صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ
ان اوقات کے ابواب کا مجموعہ جن میں نفل نماز پڑھنا منع ہے
808. (575) بَابُ النَّهْيِ عَنِ التَّطَوُّعِ نِصْفَ النَّهَارِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ
دوپہر کے وقت نفل نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان حتیٰ کہ سورج ڈھل جائے
حدیث نمبر: 1275
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، وَأَخْبَرَنَا ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ ، أَنَّ ابْنَ وَهْبٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِنْ سَاعَاتِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سَاعَةٌ تَأْمُرُنِي أَنْ لا أُصَلِّيَ فِيهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ" وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ:" حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنِي الشَّيْطَانِ، ثُمَّ الصَّلاةُ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يَنْتَصِفَ النَّهَارُ، فَإِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، إِنَّهُ حِينَئِذٍ تُسَعَّرُ جَهَنَّمُ، وَشِدَّةُ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ فَالصَّلاةُ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يُصَلَّى الْعَصْرُ فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ" قَالَ يُونُسُ: قَالَ: صَلَوَاتٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ:" ثُمَّ الصَّلاةُ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يُصَلَّى الصُّبْحُ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَوْ جَازَ الاحْتِجَاجُ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ كَمَا يَزْعُمُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ الدَّلِيلُ عَلَى الْمَنْصُوصِ لَجَازَ أَنْ يُحْتَجَّ بِأَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِبَاحَةُ الصَّلاةِ عِنْدَ بُرُوزِ حَاجِبِ الشَّمْسِ قَبْلَ أَنْ تَرْتَفِعَ، وَبِإِبَاحَةِ الصَّلاةِ إِذَا اسْتَوَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ تَزُولَ، وَلَكِنْ غَيْرُ جَائِزٍ عِنْدَ مَنْ يَفْهَمُ الْفِقْهَ، وَيَدَّبَّرُ أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلا يُعَانِدُ الاحْتِجَاجَ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ، وَلا بِمَا يَزْعُمُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ الدَّلِيلُ عَلَى الْمَنْصُوصِ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَذْهَبِ مَنْ خَالَفَنَا فِي هَذَا الْجِنْسِ:" لا صَلاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ" دَالٌ عِنْدَهُ عَلَى أَنَّ الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ فَالصَّلاةُ جَائِزَةٌ، وَزَعَمَ أَنَّ هَذَا هُوَ الدَّلِيلُ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ، وَمَذْهَبُنَا خِلافُ هَذَا الأَصْلِ، نَحْنُ نَقُولُ: إِنَّ النَّصَّ أَكْثَرَ مِنَ الدَّلِيلِ، وَجَائِزٌ أَنْ يُنْهَى عَنِ الْفِعْلِ إِلَى وَقْتٍ وَغَايَةٍ، وَقَدْ لا يَكُونُ فِي النَّهْيِ عَنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ إِلَى ذَلِكَ الْوَقْتِ وَالْغَايَةِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْفِعْلَ مُبَاحٌ بَعْدَ مُضِيِّ ذَلِكَ الْوَقْتِ وَتِلْكَ الْغَايَةِ، إِذَا وُجِدَ نَهْيٌ عَنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ، وَلَمْ يَكُنِ الْخَبَرَانِ إِذَا رُوِيَا عَلَى هَذِهِ الْقِصَّةِ مُتَهَاتِرَيْنِ مُتَكَاذِبَيْنِ مُتَنَاقِضَيْنِ عَلَى مَا يَزْعُمُ بَعْضُ مَنْ خَالَفَنَا فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، مِنْ قَوْلِهِ جَلَّ وَعَلا: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَحَرَّمَ اللَّهُ الْمُطَلَّقَةَ ثَلاثًا عَلَى الْمُطَلِّقِ فِي نَصِّ كِتَابِهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَهِيَ إِذَا نَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ لا تَحِلُّ لَهُ وَهِيَ تَحْتَ زَوْجٍ ثَانٍ، وَقَدْ يَمُوتُ عَنْهَا أَوْ يُطَلِّقُهَا أَوْ يَنْفَسِخُ النِّكَاحُ بِبَعْضِ الْمَعَانِي الَّتِي يَنْفَسِخُ النِّكَاحُ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ قَبْلَ الْمَسِيسُ، وَلا يَحِلُّ أَيْضًا لِلزَّوْجِ الأَوَّلِ حَتَّى يَكُونَ مِنَ الزَّوْجِ الثَّانِي مَسِيسٌ، ثُمَّ يَحْدُثُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالزَّوْجِ مَوْتٌ أَوْ طَلاقٌ أَوْ فَسْخُ نِكَاحٍ، ثُمَّ تَعْتَدُّ بِهِ، فَلَوْ كَانَ التَّحْرِيمُ إِذَا كَانَ إِلَى وَقْتِ غَايَةٍ كَالدَّلِيلِ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ أَنْ يَكُونَ الْمُحَرَّمُ إِلَى وَقْتِ غَايَةٍ صَلَّى لا بَعْدَ الْوَقْتِ لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ، لَكَانَتِ الْمُطَلَّقَةُ ثَلاثًا إِذَا تَزَوَّجَهَا زَوْجًا غَيْرُهُ حَلَّتْ لِزَوْجِهَا الأَوَّلِ قَبْلَ مَسِيسِ الثَّانِي إِيَّاهَا، وَقَبْلَ أَنْ يَحْدُثَ بِالزَّوْجِ مَوْتٌ أَوْ طَلاقٌ مِنْهُ، وَقَبْلَ أَنْ تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا وَمَنْ يَفْهَمْ أَحْكَامَ اللَّهِ يَعْلَمْ أَنَّهَا لا تَحِلُّ بَعْدُ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَحَتَّى يَكُونَ هُنَاكَ مَسِيسٌ مِنَ الزَّوْجِ إِيَّاهَا، أَوْ مَوْتُ زَوْجٍ أَوْ طَلاقُهُ، أَوِ انْفِسَاخِ النِّكَاحِ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ عِدَّةٌ تَمْضِي، هَذِهِ مَسْأَلَةٌ طَوِيلَةٌ سَأُبَيِّنُهَا فِي كِتَابِ الْعِلْمِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَاعْتَرَضَ بَعْضُ مَنْ لا يُحْسِنُ الْعِلْمَ وَالْفِقْهَ، فَادَّعَى فِي هَذِهِ الآيَةِ مَا أَنْسَانَا قَوْلَ مَنْ ذَكَرْنَا قَوْلَهُ، فَزَعَمَ أَنَّ النِّكَاحَ هَهُنَا الْوَطْءُ، وَزَعَمَ أَنَّ النِّكَاحَ عَلَى مَعْنَيَيْنِ عَقْدٌ وَوَطْءٌ، وَزَعَمَ أَنَّ قَوْلَهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ إِنَّمَا أَرَادَ الْوَطْءَ، وَهَذِهِ فَضِيحَةٌ لَمْ نَسْمَعْ عَرَبِيًّا قَطُّ مِمَّنْ شَاهَدْنَاهُمْ، وَلا حُكِيَ لَنَا عَنْ أَحَدٍ تَقَدَّمَنَا مِمَّنْ يُحْسِنُ لُغَةَ الْعَرَبِ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ، وَلا مِمَّنْ قَبْلَهُمْ أَطْلَقَ هَذِهِ اللَّفْظَةَ، أَنْ يَقُولَ جَامَعَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، وَلا سَمِعْنَا أَحَدًا يُجِيزُ أَنْ يُقَالَ، وَطِئَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، وَإِنَّمَا أَضَافَ إِلَيْهَا النِّكَاحَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كَمَا تَقُولُ الْعَرَبُ، تَزَوَّجِتِ الْمَرْأَةُ زَوْجًا، وَلَمْ نَسْمَعْ عَرَبِيًّا يَقُولُ وَطِئَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا وَلا جَامَعَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، وَمَعْنَى الآيَةِ عَلَى مَا أَعْلَمْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يُحَرِّمُ الشَّيْءَ فِي كِتَابِهِ إِلَى وَقْتٍ وَغَايَةٍ، وَقَدْ يَكُونُ ذَلِكَ الشَّيْءُ حَرَامًا بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ أَيْضًا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول، کیا رات اور دن کی گھڑیوں میں کوئی ایسی گھڑی بھی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز نہ پڑھنے کا حُکم دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں جب تم صبح کی نماز پڑھ لو تو سورج طلوع ہونے تک نماز پڑھنے سے رکے رہو-“ جناب ابن عبدالحکم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”حتیٰ کہ سورج بلند ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ پھر (اس کے بعد) نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور شریک ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے حتیٰ کہ دوپہر ہو جائے۔ چنانچہ جب دوپہر ہو جائے تو تم سورج ڈھلنے تک نماز پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنّم بھڑکائی جاتی ہے اور شدید گرمی جہنّم کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے - اور جب سورج ڈھل جائے تو (اُس وقت کی) نماز میں فرشتے حاضر ہوتے اور شریک ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ عصر کی نماز پڑھی جائے۔ پھر جب تم عصر کی نماز پڑھ لو تو پھر سورج غروب ہونے تک نماز سے رکے رہو۔“ جناب یونس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”نمازیں (اس وقت قبول ہوتی ہیں)“ اور ابن عبدالحکم کے الفاظ یہ ہیں کہ ”پھر نماز میں فرشتے شریک ہوتے ہیں، اس میں حاضر ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے حتیٰ کہ صبح کی نماز ادا کی جائے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر خاموشی سے نطق پر دلیل لینا جائز ہوتا جیسا کہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ خاموشی منصوص پر دلیل ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث سے دلیل لینا جائز ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے - لہٰذا سورج کا کنارہ نکل آنے پر اور اُس کے بلند ہونے سے پہلے نماز پڑھنا جائز ہوتا - اور جب سورج آسمان کے وسط میں برابر ہو جائے تو اس کے ڈھلنے سے پہلے بھی نماز جائز ہوتی۔ لیکن یہ اس شخص کے نزدیک جائز نہیں ہے جو دینی فہم و فراست رکھتا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں غور و فکر کرنے والا ہو اور خاموشی سے نطق کے خلاف دلیل لینے میں دھرم اور عناد پرست نہ ہو اور نہ وہ خاموشی کو منصو ص کی دلیل قرار دینے پر مصر ہو جیسا کہ بعض اہل علم کا خیا ل ہے۔ اس مسئلہ میں ہمارے مخالفین کے مذہب کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک کہ ”صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے“ ان کے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز جائز ہو جاتی ہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ یہ ایسی دلیل ہے جس میں دوسرا کوئی احتمال نہیں ہے۔ اور ہمارا مذہب اس اصل کے خلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بلاشبہ نص کی قوت اور حیثیت دلیل کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اور یہ جائز ہے کہ ایک کام سے ایک وقت اور مدّت تک روک دیا جائے اور اس مخصوص کام کی مخصوص مدّت و وقت تک ممانعت میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ وقت اور مدّت گزر جانے پر وہ کام جا ئز ہو گا۔ جبکہ اس وقت کے گزر جانے کے بعد اس کی منع کی دلیل موجود ہو اور اس مسئلہ میں مروی دونوں روایات باہم متضاد، متناقض اور ایک دوسرے کی نفی کرنے والی بھی نہ ہوں - جیسا کہ اسی مسئلہ میں ہمارے بعض مخالفین کا خیال ہے۔ اسی قسم سے یہ مسئلہ بھی ہے جسے میں اپنی کتاب معانی القرآن میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے «فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» [ سورة البقرة: 230 ] ”پھر اگر وہ (خاوند) اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ (عورت) اُس کے لئے حلال نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکا ح کرے۔“ لہٰذا قرآن مجید کی اس نص کے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں والی بیوی کو اُس کے خاوند پر حرام قرار دیا ہے حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے خاوند سے نکا ح کرلے۔ اور جب وہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکا ح کرے گی تو وہ اُس شخص کے نکا ح میں ہوتے ہوئے پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی - اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بستری کرنے سے پہلے ہی وہ شخص فوت ہو جائے یا اُسے طلاق دے دے یا نکا ح کسی ایسی وجہ سے فسخ ہو جائے جن کی بنیا د پر نکا ح فسخ ہو جاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی حتیٰ کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری کرلے - پھر خاوند کے فوت ہونے، طلاق دینے یا نکا ح فسخ ہونے کی صورت میں وہ عدت گزارے گی (پھر پہلے خاوند سے نکا ح کرنا جائز ہو گا) چنانچہ اگر یہ حرمت ایک محدود وقت تک ہو، اس دلیل کی طرح جس میں دوسرا کوئی احتمال نہیں تو حرام کی گئی چیز ایک مقرر وقت تک ہوتی اور وہ نماز پڑھتا (اس کے وقت ہی میں) وقت کے بعد نہیں۔ اس میں دوسرا احتمال نہ ہوتا - پس تین طلاقوں والی عورت جب دوسرے خاوند سے شادی کرلیتی تو وہ پہلے خاوند کے لئے دوسرے خادند کی ہم بستری سے پہلے ہی حلال ہو جاتی اور دوسرے خاوند کی وفات یا اس سے طلاق اور اس کی عدت گزرنے سے پہلے ہی پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ عورت (پہلے خاوند کے لئے) حلال نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ دوسرے خاوند سے شادی کرلے اور وہ اس عورت سے ہم بستری کرلے۔ پھر وہ خاوند فوت ہو جائے، یا وہ طلاق دیدے یا ان کا نکا ح فسخ ہو جائے، پھر اس کی عدت پوری ہو جائے۔ عنقریب میں یہ طویل مسئلہ کتاب العلم میں بیان کر دوں گا، ان شاء اللہ، علم و فقہ سے ناواقف بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے اور اس آیت میں ایسا دعویٰ کیا ہے، جس نے ہمیں گزشتہ قول بھلا دیا ہے - اس کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں نکا ح سے مراد وطی ہے۔ نیز اس کا دعویٰ ہے کہ نکا ح کے دو معنی ہیں، 1-عقد یعنی نکا ح کرنا، 2- وطی کرنا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ“ (حتیٰ کہ وہ دوسرے خاوند سے نکا ح کرلے) سے مراد وطی ہے (کہ وہ عورت کسی دوسرے خاوند سے وطی و ہم بستری کرلے) یہ ایسی شرم ناک اور رسوا کن بات ہے جو ہم نے کسی عربی شخص سے نہیں سنی، جن کو ہم نے دیکھا ہے اور ان کا عہد پایا ہے - اور نہ ہمیں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم سے پہلے کسی شخص نے ایسی معیوب بات کی ہو جو اہل اسلام میں سے لغت عرب کو جانتا ہو اور اس میں مہارت رکھتا ہو۔ پرانے لوگوں نے بھی اس لفظ کا اطلاق اس طرح نہیں کیا کہ ”جَامَعَتِ الْمَرأةُ َزَوْجَهَا“ (عورت نے اپنے خاوند سے ہم بستری کی) ہم نے کسی کو نہیں سنا کہ وہ یہ کہنا درست قرار دیتا ہو کہ ”وَطِئَتِ الْمَرأةُ َزَوْجَهَا“ (عورت نے اپنے خاوند سے وطی کی) بلکہ اس موقع پر اس کی طرف نکا ح کی نسبت کی جاتی ہے جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں کہ «تَزَوَّجَتِ الْمَرأةُ َزَوْجَهَا» (عورت نے خاوند سے شادی کی) ہم نے کسی عربی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ عورت نے اپنے خاوند سے وطی کی یا عورت نے اپنے خاوند کے ساتھ جماع وہم بستری کی - اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں کسی چیز کو ایک وقت اور مدّت تک حرام قرار دیتا ہے، اور کبھی وہ چیز اس وقت کے بعد بھی حرام ہوتی ہے ـ
تخریج الحدیث: