Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
158. بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَذَكَرَ حَاجَةً فَتَخَطَّاهُمْ:
باب: اگر امام لوگوں کو نماز پڑھا کر کسی کام کا خیال کرے اور ٹھہرے نہیں بلکہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا چلا جائے تو کیا ہے۔
حدیث نمبر: 851
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ، قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ، فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ، فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَرَأَى أَنَّهُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِهِ، فَقَالَ:" ذَكَرْتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِي فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ".
ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے عمر بن سعید سے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تیزی کی وجہ سے گھبرا گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا (تقسیم کرنے سے) بچ گیا تھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 851 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 851  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض کے بعد امام کو اگر کوئی فوری ضرورت معلوم ہوجائے تو وہ کھڑا ہو کر جاسکتا ہے کیونکہ فرضوں کے سلام کے بعد امام کو خواہ مخواہ اپنی جگہ ٹھہرے رہنا کچھ لازم یا واجب نہیں ہے۔
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺ کو اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا کس شدت سے احساس رہتا تھا کہ سونے کا ایک تولا بھی گھر میں محض بطور امانت ہی ایک رات کے لیے رکھ لینا ناگوار معلوم ہوا۔
پھر ان معاندین پر پھٹکار ہو جو ایسے پاک پیغمبر فداہ ابی وامی کی شان میں گستاخی کرتے اور نعوذباللہ آپ ﷺ پر دنیاداری کاغلط الزام لگاتے رہتے ہیں۔
ھداھم اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 851   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:851  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام ثابت ہوتے ہیں:
٭ نماز سے فراغت کے بعد مصلے پر ٹھہرنا ضروری نہیں، ضرورت کے وقت فوراً اٹھ کر جانا جائز ہے۔
٭ گردنیں پھلانگ کر آنے جانے میں اگر لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
عام حالات میں اس کی ممانعت ہے۔
(مسند أحمد: 424/3)
٭ دوران نماز میں جائز امور کو بجا لانے کا عزم کیا جا سکتا ہے۔
٭ جو کام خود کر سکتا ہے اگر کسی دوسرے کو اس کے متعلق کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
(فتح الباري: 436/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 851   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1366  
´امام کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی رخصت کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں نماز عصر پڑھی، پھر آپ تیزی سے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے گئے یہاں تک کہ لوگ آپ کی تیزی سے تعجب میں پڑ گئے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے گئے (کہ کیا معاملہ ہے) آپ اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور فرمایا: میں نماز عصر میں تھا کہ مجھے سونے کا وہ ڈلا یاد آ گیا جو ہمارے پاس تھا، تو مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ رات بھر وہ ہمارے پاس پڑا رہے، لہٰذا جا کر میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1366]
1366۔ اردو حاشیہ:
➊ اللہ! اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفسی کہ اللہ کے مال کو ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔
➋ معلوم ہوا کہ نماز کے اندر اتفاقاً کسی خیال کا آجانا نماز کو ختم نہیں کرتا۔
➌ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی عادت مبارکہ نماز کے بعد کچھ دیر بیٹھنے ہی کی تھی ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو تعجب نہ ہوتا، نیز کسی عذر کی بنا پر ایسے کرسکتے ہیں، اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔
➍ امام جب کوئی خلاف معمول کام کرے تو اسے اپنے ساتھیوں کے سامنے اس کی وضاحت کر دینی چاہیے تاکہ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات جنم نہ لیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1366   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1430  
1430. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، اس کے بعد جلد ہی گھر تشریف لے آئے، ابھی کچھ ہی دیر ٹھہرے تھے کہ باہر تشریف لائے، اس پرمیں نے یا کسی اور نے دریافت کیا تو فرمایا:میں گھر میں صدقے کے مال سے ناخالص سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا، مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ اسے تقسیم کیے بغیر رات بسرکرلوں، اس لیے میں نے اسے تقسیم کردیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1430]
حدیث حاشیہ:
(حدیث سے ثابت ہوا کہ)
خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے۔
ایسا نہ ہو کہ موت آجائے یا مال باقی نہ رہے اور ثواب سے محروم رہ جائے۔
باب کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صاحب نصاب سال تمام ہونے سے پہلے ہی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردے۔
اس بارے میں مزید وضاحت اس حدیث میں ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ، «أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ» (رواہ أبوداود، والترمذي وابن ماجة والدارمي)
یعنی حضرت عباس ؓ نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیاوہ اپنی زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں؟ اس پر آپ نے ان کو اجازت بخش دی۔
قال ابن مالك هذا یدل علی جواز تعجیل الزکوة بعد حصول النصاب قبل تمام الحول الخ (مرعاۃ)
یعنی ابن مالک نے کہا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نصاب مقررہ حاصل ہونے کے بعد سال پورا ہونے سے پہلے بھی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1430   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1221  
1221. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ نمازِ عصر ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی کسی بیوی کے گھر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے، آپ نے جلدی کرنے کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر تعجب و حیرت کے اثرات دیکھے تو فرمایا: مجھے دوران نماز میں یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کا ٹکڑا ہے۔ میں نے شام یا رات تک اس کا گھر میں رکھنا پسند نہ کیا، اس لیے میں نے اسے (لوگوں میں) تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1221]
حدیث حاشیہ:
نماز میں آنحضرت ﷺ کو سونے کا وہ بقایا ڈلا تقسیم کے لیے یاد آگیا، یہیں سے باب کا مطلب ثابت ہوا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1221   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1221  
1221. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ نمازِ عصر ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی کسی بیوی کے گھر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے، آپ نے جلدی کرنے کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر تعجب و حیرت کے اثرات دیکھے تو فرمایا: مجھے دوران نماز میں یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کا ٹکڑا ہے۔ میں نے شام یا رات تک اس کا گھر میں رکھنا پسند نہ کیا، اس لیے میں نے اسے (لوگوں میں) تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1221]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں کسی چیز کا خیال آ جانا نماز کے منافی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں سونے کے ٹکڑے کا خیال آیا جو تقسیم نہیں کیا گیا تھا، پھر آپ نے نماز کے بعد اس کے متعلق عمل درآمد کرنے میں جلدی کی لیکن نماز کا اعادہ نہیں فرمایا، کیونکہ ایسا کرنا نماز کے منافی نہیں تھا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 118/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1221   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1430  
1430. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، اس کے بعد جلد ہی گھر تشریف لے آئے، ابھی کچھ ہی دیر ٹھہرے تھے کہ باہر تشریف لائے، اس پرمیں نے یا کسی اور نے دریافت کیا تو فرمایا:میں گھر میں صدقے کے مال سے ناخالص سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا، مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ اسے تقسیم کیے بغیر رات بسرکرلوں، اس لیے میں نے اسے تقسیم کردیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1430]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے، مبادا موت آ جائے یا مال باقی نہ رہے اور انسان اسے روک کر ثواب سے محروم رہ جائے، اس لیے نیکی کے کام میں جلدی کرنی چاہیے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں صدقہ کرنے میں جلدی کرنے کے استحباب کو بیان کیا ہے، حالانکہ حدیث سے واضح طور پر تو تاخیر کی کراہت معلوم ہو رہی ہے، لہذا امام صاحب کو کراہت تاخیر کا عنوان قائم کرنا چاہیے تھا جو کہ حدیث سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ حسب عادت دقیق نظری کو پسند کرتے اور باریک بینی کو ظاہر بات پر ترجیح دیتے ہیں، اس بنا پر امام بخاری نے استحبابِ تعجیل کا عنوان قائم کیا ہے۔
(فتح الباري: 377/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1430