صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ قِيَامِ الْمَأْمُومِينَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَمَا فِيهِ مِنَ السُّنَنِ
مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
1045. (94) بَابُ السُّنَّةِ فِي جَهْرِ الْإِمَامِ بِالْقِرَاءَةِ، وَاسْتِحْبَابِ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ جَهْرًا بَيْنَ الْمُخَافَتَةِ، وَبَيْنَ الْجَهْرِ الرَّفِيعِ.
امام کے جہری قراءت کرنے میں سنّت کا بیان۔ بہت زیادہ بلند آواز اور بالکل پست آواز کے درمیان آواز سے قراءت کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1587
نا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 قَالَ:" نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ جَهَرَ بِالْقُرْآنِ"، وَقَالَ الدَّوْرَقِيُّ:" رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ"، وَقَالا:" فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوا، سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّونَ الْقُرْآنَ. وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلا يَسْمَعُونَ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110" . قَالَ الدَّوْرَقِيُّ:" عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلا تُسْمِعُهُمْ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ الإِيمَانِ أَنَّ الاسْمَ قَدْ يَقَعُ عَلَى بَعْضِ أَجْزَاءِ الشَّيْءِ ذِي الأَجْزَاءِ وَالشُّعَبِ، قَدْ أَوْقَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ اسْمَ الصَّلاةِ عَلَى الْقِرَاءَةِ فِيهَا فَقَطْ، وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110، أَرَادَ الْقِرَاءَةَ فِيهَا، وَلَيْسَ الصَّلاةَ كُلَّهَا، الْقِرَاءَةُ فِيهَا فَقَطْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرماتے ہیں «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» [ سورة الإسراء: 110 ] ”اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بالکل پست آواز سے۔“ یہ آیت مبارکہ اُس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں چھپے ہوئے تھے - آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن مجید پڑھتے۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے وقت اپنی آواز بلند کرتے۔ لہٰذا جب مشرکین قرآن کی تلاوت سنتے تو قرآن مجید کو گالیاں دیتے، اس کے نازل کرنے والے اور اُسے لانے والے کو سب و شتم کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حُکم دیا «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» ” اپنی قراءت کو بلند آواز سے نہ کریں۔“ کہ مشرکین اسے سن کو قرآن مجید کو گالیاں دیں «وَلَا تُخَافِتْ بِهَا» اور نہ اتنی پست آواز میں قراءت کریں کہ آپ کے صحابہ کرام سن نہ سکیں۔ «وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا» اور ان دونوں کے درمیانی راہ اختیار کریں۔ جناب الدورقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے اتنی پست آواز نہ رکھیں کہ آپ اُنہیں قرأت سنا نہ سکیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس جنس کے متعلق ہے جس کے بارے میں کتاب الایمان میں بیان کرچکا ہوں کہ کبھی اسم کا اطلاق مختلف اجزاء اور شاخوں والی چیز کے کسی ایک جزء یا شاخ پر بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے، اس روایت میں، نماز کا اطلاق صرف قراءت پر کیا ہے «وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ» ”اپنی قراءت کو بلند نہ کریں۔“ اس میں صلاۃ سے مراد صرف قراءت ہے پوری نماز مراد نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري