صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
44. باب صَلاَةُ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى:
باب: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہدایت کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔
حدیث نمبر: 1488
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، عَنْ أَبِي الْعُمَيْسِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " مَنْ سَرَّهُ، أَنْ يَلْقَى اللَّهَ غَدًا مُسْلِمًا، فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ، حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سُنَنَ الْهُدَى، وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى، وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ، لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ، وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ، لَضَلَلْتُمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى مَسْجِدٍ مِنْ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خَطْوَةٍ يَخْطُوهَا حَسَنَةً، وَيَرْفَعُهُ بِهَا دَرَجَةً، وَيَحُطُّ عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةً، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا، إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُؤْتَى بِهِ، يُهَادَى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، حَتَّى يُقَامَ فِي الصَّفِّ ".
علی بن اقمر نے ابو احوص سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: جو یہ چاہے کہ کل (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ سے مسلمان کی حیثیت سے ملے تو وہ جہاں سے ان (نمازوں) کے لیئے بلایا جائے، ان نمازوں کی حفاظت کرے (وہاں مساجد میں جا کر صحیح طرح سے انھیں ادا کرے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ليئے ہدایت کے طریقے مقرر فرما دیے ہیں اور یہ (مساجد میں باجماعت نماز یں) بھی انھی طریقوں میں سے ہیں۔ کیونکہ اگر تم نمازیں اپنے گھروں میں پڑھو گے، جیسے یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا، اپنے گھر میں پڑھتا ہےتو تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی کی راہ کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ کوئی آدمی جو پاکیز گی حاصل کرتا ہے (وضوکرتا ہے) اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کا رخ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے، جو وہ اٹھاتا ہے، ایک نیکی لکھتا ہے، اور اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور اس کا ایک گناہ کم کر دیتا ہے، اور میں نے دیکھا کہ ہم میں سے کوئی (بھی) جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا، سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا (بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ) ایک آدمی کو اس طرح لایا جاتا کہ اسے دو آ دمیوں کے درمیان سہارا دیا گیا ہوتا، حتی کہ صف میں لاکھڑا کیا جاتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: جس انسان کو یہ بات پسند ہو کہ کل قیامت کے دن، اس کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات مسلمان ہونے کی صورت میں ہو، وہ ان نمازوں کی پابندی (اہتمام) ان جگہوں میں کرے جہاں ان کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یعنی نماز باجماعت ادا کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے مقرر کر دیئے ہیں اور نمازوں کا اہتمام ہدایت کے طریقوں میں سے ہے، یعنی ہدایت کی راہ کا عمل یہی ہے اور اگر تم نماز گھروں میں پڑھو گے جیساکہ یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی کی راہ کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ جو آدمی بھی پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کا رخ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور میں نے اپنے ساتھیوں کو پایا کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا، سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق سب کو معلوم تھا۔ ایک آدمی کو دو آدمیوں کے سہارے لا کر صف میں کھڑا کیا جاتا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1488 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1488
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد زریں میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جماعت کا اہتمام کرتے تھے کوئی بھی صحیح مسلمان جماعت سے پیچھے رہنے کا تصور نہیں کرتا تھا حتی کہ بیمار ہونے کی صورت میں اگر انسان دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد پہنچ سکتا تھا تو وہ اس کا بھی انتظام کرتے تھے اور بیماری کو بہانہ بنا کر شدت میں بھی جماعت سے پیچھے نہیں رہتے تھے صرف ایسے لوگ ہی پیچھے رہتے تھے جن کا نفاق معروف و مشہور تھا یا وہ ایسے بیمار ہوتے کہ دو آدمیوں کے سہارے پر چل کر بھی نہیں آ سکتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نابینا ہونے کے باوجود جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
(بقول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت کا اہتمام کرنا مسلمان کی علامت و شناخت ہے)
اور ہدایت کا راستہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل ہے جماعت کو نظر انداز کرنا ہدایت اور نبی کے راستہ کو چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔
(3)
جماعت کی حاضری کی خاطر مسجد میں جانے والے کو ہر قدم کے بدلہ میں ایک نیکی ملتی ہے ایک برائی مٹتی ہے اور اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور جماعت سے پیچھے رہنے والا ان تینوں خیرات و برکات سے محروم رہتا ہے۔
(4)
جماعت سے پیچھے رہنا منافق کی علامت ہے اور ہر ایک مسلمان کو ہر حالت میں اس دھبہ سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر ایک نابینے آدمی کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے تو آنکھوں والا کس طرح گھر میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1488
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 550
´جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تم لوگ ان پانچوں نمازوں کی پابندی کرو جہاں ان کی اذان دی جائے، کیونکہ یہ ہدایت کی راہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے اور راستے مقرر کر دئیے ہیں، اور ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ نماز باجماعت سے وہی غیر حاضر رہتا تھا جو کھلا ہوا منافق ہوتا تھا، اور ہم یہ بھی دیکھتے تھے کہ آدمی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا، یہاں تک کہ اس آدمی کو صف میں لا کر کھڑا کر دیا جاتا تھا، تم میں سے ایسا کوئی شخص نہیں ہے، جس کی مسجد اس کے گھر میں نہ ہو، لیکن اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہے اور مسجدوں میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا، تو تم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ترک کر دیا اور اگر تم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ترک کر دیا تو کافروں جیسا کام کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 550]
550۔ اردو حاشیہ:
➊ جماعت سے پیچھے رہنا منافقین کی علامات سے بتایا گیا ہے اور یہ اس کے کبیرہ گناہ ہونے سے بھی بڑھ کر ہے۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے اعراض کا نتیجہ بالآخر کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ «أعاذنا الله منه»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 550