Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
20. باب سُجُودِ التِّلاَوَةِ:
باب: سجدہ تلاوت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1298
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرُونَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ، عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ، فَقَالَ: " لَا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ، وَزَعَمَ، أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ ".
عطاء بن یسار نے (اپنے شاگرد ابن قسیط کو) بتایا کہ انھوں نے امام کے ساتھ (قرآن کی کسی سورت کی) قراءت کرنے کے بارے میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا؟ انھوں نے کہا: امام کے ساتھ (فاتحہ کے سوا) کچھ نہ پڑھے اور کہا: انھوں (زید رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (والنجم اذا ھویٰ) پڑھی تو آپ نے سجدہ نہ کیا۔
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا، امام کے ساتھ کچھ نہ پڑھے۔ اور کہا، اس (زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ﷜﴿وَالنَّجْمِ اِذَا ھََََََََویٰ﴾ پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ نہ کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1298 کے فوائد و مسائل
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1298  
فقہ الحدیث
یعنی امام کے ساتھ کسی نماز میں بھی جہری قرأت نہیں کرنی چاہئیے، بلکہ خفیہ آواز کے ساتھ سراً دل میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئیے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث/صفحہ نمبر: 19   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1298  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ فاتحہ سے زائد قراءت کا انکار کر رہے ہیں،
کیونکہ اگر ان کا مقصد ہر قسم کی قراءت مراد ہو یعنی فاتحہ ہو یا اس کے سوا تو پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کے منافی ہو گی۔
اس لیے صحیح احادیث کے مقابلے میں ان کا قول نظر انداز کر دیا جائے گا۔

سجدہ تلاوت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک سنت ہے،
اس لیے آپﷺ نے بعض دفعہ سجدہ تلاوت نہیں کیا،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ واجب ہے فرض نہیں ہے اور احناف کی طرف سے جو دلائل دئیے جاتے ہیں ان سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔
﴿فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا﴾ سے جو وجوب ثابت کیا جاتا ہے وہ بھی صحیح نہیں کیونکہ اس کے مخاطب مسلمان نہیں ہیں۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ احناف نماز میں رکوع کو ہی (اگر تین آیات کی تلاوت کے بعد کر دیا جائے)
سجدہ تلاوت کی جگہ کافی سمجھتے ہیں اور اگر نماز میں سجدہ تلاوت ادا کرنے سے رہ جائے تو ساقط قرار دیتے ہیں۔
(شرح صحیح مسلم: 2/ 154)
کیا جو چیز واجب ہے وہ رہ جائے تو ساقط ہو جاتی ہے۔
احناف کے نزدیک واجب کا درجہ فرض سے کم ہے،
وہ فرض اور واجب میں فرق کرتے ہیں،
باقی ائمہ کے نزدیک فرض واجب میں کوئی فرق نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1298   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1404  
´مفصل میں سجدہ نہ ہونے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ النجم پڑھ کر سنائی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1404]
1404. اردو حاشیہ: سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ اس لئے چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ مگر اس سے تسائل اور غفلت کو اپنی عادت بنا لینا کسی طرح درست نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1404   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 273  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو سورۃ «النجم» کی قرآت کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ تلاوت نہیں کیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 273»
تخریج:
«أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب من قرأ السجدة ولم يسجد، حديث:1072، ومسلم، المساجد، باب سجود التلاوة، حديث:577.»
تشریح:
1. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۂ نجم میں سجدہ نہ کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ اس سورت کا سجدہ مشروع نہیں۔
یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ اس میں کبھی تو آپ نے سجدہ کیا جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث گزر چکی ہے اور کبھی آپ نے چھوڑ دیا۔
2. یہ حدیث سجود تلاوت کے سنت ہونے کی دلیل ہے‘ اگر یہ واجب ہوتے تو پھر آپ کبھی نہ چھوڑتے۔
کبھی کر لینا اور کبھی نہ کرنا ہی اس کے سنت ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
جمہور کا مسلک ہی صحیح ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسعید یا ابو خارجہ ان کی کنیت ہے۔
انصار کے مشہور قبیلہ نجار سے تعلق رکھتے تھے۔
وحی کی سب سے زیادہ کتابت یہی کیا کرتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے فرائض‘ یعنی علم میراث کے بڑے ماہر تھے۔
خندق کا معرکہ وہ پہلا معرکہ ہے جس میں یہ شریک ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جمع قرآن کی خدمت انھی نے انجام دی تھی اور عہد خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں اس کی نقول بھی آپ ہی نے تیار کی تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کی تعمیل میں یہود کا رسم الخط صرف پندرہ دن میں سیکھ لیا تھا اور آپ کے خطوط تحریر کرتے اور اس کے بعد آپ کو پڑھ کر سنا دیا کرتے تھے۔
۴۵ ہجری میں مدینہ میں وفات پائی۔
کچھ اور بھی اقوال ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 273   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1072  
1072. حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے (سجدہ تلاوت کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے سامنے سورہ نجم پڑھی تھی لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1072]
حدیث حاشیہ:
آپ کے اس وقت سجدہ نہ کرنے کی کئی وجوہ ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اوترک حینئذ لبیان الجواز وھذا رجح الاحتمالات وبہ جزم الشافعی (فتح)
یعنی آپ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ اس کا ترک بھی جائز ہے اسی تاویل کو ترجیح حاصل ہے امام شافعی کا یہی خیال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1072   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1073  
1073. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ نبی ﷺ کے حضور سورہ نجم تلاوت کی تھی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1073]
حدیث حاشیہ:
اس باب سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کچھ واجب نہیں ہے بعضوں نے کہا کہ اس کا رد مقصود ہے جو کہتا ہے کہ مفصل سورتوں میں سجدہ نہیں ہے کیونکہ سجدہ کرنا فوراً واجب نہیں تو سجدہ ترک کرنے سے یہ نہیں نکلتا کہ سورۃ والنجم میں سجدہ نہیں ہے۔
جو لوگ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں وہ بھی فوراً سجدہ کرنا ضروری نہیں جانتے۔
ممکن ہے آپ نے بعد کو سجدہ کر لیاہو۔
بزاد اور دارقطنی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے نکالا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سجدہ والنجم میں سجدہ کیااور ہم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1073   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1073  
1073. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ نبی ﷺ کے حضور سورہ نجم تلاوت کی تھی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1073]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ مفصل کی سورتوں میں کوئی سجدہ نہیں بلکہ امام ثور نے کہا ہے کہ سورۂ نجم میں بھی سجدہ نہیں ہے۔
یہ حضرات دلیل کے طور پر حضرت زید بن ثابت ؓ کی مذکورہ روایت پیش کرتے ہیں۔
امام بخاری ؓ نے اس عنوان اور احادیث سے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے اور ثابت کیا ہے کہ سورۂ نجم میں سجدہ ہے، جیسا کہ سابقہ احادیث میں ہے، البتہ مذکورہ حدیث میں ترک سجدہ کی متعدد وجوہات ممکن ہیں، مثلاً:
٭ آپ اس وقت بحالت وضو نہ ہوں۔
٭ وہ کراہت کا وقت ہو جب اسے تلاوت کیا گیا۔
٭ راجح احتمال یہ ہے کہ بیان جواز کے لیے ایسا کیا گیا، یعنی اس کا ترک بھی جائز ہے۔
(2)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے کبھی مفصل کی سورتوں میں سجدہ نہیں کیا۔
اس روایت کو اہل علم محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 718/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1073