صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
23. باب الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ:
باب: نماز کے بعد کیا پڑھنا چاہئے۔
حدیث نمبر: 1316
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: أَخْبَرَنِي بِذَا أَبُو مَعْبَدٍ ، ثُمَّ أَنْكَرَهُ بَعْدُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كُنَّا نَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ ".
زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے ابو معبد نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس بات کی خبر دی، بعد میں (بھول جانے کی وجہ سے) اس سے انکار کر دیا، انھوں (ابن عباس رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر سے چلتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام یا نماز کی تکمیل، اَللہُ اَکْبَر کہنے سے پہچانتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1316 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1316
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابومعبد نے بعد میں اس حدیث کے سنانے سے انکار کر دیا تھا کہ میں نے تمھیں یہ روایت نہیں سنائی لیکن محدثین کے نزدیک اگر کوئی راوی اپنی روایت کا انکار کرے اور اس سے نقل کرنے والا قابل اعتماد اور ثقہ ہو تو وہ قابل قبول ہے اس لیے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے انکار نقل کرنے کے باوجود روایت بیان کر دی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1316
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1336
´امام کے سلام پھیرنے کے بعد تکبیر کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ختم ہونے کو تکبیر کے ذریعہ جانتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1336]
1336۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز سے فراغت کے بعد ذکر مسنون ہے۔ اس کی ابتدا اللہ أکبر سے کی جائے۔ آواز درمیانی ہو، نہ بہت بلند ہو اور نہ بالکل آہستہ تاکہ سب مقتدیوں کی آواز مل کر ایک گونج سی پیدا ہو جائے باقی ذکر آہستہ کیا جائے۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نابالغ ہونے کی وجہ سے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے، اس لیے ان تک سلام کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔ سلام کے بعد جب تکبیر کی آوازگونجتی تو انہیں نماز کے ختم ہونے کا پتہ چلتا۔ ممکن ہے تکبیر بلند آواز سے کہنے میں یہ حکمت بھی ہو کہ لوگوں کو نماز ختم ہونے کا پتہ چل جائے، جیسے نماز میں تکبیرات انتقال بلند آواز سے کہی جاتی ہیں، اذان بلند آواز سے کہی جاتی ہے وغیرہ، لہٰذا یہ بات کمزور ہے کہ ذکر میں اخفا مناسب ہے، اس لیے سلام کے بعد تکبیر آہستہ کہی جائے جیسا کہ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1336
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:486
486- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر کے ذریعے چلتا تھا۔ عمرو بن دینار نامی راوی یہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد ابومعمر کے سامنے یہ روایت ذکر کی، تو انہوں نے ا کا انکار کردیا اور بولے: میں نے تو یہ حدیث تمہیں نہیں سنائی ہے، میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ اس سے قبل یہ حدیث مجھے سنا چکے ہیں۔ سفیان کہتے ہیں: گویا انہیں اپنی ذات کے حوالے سے اندیشہ تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:486]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا چاہیے، لیکن آج کل بعض لوگوں نے سنت کو چھوڑ کر بدعت کو اختیار کر لیا ہے کہ اللہ اکبر کو چھوڑ کر سلام کے بعد «لا اله الا الله» کا ورد سب مل کر بلند آواز سے کرتے ہیں یا اللہ ھو اللہ ھو کی ضربیں لگانا شروع کر دیتے ہیں یہ قطعی طور پر غیر شرعی کام ہیں، نماز کے مکمل ہونے کے بعد اونچی آواز میں اللہ اکبر کہنا مسنون ہے۔ شیخ ابوعمر عبدالعزیز نورستانی حفطہ اللہ نے اس مسئلہ پرمستقل رسالہ لکھا ہے جو لائق مطالعہ ہے۔ انظر [سلسلة مجموع الرسائل الشيخ نورستاني صفحہ: 400 تا 426]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 486
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:842
842. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نبی ﷺ کی نماز کا تمام ہونا اللہ أکبر کی آواز سے پہچان لیتا تھا۔ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے بیان کیا، وہ عمرو سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ابن عباس کے غلاموں میں سب سے سچا ابومعبد تھا (جس نے اس حدیث کو حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے) علی بن مدینی نے کہا کہ اس کا نام نافذ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:842]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدیث سابق میں بآواز بلند ذکر کرنے سے مراد اللہ أکبر کہنا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ فرض نماز کا سلام پھیر کر بآواز بلند اللہ أکبر کہتے تھے۔
اس سے ثابت ہوا کہ امام اور مقتدیوں کو نماز سے فارغ ہوتے ہی بلند آواز سے ایک بار "اللہ أکبر" کہنا چاہیے۔
نماز سے فراغت کے بعد دیگر اذکار پڑھنے کا ثبوت بھی احادیث سے ملتا ہے، چنانچہ حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز ختم کرتے تو تین بار أستغفرالله کہتے اور اس کے بعد یہ کلمات کہتے:
اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذالجلال والإكرام ”اے اللہ! تو سراپا سلام ہے۔
تیری ہی طرف سے سلامتی ہے۔
اے عظمت و جلال والے! تو بڑا ہی بابرکت ہے۔
“ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1334(591) (2)
حدیث کے آخر میں حضرت ابن عباس ؓ کے غلام ابو معبد نافذ کا تذکرہ ہے جس کے متعلق راوئ حدیث عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابو معبد سے اس حدیث کا تذکرہ کیا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے تجھے یہ حدیث بیان نہیں کی۔
امام شافعی نے فرمایا ہے کہ شاید وہ بیان کے بعد بھول گئے ہوں، بہرحال حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(فتح الباري: 421/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 842