صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ عَلَى الدَّوَابِّ
سفر میں نفل نماز سواری کے اوپر بیٹھ کر پڑھنے کے ابواب کا مجموعہ
799. (566) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ غَلَطَ فِي الِاحْتِجَاجِ بِهِ بَعْضُ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ مِمَّنْ زَعَمَ أَنَّ الْوِتْرَ عَلَى الرَّاحِلَةِ غَيْرُ جَائِزٍ
اس روایت کا بیان جس سے استدلال کرنے میں بعض کم علم لوگوں سے غلطی ہوئی ہے، ان کا خیال ہے کہ سواری پر وتر پژھنا جائز نہیں ہے
حدیث نمبر: 1263
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ ، نَا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي فِي السَّفَرِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، فَإِذَا أَرَادَ الْمَكْتُوبَةَ أَوِ الْوِتْرَ أَنَاخَ فَصَلَّى بِالأَرْضِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَوَهَّمَ بَعْضُ النَّاسِ أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ دَالٌ عَلَى خِلافِ خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْخَبَرَ أَنَّ الْوِتْرَ غَيْرُ جَائِزٍ عَلَى الرَّاحِلَةِ، وَهَذَا غَلَطٌ وَإِغْفَالٌ مِنْ قَائِلِهِ، وَلَيْسَ هَذَا الْخَبَرُ عِنْدَنَا وَلا عِنْدَ مَنْ يُمَيِّزُ بَيْنَ الأَخْبَارِ يُضَادُّ خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ، بَلِ الْخَبَرَانِ جَمِيعًا مُتَّفِقَانِ مُسْتَعْمَلانِ، وَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَخْبَرَ بِمَا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ، وَيَجِبُ عَلَى مَنْ عَلِمَ الْخَبَرَيْنِ جَمِيعًا إِجَازَةَ كِلا الْخَبَرَيْنِ. قَدْ رَأَى ابْنُ عُمَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَأَدَّى مَا رَأَى، وَرَأَى جَابِرٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَأَوْتَرَ بِالأَرْضِ، فَأَدَّى مَا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَائِزٌ أَنْ يُوتِرَ الْمَرْءُ عَلَى رَاحِلَتِهِ كَمَا فَعَلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَائِزٌ أَنْ يُنِيخَ رَاحِلَتَهُ فَيَنْزِلُ فَيُوتِرُ عَلَى الأَرْضِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ الْفِعْلَيْنِ جَمِيعًا، وَلَمْ يَزْجُرْ عَنْ أَحَدِهِمَا بَعْدَ فِعْلِهِ، وَهَذَا مِنَ اخْتِلافِ الْمُبَاحِ. وَلَوْ لَمْ يُوتِرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الأَرْضِ، وَقَدْ أَوْتَرَ عَلَى الرَّاحِلَةِ كَانَ غَيْرُ جَائِزٍ لِلْمُسَافِرِ الرَّاكِبِ أَنْ يَنْزِلَ فَيُوتِرُ عَلَى الأَرْضِ، وَلَكِنْ لَمَّا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِعْلَيْنِ جَمِيعًا، كَانَ الْمُوتِرُ بِالْخِيَارِ فِي السَّفَرِ إِنْ أَحَبَّ أَوْتَرَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَإِنْ شَاءَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَى الأَرْضِ، وَلَيْسَ شَيْءٌ مِنْ سُنَّتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْجُورًا إِذَا أَمْكَنَ اسْتِعْمَالُهُ، وَإِنَّمَا يُتْرَكُ بَعْضُ خَبَرِهِ بِبَعْضٍ إِذَا لَمْ يُمْكِنِ اسْتِعْمَالُهَا جَمِيعًا، وَكَانَ أَحَدُهُمَا يَدْفَعُ الآخَرَ فِي جَمِيعِ جِهَاتِهِ، فَيَجِبُ حِينَئِذٍ طَلَبُ النَّاسِخِ مِنَ الْخَبَرَيْنِ وَالْمَنْسُوخِ مِنْهُمَا، وَيُسْتَعْمَلُ النَّاسِخُ دُونَ الْمَنْسُوخِ، وَلَوْ جَازَ لأَحَدٍ أَنْ يَدْفَعَ خَبَرَ ابْنِ عُمَرَ بِخَبَرِ جَابِرٍ كَانَ أَجْوَزَ لآخَرَ أَنْ يَدْفَعَ خَبَرَ جَابِرٍ بِخَبَرِ ابْنِ عُمَرَ ؛ لأَنَّ أَخْبَارَ ابْنِ عُمَرَ فِي وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَكْثَرُ أَسَانِيدَ، وَأَثْبَتُ، وَأَصَحُّ مِنْ خَبَرِ جَابِرٍ، وَلَكِنْ غَيْرُ جَائِزٍ لِعَالِمٍ أَنْ يَدْفَعَ أَحَدَ هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ بِالآخَرِ بَلْ يُسْتَعْمَلانِ جَمِيعًا عَلَى مَا بَيَّنَّا، وَقَدْ خَرَّجْتُ طُرُقَ خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِي كِتَابِ الْكَبِيرُ
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں (نفل) نماز پڑھتے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا رخ جدھر بھی ہوتا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز یا وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی سواری کو بٹھا دیتے اور زمین پر نماز ادا کرتے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ یہ حدیث، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف دلیل ہے ـ اس نے اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ سواری پر وتر پڑھنا جائز نہیں ہے جبکہ یہ بات کہنے والے کی غلطی اور غفلت کی دلیل ہے۔ یہ روایت ہمارے اور روایات کے باہمی فرق کو سمجھنے والے علمائے کرام کے نزدیک سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے متضاد اور مخالف نہیں ہے۔ بلکہ دونوں روایات متفق اور قابل عمل ہیں۔ دونوں صحابہ کرام نے وہی خبر دی ہے جو اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ دونوں روایات جان لے اُسے دونوں روایات پر عمل کو جائز قرار دینا چاہئے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری پر وتر پڑھتے دیکھا ہے اور اسی طرع یہ مسئلہ بیان کر دیا ہے۔ اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری بٹھا کر زمین پر وتر پڑھتے دیکھا تو اسی طرح بیان کر دیا ہے۔ لہٰذا نمازی کے لئے جائز ہے کہ وہ سواری کے اوپر وتر ادا کرے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنی سواری بٹھا کر زمین پر اُتر کر وتر پڑھ لے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طریقوں سے وتر ادا کیے ہیں، اور دونوں میں سے کسی ایک طریقے سے اپنا فعل مبارکہ کے بعد منع نہیں فرمایا۔ اور یہ جائز اختلاف کی قسم ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر وتر نماز نہ پڑھی ہوتی اور صرف سواری پر وتر ادا کیے ہوتے تو سوار مسافر کے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ وہ سواری سے اُتر کر زمین پر وتر پڑھتا، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طرح ہی وتر ادا کیے ہیں۔ تو سفر میں وتر پڑھنے والے کو اختیار ہے، اگر چاہے تو اپنی سواری پر پڑھ لے اور اگر چاہے تو سواری سے اُتر کر زمین پر پڑھ لے - نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنّت بھی چھوڑی نہیں جا سکتی جبکہ اس پر عمل کرنا ممکن ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو دوسری کے مقابلے میں اُس وقت چھوڑا جائے گا جب دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ ہو اور ایک حدیث دوسری کو ہر طریقے سے رد کرتی ہو (ان میں جمع ممکن ہی نہ ہو) جب عمل ممکن نہ ہو تو اُس وقت دونوں حدیثوں میں سے ناسخ اور منسوخ کو تلاش کیا جائے گا اور پھر منسوخ کی بجائے ناسخ پر عمل کیا جائے گا اور اگر کسی شخص کے لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو کرنا جائز ہے تو کسی دوسرے شخص کے لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے ساتھ رد کرنا بلاولیٰ جائز ہو گا۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سواری پر وتر پڑھنے کے بارے میں مروی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی نسبت بہت ساری اسانید سے مروی ہے جو زیادہ مضبوط اور صحیح ہیں، لیکن کسی عالم کے لئے ان دو حدیثوں میں سے کسی ایک کو دوسری کی وجہ سے رد کر نا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے بیان کردہ طریقے کے مطابق دونوں پر عمل کرنا چاہیے۔ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی اسانید کتاب الکبیر میں بیان کی ہیں۔
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔