صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْفَرِيضَةِ فِي السَّفَرِ
سفر میں فرض نماز کی ادائیگی کے ابواب کا مجموعہ
616. (383) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ احْتَجَّ بِهِ بَعْضُ مَنْ خَالَفَ الْحِجَازِيِّينَ فِي إِزْمَاعِ الْمُسَافِرِ مَقَامَ أَرْبَعٍ أَنَّ لَهُ قَصْرَ الصَّلَاةِ
مسافر چار دن ک اقامت کا پختہ ارادہ کر لے تو وہ قصر کر سکتا ہے اس مسئلہ میں اہلِ حجاز علماء کے مخالفین کی دلیل کا بیان
حدیث نمبر: 958
كَذَلِكَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، نَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ، عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: فَأَقَامَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَقِيَّةَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ بِمِنًى، وَلَيْلَةَ عَرَفَةَ، ثُمَّ غَدَاةَ عَرَفَةَ، فَسَارَ إِلَى الْمَوْقِفِ بِعَرَفَاتٍ، يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِهِ، ثُمَّ سَارَ إِلَى الْمَوْقِفِ، فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ دَفَعَ حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ، فَجَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَبَاتَ فِيهَا حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَسَارَ وَرَجَعَ إِلَى مِنًى، فَأَقَامَ بَقِيَّةَ يَوْمِ النَّحْرِ، وَيَوْمَيْنِ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَبَعْضَ الثَّالِثِ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ بِمِنًى، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ مِنْ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ رَمَى الْجِمَارَ الثَّلاثَ، وَرَجَعَ إِلَى مَكَّةَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ثُمَّ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، ثُمَّ رَقَدَ رَقْدَةً بِالْمُحَصَّبِ، فَهَذِهِ تَمَامُ عَشَرَةِ أَيَّامٍ جَمِيعُ مَا أَقَامَ بِمَكَّةَ وَمِنًى فِي الْمَرَّتَيْنِ وَبِعَرَفَاتٍ، فَجَعَلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كُلَّ هَذَا إِقَامَةً بِمَكَّةَ، وَلَيْسَ مِنًى وَلا عَرَفَاتٌ مِنْ مَكَّةَ، بَلْ هُمَا خَارِجَانِ مِنْ مَكَّةَ وَعَرَفَاتٌ خَارِجٌ مِنَ الْحَرَمِ أَيْضًا، فَكَيْفَ يَكُونُ مَا هُوَ خَارِجٌ مِنَ الْحَرَمِ مِنْ مَكَّةَ؟. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ ذَكَرَ مَكَّةَ وَتَحْرِيمَهَا:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ بِحَرَامِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لا يُنْفَرُ صَيْدُهَا، وَلا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلا يُخْتَلَى خَلاهَا". فَلَوْ كَانَتْ عَرَفَاتٌ مِنْ مَكَّةَ لَمْ يَحِلَّ أَنْ يُصَادَ بِعَرَفَاتٍ صَيْدٌ، وَلا يُعْضَدُ بِهَا شَجَرٌ وَلا يُخْتَلَى بِهَا خَلاءٌ، وَفِي إِجْمَاعِ أَهْلِ الصَّلاةِ عَلَى أَنَّ عَرَفَاتٍ خَارِجَةٌ مِنَ الْحَرَمِ مَا بَانَ وَثَبَتَ أَنَّهَا لَيْسَتْ مِنْ مَكَّةَ، وَإِنَّ مَا كَانَ اسْمُ مَكَّةَ يَقَعُ عَلَى جَمِيعِ الْحَرَمِ فَعَرَفَاتٌ خَارِجَةٌ مِنْ مَكَّةَ لأَنَّهَا خَارِجَةٌ مِنَ الْحَرَمِ وَمِنًى بَايِنٌ مِنْ بِنَاءِ مَكَّةَ وَعُمْرَانِهَا، وَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ اسْمُ مَكَّةَ يَقَعُ عَلَى جَمِيعِ الْحَرَمِ فَمِنًى دَاخِلٌ فِي الْحَرَمِ، وَأَحْسَبُ خَبَرَ عَائِشَةَ دَالا عَلَى أَنَّ مَا كَانَ مِنْ وَرَاءِ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ لَيْسَ مِنْ مَكَّةَ، وَكَذَلِكَ خَبَرُ ابْنُ عُمَرَ أَمَّا خَبَرُ عَائِشَةَ
جناب عبدالعزیز رفیع سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، مجھے ایسی چیز بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھی ہو، آپ نے یوم الترویہ کو ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ منیٰ میں۔ امام ابوبکر رحمه اللہ فرماتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الترویہ کا باقی دن اور عرفہ کی رات منیٰ ہی میں قیام پذیر رہے، پھر عرفہ کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) کی طرف چل پڑے اور (وہاں جاکر) ظہر اور عصر کی نمازیں اکھٹی پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موقف کی طرف گئے اور سورج غروب ہونے تک موقف میں کھڑے (دعائیں مانگتے اور ذکر کرتے) رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوکر واپس مزدلفہ پہنچے تو مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کیں اور رات مزدلفہ ہی میں آرام کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، پھر صبح کی نماز مزدلفہ میں پڑھی اور پھر وہاں سے کوچ کیا اور واپس منیٰ پہنچ گئے، لہٰذا وہاں یوم النحر (قربانی کے دن) کا باقی حصّہ ایام تشریق کے مکمّل دو دن اور ایام تشریق کے تیسرے دن کا بعض حصّہ منیٰ میں قیام کیا، پھر جب ایام تشریق میں سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرات کو کنکریاں ماریں، اور مکّہ مکرّمہ تشریف لے آئے، چنانچہ ایام تشریق کے آخری دن ظہر اور عصر کی نمازیں مکّہ مکرّمہ میں ادا کیں، پھر مغرب اور عشاء کی نمازیں وہیں ادا کیں پھر وادی محصب میں کچھ دیر آرام فرمایا۔ اس طرح یہ کل دس دن ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ، منیٰ میں دو بار اور عرفات میں قیام کیا۔ جبکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سب دنوں کو مکّہ مکرّمہ میں حالانکہ منیٰ اور عرفات مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہیں بلکہ وہ دونوں مکّہ مکرّمہ سے باہر اور الگ ہیں اور عرفات تو حدود حرم سے بھی باہر ہے تو جو علاقہ حدود حرم سے باہر ہو وہ مکّہ مکرّمہ میں کیسے شمار ہو سکتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ اور اس کی حرمت کا تذکرہ کر تے ہوئے فرمایا تھا۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن ہی سے مکّہ مکرّمہ کو حرم قرار دے دیا تھا۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دیے جانے کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرام ہے، اس کے شکار کو نہ ڈرایا جائے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کی گھاس اور جڑی بوٹیاں نہ کاٹی جائیں۔ چناچہ اگر عرفات مکّہ مکرّمہ میں شامل ہوتا تو عرفات میں شکاری کے لئے شکار کر نا حلال نہ ہوتا اور اس کے درخت نہ کاٹے جاتے اور اس کی گھاس نہ کاٹی جاسکتی۔ اور اہل اسلام کا اجماع ہے کہ عرفات حدود حرم سے باہر ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل اور وضاحت ہے کہ عرفات مکّہ مکرّمہ میں شامل نہیں ہے اگر چہ مکّہ مکرّمہ کا اطلاق تمام حدود حرم پر ہوتا ہے مگر عرفات اس میں داخل نہیں کیونکہ وہ حدود حرم سے باہر ہے اور منیٰ مکّہ مکرّمہ کہ آبادی اور عمارات سے الگ تھلگ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مکّہ مکرّمہ کا اطلاق سارے حرم پر ہوتا ہو اس لئے منیٰ بھی حرم میں داخل ہے ـ میرا خیال ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو علاقہ مکّہ مکرّمہ کی متصل عمارات کے پیچھے ہے وہ مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہے، اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري