صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
1. باب ابْتِنَاءِ مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: مسجد نبوی کی تعمیر۔
حدیث نمبر: 1175
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
۔ (معاذ کے بجائے) خالد، یعنی ابن حارث نے روایت کی، کہا: ہمیں شعبہ نے ابو تیاح سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .... (آگے) سابقہ حدیث کے مانند ہے۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1175 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1175
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے 8 ربیع الاول بروزسوموار قباء میں قدم فرما ہوئے تھے۔
(2)
مسجد بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس میں تمام مسلمان اجتماعی طور پر تعاون کریں گے۔
(3)
ضرورت کے تحت پھل دار درخت کاٹنا جائز ہے۔
(4)
جگہ خرید کر اگر اس میں مشرکوں کی قبریں ہوں تو ان کو اکھیڑنا جائز ہے اور وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے احناف اور شوافع کا موقف بھی یہی ہے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اس کو جائز نہیں سمجھتے۔
بعض حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”ان معذبین پر روئے بغیر نہ گزرو“ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کہ وہ ارض بابل میں نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے،
استدلال کرتے ہوئے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کی تائید کی ہے کیونکہ مشرکوں کی قبروں پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے۔
یہ استدلال درست نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل میں تضاد ہے کیونکہ معذبین سے وہ لوگ مراد ہیں جو عذاب الٰہی کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے اور ارض بابل کا خسف بھی عذاب الٰہی کے نتیجے میں ہوا تھا۔
اگر مشرکوں کی قبریں اکھاڑ کر مسجد بنانا جائز ہے تو مسلمانوں کا قبرستان اگر اس کے آثار مٹ جائیں یا کسی نے اپنے گھر میں قبر بنائی ہو اور وہ اس کو فروخت کر دے یا مسجد کے لیے وقف کر دے تو پھر قبر اکھیڑ کر مسجد بنانا جائز ہونا چاہیے،
مالکیہ،
شافعیہ اور حنفیہ اس کو توہین مسلم قرار دے کر ناجائز قرار دیتے ہیں حالانکہ جب آثار مٹ گئے ہیں یا احتیاط سے اس کی ہڈیاں نکال کر قبرستان میں دفن کر دی گئی ہیں تو اس میں توہین کا پہلو کونسا ہے؟ علامہ عینی نے اور بعض دوسرے علماء نے ایک مالکی امام کا قول نقل کیا ہے کہ مسلمانوں کے پرانے قبرستان کی جگہ مسجد بنائی جا سکتی ہے اور اس قول پر نقد و تبصرہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوا وہ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1175