صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
27. باب مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ:
باب: تکبیر تحریمہ اور قرأت کے بیچ کی دعاؤں کا بیان۔
حدیث نمبر: 1357
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، وَثَابِتٌ ، وَحُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا، جَاءَ فَدَخَلَ الصَّفَّ، وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، فَقَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ، حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا، مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِالْكَلِمَاتِ، فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِهَا، فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا، فَقَالَ رَجُلٌ: جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِي النَّفَسُ، فَقُلْتُهَا. فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا، أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور صف میں شریک ہوا جبکہ اس کی سانس چڑھی ہوئی تھی، اس نے کہا: الحمد اللہ حمد کثیر طیبا مبارکا فیہ ” تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے، حمد بہت زیادہ، پاک اور برکت والی حمد۔“ جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز پوری کرلی تو آپ نے پوچھا ”تم میں سے یہ کلمات کہنے والا کون تھا؟“ سب لوگوں نے ہونٹ بند رکھے۔ آپ نے دوبارہ پوچھا ”تم میں یہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ اس نے کوئی ممنوع بات نہیں کہی۔“ تب ایک شخص نے کہا: میں اس حالت میں آیا کہ میری سانس پھولی ہوئی تھی تو میں نے اس عالم میں یہ کلمات کہے۔ آپ نے فرمایا: میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جو (اس میں) ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون اسے اوپر لے جاتا ہے۔“
مجھے زہیر بن حرب نے عفان کے واسطہ سے حماد کی قتادہ، ثابت اور حمید سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت سنائی ہے کہ ایک آدمی آیا اور صف میں اس حالت میں شریک ہوا کہ اس کا سانس پھول رہا تھا اور اس نے پڑھا اَلحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْداً، یعنی اللہ ہی بہت زیادہ پاک اور برکت والی تعریف و ثنا کا حقدار ہے تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے؟ اس پر سب لوگ خاموش رہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا، تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے؟ اس نے کوئی بری بات نہیں کہی۔ تو ایک شخص نے کہا، میں اس حال میں آیا کہ میرا سانس پھول رہا تھا تو میں نے یہ کلمات کہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا، جو ان کلمات کو اوپر لے جانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے، قَدْ حَفَزَهُ النَّفْسُ: اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اَرَمَّ الْقَوْمُ: لوگ چپ رہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1357 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1357
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں جو اذکار منقول ہیں،
ان کے علاوہ ذکر کرنا بھی جائز ہے۔
بشرط یہ کہ وہ منقول کے خلاف نہ ہو،
اس پر علامہ سعیدی لکھتے ہیں۔
یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ذکر آپﷺ کے سامنے کیا گیا اور آپﷺ نے اس کو مقرراور جائز رکھا اس لیے اس کا جواز آپﷺ کی تقریر اور تشریح سے معلوم ہوا اب جب کہ وحی منقطع ہو چکی ہے۔
کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نماز یا کسی معین عبادت میں اپنی طرف سےذکر اذکار کا اضافہ کرے حتیٰ کہ ہمارے فقہاء نے کہا ہے اگر پہلے تشہد کے بعد کسی شخص نے۔
(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ)
سہواً یا عمداً پڑھ دیا تو اس پر سجدہ سہو لازم آئے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں بعد کے لوگوں کو کسی اضافہ کا حق نہیں ہے۔
(شرح مسلم: 2/ 212)
سوال یہ ہے کہ جب یہ بات طے ہے کہ وحی منقطع ہو گئی ہے اور شریعت تمام ہو چکی ہے اور شریعت میں بعد کے لوگوں کو کسی اضافہ کا حق حاصل نہیں ہے تو پھر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم درود شریف کے نئے نئے صیغے اور ایصال ثواب کے لیے انواع واقسام کی نفلی عبادات کا بغیر شرعی تعین کے تعین کرنا کیا یہ اضافہ نہیں ہے؟ یہ تمام امور مستحسن کیسے ہو گئے؟ پہلے تشہد میں درود کی گنجائش موجود ہے۔
بلکہ بعض ائمہ تو اس کو لازم قرار دیتے ہیں،
اس پر سجدہ سہو ڈال دیا گیا ہے۔
اسی طرح نمازی کو اگر چھینک آ جائے تو وہ زبان سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ سکتا ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت کی رو سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی تو کیا ان کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان امور کو مستحسن قرار دیا جا سکتا ہے جو ان کے مقلدوں نے ان کے بعد نکال لیے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1357
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 763
´نماز کے شروع میں کون سی دعا پڑھی جائے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نماز کے لیے آیا، اس کی سانس پھول رہی تھی، تو اس نے یہ دعا پڑھی: «الله أكبر الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» ”اللہ سب سے بڑا ہے، تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں، اور ہم خوب خوب اس کی پاکیزہ و بابرکت تعریفیں بیان کرتے ہیں“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے ہیں؟ اس نے کوئی قابل حرج بات نہیں کہی“، تب اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے (کہا ہے)، جب میں جماعت میں حاضر ہوا تو میرے سانس پھول گئے تھے، اس حالت میں میں نے یہ کلمات کہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے سبھی جلدی کر رہے تھے کہ ان کلمات کو کون پہلے اٹھا لے جائے۔“ حمید نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: ”جب تم میں سے کوئی آئے تو (اطمینان و سکون سے) اس طرح چل کر آئے جیسے وہ عام چال چلتا ہے پھر جتنی رکعتیں ملیں انہیں پڑھ لے اور جو چھوٹ جائیں انہیں پورا کر لے۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 763]
763۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ کلمات طیبات ازحد مبارک ہیں اور انہیں بطور ثنا پڑھنا مستحب ہے۔
➋ ظاہر ہے کہ اس صحابی نے یہ کلمات اونچی آواز سے کہے تھے مگر ہمارے لیے انہیں اونچی آواز سے پڑھنا سنت نہیں ہو گا ورنہ دوسرے نمازیوں کے لیے تشویش ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 763
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 902
´تکبیر تحریمہ کے بعد کی ایک اور دعا کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا، اور مسجد میں داخل ہوا اس کی سانس پھول گئی تھی، تو اس نے «اللہ أكبر الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» ”اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں ایسی تعریف جو پاکیزہ بابرکت ہو“ کہا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو پوچھا: ”یہ کلمے کس نے کہے تھے؟“ لوگ خاموش رہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے کوئی قابل حرج بات نہیں کہی“، تو اس شخص نے کہا: میں نے اے اللہ کے رسول! میں آیا اور میری سانس پھول رہی تھی تو میں نے یہ کلمات کہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا سب جھپٹ رہے تھے کہ اسے کون اوپر لے جائے۔“ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 902]
902 ۔ اردو حاشیہ:
➊ سانس کا پھولنا دلیل ہے کہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ نماز کی طرف کافی تیز تیز آئے تھے۔ گویا بھاگنے سے کم کم تیزی جائز ہے، البتہ سنجیدگی اور وقار قائم رہے۔
➋ سانس پھولنے کی وجہ سے وہ اپنی آواز پر ق ابونہ رکھ سکے، اس لیے آواز اونچی ہو گئی جو دوسروں کو سنائی دی۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باہمی تعلق انتہائی مشفقانہ تھا اور آپ ہر اچھے موقع پر اپنے صحابہ کی دلجوئی کرتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 902