Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
6. باب جَوَازِ الإِقْعَاءِ عَلَى الْعَقِبَيْنِ:
باب: ایڑیوں پر سرین رکھ کر بیٹھنا۔
حدیث نمبر: 1198
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا جَمِيعًا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا ، يَقُولُ: قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ : فِي الإِقْعَاءِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، فَقَالَ: هِيَ السُّنَّةُ، فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّا لَنَرَاهُ جَفَاءً بِالرَّجُلِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " بَلْ هِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
حضرت طاوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنھماسےدونوں پیروں پربیٹھنے کے بارے میں پو چھا تو انھوں نے جواب دیا: یہ سنت ہے۔ہم نے ان سے عرض کی: ہمارا تو خیال ہے کہ یہ انسان (یا اگر را کی زیرکے ساتھ رجل پڑھا جائے تو پاؤں) پرزیاتی ہے۔ابن عباس صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (نہیں) بلکہ یہ تمہارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
حضرت طاؤس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے قدموں پر بیٹھنے کے بارے میں پوچھا، انہوں نے جواب دیا یہ سنت ہے تو ہم نے عرض کیا ہمارا خیال ہے کہ یہ پاؤں پر زیادتی ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، بلکہ یہ تو تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1198 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1198  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اَلْاِقْعَاء:
اقعاء کی دوصورتیں ہیں:
(1)
اپنی سرین کو زمین پر رکھ کر پنڈلیوں کو کھڑا کرکے ہاتھوں کو کتے کی طرح زمین پر بچھا دینا،
یہ بالا تفاق ممنوع ہے اور دوسری حدیث میں اس سے روکا گیا ہے۔
(2)
دونوں سجدوں کے درمیان اپنی سرین قدموں (ایڑیوں)
پر رکھ کر بیٹھنا اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سنت قرار دے رہے ہیں،
صحابہ،
محدثین اور امام شافعی رحمہ اللہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔
(2)
جَفَاء:
گرانی اور مشقت،
بدسلوکی۔
الرِّجل:
اگر اس کو رجل پڑھیں تو پاؤں مراد ہو گا اور رَجُل قرار دیں تو انسان مراد ہوگا کہ اس طرح بیٹھنا انسان کے لیے گرانی اور مشقت کا باعث ہے۔
فوائد ومسائل:
مرد اور عورت کی نماز میں کسی ہیئت اور کیفیت میں اختلاف کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور اِقْعَاء کی صورت اس انسان کے لیے ہے جس کے لیے اس انداز میں بیٹھنے میں سہولت اور آسانی ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 845  
´دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کرنے یعنی ایڑیوں پر بیٹھنے کا حکم۔`
طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: دونوں سجدوں کے بیچ میں دونوں قدموں پر اقعاء ۱؎ (سرین کو ایڑیوں پر رکھ کر پنجے کو کھڑا کر کے بیٹھنا) کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ طاؤس کہتے ہیں: ہم نے کہا: ہم تو اسے آدمی کے ساتھ زیادتی سمجھتے تھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 845]
845۔ اردو حاشیہ:
ایڑیوں پر بیٹھنے کو اقعاء کہتے ہیں اور سجدوں کے درمیان کبھی کبھار اس طرح بیٹھنا جائز ہے۔ مگر اقعاء کی دوسری کیفیت عقبت الشیطان ناجائز ہے۔ یعنی انسان اپنی پنڈلیوں کو کھڑا کر لے اور سرین پر بیٹھ جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 845