صحيح ابن خزيمه
بیماری اور عذر کے وقت فرض نماز کی ادائیگی کے ابواب کا مجموعہ
630. (397) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الصَّلَاةِ مَاشِيًا عِنْدَ طَلَبِ الْعَدُوِّ
دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے چلتے چلتے نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان
حدیث نمبر: 982
نَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ ، نَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَالِدِ بْنِ سُفْيَانَ بْنِ نُبَيْحٍ الْهُذَلِيِّ، وَبَلَغَهُ أَنَّهُ يَجْمَعُ لَهُ، وَكَانَ بَيْنَ عُرَنَةَ وَعَرَفَاتٍ، قَالَ لِيَ: اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُ لِي، قَالَ:" إِذَا رَأَيْتَهُ أَخَذَتْكَ قُشَعْرِيرَةٌ، لا عَلَيْكَ أَنْ لا أَصِفَ لَكَ مِنْهُ غَيْرَ هَذَا"، قَالَ: وَكَانَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ حَتَّى إِذَا دَنَوْتُ مِنْهُ حَضَرَتِ الصَّلاةُ، صَلاةَ الْعَصْرِ، قَالَ: قُلْتُ إِنِّي لأَخَافُ أَنْ يَكُونَ بَيْنِي مَا أَنْ أُؤَخِّرَ الصَّلاةَ، فَصَلَّيْتُ وَأَنَا أَمْشِي أُومِئُ إِيمَاءً نَحْوَهُ، ثُمَّ انْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا عَدَا أَنْ رَأَيْتُهُ اقْشَعْرَرْتُ، وَإِذَا هُوَ فِي ظُعُنٍ لَهُ أَيْ فِي نِسَائِهِ فَمَشَيْتُ مَعَهُ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَجْمَعُ لِهَذَا الرَّجُلِ فَجِئْتُكَ فِي ذَاكَ، فَقَالَ: إِنِّي لَفِي ذَاكَ، قَالَ: قُلْتُ فِي نَفْسِي: سَتَعْلَمُ، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً حَتَّى إِذَا أَمْكَنَنِي عَلَوْتُهُ بِسَيْفِي حَتَّى بَرَدَ، ثُمَّ قَدِمَتُ الْمَدِينَةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَأَعْطَانِي مِخْصَرًا، يَقُولُ: عَصًا فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ عِنْدِهِ، فَقَالَ لِي أَصْحَابِي: مَا هَذَا الَّذِي أَعْطَاكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مِخْصَرًا، قَالُوا: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ، أَلا سَأَلْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَ أَعْطَاكَ هَذَا، وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ عُدْ إِلَيْهِ، فَاسْأَلْهُ قَالَ: فَعُدْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْمِخْصَرُ أَعْطَيْتَنِيهُ لِمَاذَا؟ قَالَ:" إِنَّهُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَقَلُّ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ الْمُخْتَصِرُونَ"، قَالَ: فَعَلَّقَهَا فِي سَيْفِهِ، لا يُفَارِقُهُ، فَلَمْ يُفَارِقْهُ مَا كَانَ حَيًّا، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ أَمَرَنَا أَنْ نَدْفِنَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُعِلَتْ وَاللَّهِ فِي كَفَنِهِ
سیدنا عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خالد بن سفیان بن نبیح الھذلی کی طرف بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکر جمع کر رہا ہے، اور وہ وادی عرنہ اور عرفات کے درمیان موجود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ”جاؤ اور اسے قتل کر دو۔“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے اس کی کوئی نشانی بتا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اس کو دیکھو گے تو تم پر کپکپکی طاری ہو جائے گی، تمہارے لئے اس کی کوئی اور نشانی اگر نہ بھی بیان کروں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں۔“ (یعنی اتنی ہی نشانی کافی ہے) کہتے ہیں کہ وہ لمبے قد اور لمبے بالوں والا آدمی تھا۔ کہتے ہیں کہ میں چل پڑا حتیٰ کہ جب میں اس کے قریب پہنچ گیا تو نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا، مجھے خدشہ ہے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی ایسی چیز ہو جائے کہ میں اپنی نماز مؤخر کر بیٹھوں۔ لہٰذا میں نے چلتے چلتے اشارے کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ پھر میں اُس تک پہنچ گیا۔ ﷲ کی قسم، اُسے دیکھتے ہی مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی، اور وہ اپنی عورتوں کے ساتھ چل رہا تھا تو میں بھی اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، اُس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں ایک عربی شخص ہوں، مجھے اطلاع ملی تھی کہ تم اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف لشکر جمع کر رہے ہو، تو میں اس سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں۔ تو اُس نے کہا کہ بیشک میں اسی کام میں مشغول ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا، عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا۔ کہتے ہیں کہ میں کچھ دیر اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، حتیٰ کہ جب مجھے موقع مل گیا تو میں نے اُس پر تلوار کا وار کر کے اس کا کام تمام کر دیا، اور وہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں مدینہ منوّرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے واقعہ کی روداد سنائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک عصاء عطا کیا۔ میں وہ عصاء لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلا تو میرے دوست احباب نے مجھے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ کیا چیز عطا کی ہے؟ کہتے ہیں تو میں نے جواب دیا، یہ عصاء (لاٹھی) ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں نہیں پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ کیوں عطا کیا ہے اور تم اس کے ساتھ کیا کرو گے؟ جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھ لو، کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوبارہ گیا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عصا مجھے کس لئے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ قیامت کے دن تمہارے اور میرے درمیان نشانی ہوگی، اور اس روز بہت کم لوگوں کے پاس عصا ہوں گے۔“ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ لٹکا لیا، کبھی وہ اس سے جدا نہیں ہوتے تھے، پھر اُنہوں نے ساری زندگی اسے اپنے سے الگ نہ کیا، پھر جب اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُنہوں نے ہمیں حُکم دیا کہ اسے میرے ساتھ ہی دفن کر دینا۔ اُن کے بیٹے نے کہا کہ اللہ کی قسم، میں نے ہی اسے اُن کے ساتھ کفن میں رکھا تھا۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح