صحيح ابن خزيمه
جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ
جس عذر کی بنا پر نماز باجماعت ترک کرنا جائز ہے ، ان ابواب کا مجموعہ
1098. (147) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الْعُمْيَانِ الْجَمَاعَةَ فِي الْأَمْطَارِ، وَالسُّيُولِ.
نابینا افراد کو بارشوں اور سیلابوں میں نماز با جماعت ترک کرنے کی رخصت ہے
حدیث نمبر: 1653
نا مُحَمَّدُ بْنُ عَزِيزٍ الأَيْلِيُّ ، أَنَّ سَلامَةَ ، حَدَّثَهُمْ، عَنْ عُقَيْلٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنِّي أُصَلِّي بِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ، سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، فَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ" أَنَّكَ تَأْتِي، فَتُصَلِّي فِي بَيْتِي أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ". قَالَ عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟" قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةِ الْبَيْتِ. فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَأَجْلَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ لَهُ، قَالَ: فَثَابَ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ حَوْلَنَا حَتَّى اجْتَمَعَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ ذَوُو عَدَدٍ، فَقَالَ:" أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخَيْشِنِ؟" فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ لا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لا تَقُلْ لَهُ ذَلِكَ، أَلا تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟". قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، إِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ" . قَالَ مُحَمَّدٌ يَعْنِي الزُّهْرِيَّ فَسَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيَّ وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ فَصَدَّقَهُ
جناب محمود بن ربیع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور جنگ بدر میں شرکت کا شرف حاصل کرنے والے انصار میں سے ایک ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں- پس جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو میرے اور اُن کے درمیان وقع وادی بہنے لگتی ہے۔ تو اُن کی مسجد میں جاکر اُنہیں نماز نہیں پڑھا سکتا۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا کریں تا کہ میں اُس جگہ کو اپنی نماز گاہ بنا لوں - تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عنقریب (تمھاری یہ خواہش پوری) کروں گا - ان شاء اللہ۔ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، تو دوسرے دن سورج چڑھنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی (آپ کو خوش آمدید کہا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے بغیر گھر میں داخل ہوئے پھر پوچھا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟“ کہتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ لہٰذا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (اُس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر صف بنالی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کر کے سلام پھیرا۔ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے لئے خزیر (گوشت اور آٹے سے تیار کردہ خاص قسم کا کھانا) کے لئے آپ کو بٹھا لیا، فرماتے ہیں کہ (اس درمیان) محلّے کے لوگ مسلسل آتے رہے حتّیٰ کہ ہمارے گھر میں لوگوں کی کافی تعداد جمع ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”مالک بن دخیشن کہاں ہے؟“ ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ تو منافق آدمی ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کر تا (اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر حاضر نہیں ہوا)۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس کے بارے میں ایسا مت کہو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ اللہ کی رضا کے لئے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کر تا ہے؟ تو اُس شخص نے کہا کہ اللہ اور اُس کا رسول ہی بہترجانتے ہیں۔ ہم تو اس کی تعلق داری اور سچی دوستی و محبت منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آگ پر اُس شخص کو حرام کر دیا جو خالص اللہ کی رضا کے لئے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کرتا ہے - امام محمد زہری رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے حصین بن محمد انصاری سے، جو کہ بنی سالم کے ایک سردار ہیں، حضرت محمود بن ربیع کی حدیث کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے ان کی تصدیق کی۔“
تخریج الحدیث: صحيح بخاري