/1 ح1019، وصححه على شرط مسلم و قال: وهوشاذ بمرة، ووافقه الذهبي وسنده حسن، محمد بن الحسين بن ابي الحنين ثقه]
کشتی پر قیاس کرتے ہوئے ہوائی جہاز اور ریل گاڑی میں اضطراری حالت میں فرض نماز پڑھنا جائز ہے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے سواری پر وتر پڑھا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ وتر واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 278
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 176
´سواری پر نماز پڑھنا`
«. . . 400- مالك عن عمرو بن يحيى المازني عن أبى الحباب سعيد بن يسار عن ابن عمر أنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو على حمار وهو موجه إلى خيبر. . . .»
”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر بیٹھے خیبر کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 176]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 700/35، دار السلام:1614، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ سواری (چاہے وہ کوئی جانور ہی ہو) نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔
➋ سواری پر نفل نماز پڑھنے کی صورت میں قبلہ رخ ہونا فرض نہیں ہے۔
➌ یحیی بن سعید الانصاری فرماتے ہیں: میں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو سفر میں دیکھا، آپ ایک گدھے پر (بیٹھے) نماز پڑھ رہے تھے، آپ کا رخ قبلے کی طرف نہیں تھا، آپ اشارے سے رکوع اور سجدہ کررہے تھے لیکن اپنا چہرہ کسی چیز نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ 151/1ح 352 و سنده صحيح، م]
➍ گدھے پر سواری کرنا قطعاً معیوب نہیں ہے۔
➎ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع پر دلیل ہے۔
➏ مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے [الموطأ حديث:28، صحيح بخاري: 3468]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 400
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 170
´وتر کا بیان`
«. . . 522- مالك عن أبى بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضى الله عنه عن سعيد بن يسار أنه قال: كنت أسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة، قال سعيد: فلما خشيت الصبح نزلت فأوترت ثم أدركته، فقال لي عبد الله بن عمر: أين كنت؟ فقلت: خشيت الفجر فنزلت فأوترت، فقال: أليس لك فى رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة؟ فقلت: بلى والله؛ قال: فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير. . . .»
”. . . سعید بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکے کے راستے میں سفر کر رہا تھا، پھر جب مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے (سواری سے) اتر کر وتر پڑھا اور انہیں جا ملا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں تھے؟ میں نے کہا: مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے اتر کر وتر پڑھ لیا۔ انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں بہترین نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم! ضرور ہے۔ انہوں نے فرمایا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 170]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 999، ومسلم 36/ 700، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ وتر واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔
➋ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانے میں مستعد رہنا چاہئے۔
➌ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما زبردست متبع سنت اور جلیل القدر صحابی تھے۔
➍ سواری پر نوافل پڑھنے جائز ہیں۔
➎ مخاطب سے سوال کر کے اسے قائل کرنا جائز ہے۔
➐ جانوروں پر سواری کرنا جائز ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جو کہ احادیث کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، حجت اور معیار حق ہے۔
➒ بہتر یہ ہے کہ نماز وتر رات کے آخری پہر پڑھی جائے لیکن وتر فوت ہو جانے کے خوف سے عشاء کے بعد پڑھنا بھی بالکل صحیح اور جائز ہے۔
➓ ہر مسئلہ ہر عالم کو معلوم ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ جلیل القدر ثقہ علماء سے بھی بعض باتیں مخفی رہ سکتی ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 522
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 491
´قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، وہ چاہے جس طرف متوجہ ہو جاتی، نیز آپ اس پر وتر (بھی) پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 491]
491 ۔ اردو حاشیہ:
➊نفل نماز چونکہ ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے، سفر میں بھی حضر میں بھی۔ اگر سفر میں قبلے کا یا نیچے اتر کر پڑھنے کا پابند کیا جاتا تو یہ ہوتاکہ مسافر نفلوں سے محروم رہتا یا سفر نہ کر سکتا، اس لیے نفل نماز میں رعایت رکھی گئی کہ مسافر سفر کے دوران میں سواری پر نماز پڑھ سکتا ہے، خواہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو اور خواہ رکوع اور سجدہ نہ کر سکے، تاہم یہ ضروری ہے کہ آغاز کرتے وقت سواری کا رُخ قبلے کی طرف ہو، بعد میں چاہے جس طرف ہو جائے۔
➋وتر کی نماز سواری پر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وتر فرض یا واجب نہیں بلکہ نفل ہیں۔ احناف وتر کو واجب کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے: [حديث: 462]
➌قبلے کی شرط اس وقت تک ہے جب تک ممکن ہو جب قبلہ رخ ہونا انسان کے بس ہی میں نہ ہو یا بعد میں بدستور قبلہ رخ رہنا محال ہو اور نماز کا وقت بھی جا رہا ہو اور نیچے اترنا ناممکن اور بس میں نہ ہو اور بعد میں اس کی قضا ادا کرنا بھی پریشانی کا باعث ہو تو سواری پر فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر ایسے نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 491
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 492
´قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، اسی سلسلہ میں یہ آیت کریمہ: «فأينما تولوا فثم وجه اللہ» ”تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے“ (البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 492]
492 ۔ اردو حاشیہ:
➊یہ بھی نفل نماز کی بات ہے۔
➋مکہ سے مدینہ آتے ہوئے ظاہر ہے قبلہ پیٹھ کی طرف ہو گا۔
➌اس آیت کی شانِ نزول خاص ہے لیکن حکم عام ہے، یعنی اس جیسے ہر مسئلے میں یہ حکم لاگو ہو گا، مثلاً: قبلے کا پتہ نہ چلے یا غلطی سے قبلے کی بجائے کسی اور طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لی گئی ہو، وغیرہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 492
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 744
´ایسی حالت کا بیان جس میں قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے خواہ وہ کسی بھی طرف متوجہ ہو جاتی۔ مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار کا کہنا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 744]
744 ۔ اردو حاشیہ: لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز کا آغاز کرتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف ہو۔ بعد میں چاہے اس کا رخ کسی طرف بھی ہو جائے۔ دوسری روایت میں اس امر کی صراحت موجود ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 744
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 745
´ایسی حالت کا بیان جس میں قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنا جائز ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نماز پڑھتے خواہ وہ کسی بھی طرف آپ کو لے کر متوجہ ہوتی، وتر بھی اسی پر پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 745]
745 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 491۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 745
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1687
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1687]
1687۔ اردو حاشیہ: سواری پر قیام، رکوع اور سجدہ اصل طریقے پر نہیں ہوتے، لہٰذا فرض نماز سواری پر پڑھنے کی اجازت الایہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مگر نفل نماز میں وسعت ہے، وہ سواری پر پڑھی جا سکتی ہے۔ وتر بھی نفل ہیں، لہٰذا سواری پر پڑھے جاسکتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1687
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1689
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1689]
1689۔ اردو حاشیہ: ثابت ہوا کہ جنازے می بھی قرأت ِ فاتحہ ضروری ہے۔ سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ طریقہ ہے۔ یہاں سنت وجوب کے مقابلے میں نہیں جیسا کہ لفظ ”حق“ سے صاف ظاہر ہے۔ «لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب» (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 394) کا عموم بھی قرأت ِ فاتحہ کو واجب کرتا ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ احناف بلاوجہ قرأت کے مخالف ہیں۔ اس حدیث کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۂ فاتحہ اور دوسری سو رت قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی ہوں گی۔ مگر اس ”ہوں گی“ کی کوئی دلیل بھی تو ہونی چاہیے۔ آخر قرأت ِ فاتحہ سے مانع کیا ہے؟ کیا جنازے کا دعا ہونا قرأت کی ضد ہے؟ عام نمازوں میں بھی قرأت ِ فاتحہ ہوتی ہے، دعائیں بھی، یہ کون سا جمع بین النقیصین ہے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1689
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1226
´سواری پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ کا رخ خیبر کی جانب تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1226]
1226۔ اردو حاشیہ:
گدھا، اس کا گوشت کھانا حرام ہے مگر اس کا جسم، اگر اس پر نجاست نہ لگی ہو تو پاک ہے اور اس پر نماز بھی صحیح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1226
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1200
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا، میں پیچھے ہو گیا، اور نماز وتر ادا کی، انہوں نے پوچھا: تم پیچھے کیوں رہ گئے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں اسوہ حسنہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1200]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز وتر کی ادایئگی کے لئے سواری سے اترنا ضروری نہیں لیکن فرض نماز زمین پر ہی ادا کی جائے۔
(2)
سفر میں وتر پڑھے جاتے ہیں۔
(3)
سفر میں ساتھیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
(4)
اگر کسی ساتھی کی غلطی معلوم ہو تو اسے اچھے طریقے سے صحیح مسئلہ بتا دینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1200
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 472
´سواری پر وتر پڑھنے کا بیان۔`
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 472]
اردو حاشہ:
1؎:
متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے،
اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو نا پسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے،
کبھی کبھی آپ ﷺ سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے،
ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 472
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2958
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب» ”اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں“ (البقرہ: ۱۱۵) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2958]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے،
اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو،
شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
2؎:
اللہ ہی کے لیے مغرب ومشرق ہیں (البقرۃ: 115)
3؎:
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں،
دراصل ان سب پروہ آیت صادق آتی ہے،
یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے،
وغیرہ وغیرہ۔
4؎:
آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں (البقرۃ: 144)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2958
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1612
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے تھے جبکہ آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف آ رہے ہوتے اپنی سواری پر، جدھر بھی اس کا رخ ہوتا اور اس کے بارے میں یہ آیت اتری (تم جدھر بھی منہ کرو، اللہ کی ذات ادھر ہی ہے۔) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1612]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نفلی نماز ہر قسم کی سواری پر پڑھی جا سکتی ہے اس میں ائمہ اربعہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور قرآنی آیت سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ہاں شروع میں اگر سواری کا رخ قبلہ کی طرف ہو سکے تو بہتر ہے بعد میں اس کا رخ چاہے کسی طرف بھی ہو جائے اور آیت مبارکہ:
﴿فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ﴾ کا تعلق سفرمیں نفلی نماز سے ہے کہ انسان سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھ سکتا ہے۔
سواری سے اترنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1612
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1616
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز اپنی سواری پر پڑھتے تھے۔ اس کا رخ جدھر بھی ہوتا۔ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1616]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت میں جہاں مطلق نماز کا تذکرہ ہے اس سے مراد نفلی نماز ہے۔
کیونکہ ان کے بیٹے سالم کی روایت میں تصریح موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سواری پر نہیں پڑھتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1616
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1618
سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نفل اپنی سواری پر پڑھتے ان کا رخ جدھر بھی ہوتا اور وتر بھی اس پر پڑھتے، ہاں اتنی بات ہے آپ ﷺ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1618]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ کے دور میں سواریاں ایسی تھیں کہ انسان جہاں اور جب چاہتا ان سے اتر سکتا تھا۔
اب عام طور پر ایسے واقعات عام ہیں کہ انسان اپنی مرضی سے سواری کو نہیں روک سکتا۔
مثلاً بس۔
ریل گاڑی اور ہوائی جہاز۔
اگر سواری انسان کی ذاتی ہو یا اس کو روکنا ممکن ہو تو نماز فرض سواری سے اتر کر پڑھنی چاہیے۔
لیکن اگر سواری اپنی نہ ہو یا سواری سے نماز کے وقت اترنا ممکن نہ ہو۔
پھر اگر دو نمازوں میں جمع تقدیم یا جمع تاخیر ممکن ہو تو اس پر عمل کر لینا چاہیے۔
لیکن اگر ریل یا ہوائی جہاز کا سفر ہو اور جمع ممکن نہ ہو تو پھر چونکہ ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق کشتی پر نماز جائز ہے،
اس لیے ریل اور ہوائی جہاز میں فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
لیکن قبلہ رخ ہونا ضروری ہے ہاں اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہو گا۔
اگر کھڑے ہونا ممکن ہو تو پھر بیٹھنا جائز نہیں ہے۔
اور اس کے لیے علماء نے سنن ترمذی کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے نماز کا وقت ہو گیا۔
آسمان سےبارش ہو رہی تھی اور زمین پر کیچڑ تھا۔
تو اذان اور اقامت سواری پر کہی گئی اور آپﷺ نے سواری پر ہی امامت کروائی۔
اس وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
کے ایک قول کی رو سے ضرورت اور مجبوری کی بنا پر سواری پر فرض نماز جائز ہے۔
اسی طرح جنگی ضرورت کے تحت سواری پر فرض نماز جائز ہے۔
اس لیے اگر ریل گاڑی یا ہوائی جہاز سے اتر کر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو بحری جہاز کی طرح ان پر بھی نماز پڑھ لی جائے گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1618
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 999
999. حضرت سعید بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں طریق مکہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ سعید کہتے ہیں: جب مجھے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر ادا کیے، پھر ان سے جا ملا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کہاں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا: مجھے صبح کا خدشہ لاحق ہوا تو اتر کر وتر ادا کرنے لگا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں اچھا نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! کیوں نہیں! تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہو کر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:999]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی بہر حال قابل اقتداء اور باعث صدبرکات ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 999
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1105
1105. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سر مبارک کے اشارے سے اپنی سواری پر نوافل پڑھا کرتے تھے، جدھر بھی اس کا منہ ہو جاتا۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1105]
حدیث حاشیہ:
مطلب امام بخاری ؒ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت ﷺ نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔
قال ابن القیم في الھدي وکان من ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في سفرہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنه أنه صلی اللہ علیه وسلم صلی سنة الصلاة قبلھا ولا بعدھا إلا ما کان من سنة الوتر والفجر فإنه لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ۔
(نیل الأوطار)
یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔
آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔
پھر علامہ ابن قیم ؒ نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت ﷺ کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔
وقد سئل الإما م أحمد عن التطوع في السفر فقال أرجو أن لا یکون بالتطوع في السفر بأس۔
یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔
پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔
وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم في الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائه الکاملة۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1105
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:999
999. حضرت سعید بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں طریق مکہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ سعید کہتے ہیں: جب مجھے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر ادا کیے، پھر ان سے جا ملا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کہاں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا: مجھے صبح کا خدشہ لاحق ہوا تو اتر کر وتر ادا کرنے لگا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں اچھا نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! کیوں نہیں! تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہو کر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:999]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے جزم و وثوق سے فیصلہ نہیں کیا کہ وتر واجب ہے یا نہیں، البتہ وتر کو كتاب التهجد اور كتاب التطوع سے الگ بیان کیا ہے۔
یہ اسلوب تقاضا کرتا ہے کہ اس کی حیثیت تہجد اور تطوع سے جداگانہ ہے۔
اگر سواری پر وتر پڑھنے کی حدیث کو پیش نہ کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کا رجحان وجوب وتر کی طرف ہے لیکن انہوں نے مذکورہ عنوان اور اس کے متعلق حدیث پیش کر کے اس احتمال کو ختم کر دیا ہے۔
(فتح الباري: 616/2) (2)
سابقہ احادیث میں بیان ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز وتر کے لیے اپنے اہل خانہ کو بیدار کرتے تھے، نیز آپ نے نماز شب کے آخر میں وتر پڑھنے کا امر صادر فرمایا ہے۔
ان احادیث سے بعض حضرات نے وجوب وتر کا استنباط کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث ابن عمر سے عدم وجوب کو ثابت کیا ہے اور اس پر دو الگ الگ عنوان قائم کر کے بتایا ہے کہ وتر واجب نہیں، البتہ عام نوافل کی حیثیت سے بالاتر ہیں کیونکہ سفر میں ان کے ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لیکن چونکہ سواری پر ادا کیے ہیں، اس لیے واجب نہیں کیونکہ فرائض کو سواری پر ادا کرنا ثابت نہیں۔
اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ سواری پر وتر ادا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر نہیں تھا جیسا کہ قائلین وجوب کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 626/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 999
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1000
1000. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سفر کے دوران میں نماز شب اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے تھے، اس کا جدھر کو بھی منہ ہو جاتا۔ اسی طرح نماز وتر بھی اپنی سواری پر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہ پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1000]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ضحاک ؒ وغیرہ کا موقف ہے کہ دوران سفر میں نماز وتر پڑھنا مشروع نہیں۔
ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام نووی ؒ نے اس موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور دوران سفر میں نماز وتر پڑھنے کی مشروعیت ثابت کی ہے۔
دوران سفر وتر نہ پڑھنے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے کہ اگر مجھے دوران سفر نفل پڑھنے ہوتے تو میں فرض نماز پوری ادا کرتا۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1594 (694)
لیکن اس سے فرض نماز سے پہلے اور بعد والی سنتیں مراد ہیں، وتر مراد نہیں، جس کی وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ سفر کیا، وہ ظہر اور عصر کی صرف دو دو رکعت پڑھتے تھے، ان سے پہلے اور بعد کچھ نہ ادا کرتے تھے۔
اگر میں نے انہیں پڑھنا ہوتا تو فرض نماز ہی پوری ادا کر لیتا۔
(جامع الترمذي، السفر، حدیث: 544، فتح الباري: 630/2) (2)
دراصل اس حدیث سے امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز وتر فرض نہیں۔
اگر فرض ہوتی تو اسے بھی دیگر فرض نمازوں کی طرح سواری پر نہ پڑھا جاتا، کیونکہ سواری پر فرض نماز نہ پڑھنے کی حدیث میں صراحت ہے۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ نماز وتر فرض نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1000
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1095
1095. حضرت نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنی سواری پر نماز پڑھتے اور وتر بھی اسی پر ادا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1095]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نفل نماز سواری پر ادا کر لیتے تھے، اس کے لیے استقبال قبلہ ضروری نہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ رکوع و سجود کے لیے اشارہ کرتے تھے اور فرض نماز کے لیے ایسا نہیں کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1087)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رات کے وقت تہجد کے نوافل سواری پر ادا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1104) (2)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی حدیث کے متعلق امام بخاری ؒ نے تصریح کی ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ انمار کا ہے۔
مدینہ سے ادھر جاتے وقت قبلہ بائیں جانب پڑتا ہے کیونکہ انمار کا مقام مدینہ سے بجانب مشرق واقع ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق بعض روایات میں ہے کہ آپ نماز وتر کے لیے سواری سے اترتے اور انہیں زمین پر ادا کرتے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 351 ومسند أحمد: 4/2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نماز وتر کو دونوں طرح سے ادا کیا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جب آپ عجلت میں ہوتے تو سواری پر وتر پڑھ لیتے اور جب جلدی نہ ہوتی تو زمین پر ادا کرتے۔
(فتح الباري: 741/2)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1095
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1096
1096. حضرت عبداللہ بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ دورانِ سفر میں سواری پر اشارے سے نماز پڑھتے، اس کا منہ جدھر بھی ہو جاتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ذکر کیا کہ نبی ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1096]
حدیث حاشیہ:
سواری پر صرف نفل ادا کیے جا سکتے ہیں۔
رکوع و سجود اشارے سے ادا کیے جائیں گے۔
ابن دقیق العید ؒ نے کہا ہے کہ حدیث میں رکوع اور سجود کے متعلق مطلق طور پر اشارہ کرنے کا ذکر ہے، لیکن فقہاء نے لکھا ہے کہ سجدہ کرتے وقت کچھ زیادہ جھکاؤ کے ساتھ اشارہ کیا جائے تاکہ بدل، اصل کے مطابق ہو، لیکن حدیث میں اس طرح کی کوئی وضاحت نہیں۔
(فتح الباري: 742/2)
ابن دقیق العید ؒ کی یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ امام ترمذی نے حضرت جابر ؓ سے اس کی صراحت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سواری پر نماز پڑھتے تو سجدہ کرتے وقت کچھ زیادہ جھکتے۔
(جامع الترمذي، الصلاه، حدیث: 351)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1096
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1105
1105. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سر مبارک کے اشارے سے اپنی سواری پر نوافل پڑھا کرتے تھے، جدھر بھی اس کا منہ ہو جاتا۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1105]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے واضح کیا ہے کہ دوران سفر فرض نماز کے بعد سنن راتبہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
احادیث پیش کرنے سے مقصود اس قسم کے نوافل کی مختلف انواع بیان کرنا ہے، چنانچہ پہلی معلق روایت میں نماز سے پہلے سنت فجر پڑھنا ذکر کیا گیا ہے۔
دوسری حدیث میں ان نوافل کا بیان ہے جن کی ادائیگی کے لیے مخصوص وقت ہے جیسا کہ صلاۃ ضحیٰ۔
تیسری حدیث میں نماز تہجد اور چوتھی میں مطلق نوافل کا بیان ہے۔
آخری حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کے بعد حضرت ابن عمر ؓ کا معمول بیان کیا ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ دوران سفر میں نوافل پڑھنے مشروع ہیں ان کا نسخ یا معارض ثابت نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔
(فتح الباري: 738/2) (3)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا عمل متصل سند کے ساتھ امام بخاری ؒ نے پہلے بیان کیا ہے کہ آپ دوران سفر میں اپنی سواری پر نماز تہجد پڑھتے تھے۔
سواری کا جس طرف بھی منہ ہو جاتا اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1098)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1105