صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ فُضُولِ التَطْهِيرِ وَالِاسْتِحْبَابِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ
غیر واجب ، اضافی طہارت اور مستحب وضو کے متعلق ابواب کا مجموعہ
163. (162) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَهُوَ أَفْضَلُ الذِّكْرِ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ.
وضو کیے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی رخصت ہے، حالانکہ قرآن مجید کی تلاوت افضل ترین ذکر ہے
حدیث نمبر: 208
نا بُنْدَارٌ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَا وَرَجُلانِ: رَجُلٌ مِنَّا، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَحْسَبُ فَبَعَثَهُمَا وَجْهًا، وَقَالَ: إِنَّكُمَا عِلْجَانِ فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَتَمَسَّحَ بِهَا ثُمَّ جَاءَ، فَقَرَأَ الْقُرْآنَ قِرَاءَةً فَأَنْكَرْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيّ :" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الْخَلاءَ فَيَقْضِي الْحَاجَةَ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَأْكُلُ مَعَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَلا يَحْجُبُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ، أَوْ إِلا الْجَنَابَةُ" . قَالَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيَّ ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ شُعْبَةُ:" هَذَا ثُلُثُ رَأْسِ مَالِي". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ كُنْتُ بَيَّنْتُ فِي كِتَابِ الْبُيُوعِ أَنَّ بَيْنَ الْمَكْرُوهِ وَبَيْنَ الْمُحَرَّمِ فُرْقَانًا، وَاسْتَدْلَلْتُ عَلَى الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلاثًا، وَحَرَّمَ عَلَيْكُمْ ثَلاثًا، كَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَحَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَمَنْعًا وَهَاتِ"، فَفَرَّقَ بَيْنَ الْمَكْرُوهِ، وَبَيْنَ الْمُحَرَّمِ بِقَوْلِهِ فِي خَبَرِ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ:" كَرِهْتُ أَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ إِلا عَلَى طُهْرٍ"، قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا كَرِهَ ذَلِكَ إِذِ الذِّكْرُ عَلَى طُهْرٍ أَفْضَلُ لا أَنَّ ذِكْرَ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ مُحَرَّمٌ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يُقْرَأُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ، وَالْقُرْآنُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ، وَقَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ، عَلَى مَا رُوِّينَا عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، وَقَدُ يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ كَرَاهَتُهُ لِذِكْرِ اللَّهِ إِلا عَلَى طُهْرٍ، ذِكْرُ اللَّهِ الَّذِي هُوَ فَرْضٌ عَلَى الْمَرْءِ دُونَ مَا هُوَ مُتَطَوَّعٌ بِهِ، فَإِذَا كَانَ ذِكْرُ اللَّهِ فَرْضًا لَمْ يُؤَدِّ الْفَرْضَ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ حَتَّى يَتَطَهَّرَ، ثُمَّ يُؤَدِّي ذَلِكَ الْفَرْضَ عَلَى طَهَارَةٍ، لأَنَّ رَدَّ السَّلامِ فَرْضٌ عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ، فَلَمْ يَرُدَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ حَتَّى تَطَهَّرَ، ثُمَّ رَدَّ السَّلامَ، فَأَمَّا مَا كَانَ الْمَرْءُ مُتَطَوِّعًا بِهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَلَوْ تَرَكَهُ فِي حَالَةٍ هُوَ فِيهَا غَيْرُ طَاهِرٍ، لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ إِعَادَتُهُ، فَلَهُ أَنْ يَذْكُرَ اللَّهَ مُتَطَوِّعًا بِالذِّكْرِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُتَطَهِّرٍ
حضرت عمرو بن مرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن سلمہ رحمہ اللہ کو سنا، اُنہوں نے فرمایا کہ میں اور دوسرے افراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ایک آدمی ہم سے (یعنی ہمارے قبیلے کا فرد) اور ایک بنی اسد سے تھا۔ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے اُن دونوں کو ایک سمت (علاقے عامل یا گورنر بنا کر) بھیجا اور فرمایا کہ دونوں خوب صحت مند اور طاقتور ہو لہٰذا اپنے فرض کو خوب اچھی طرح انجام دینا۔ پھر آپ بیت الخلاء میں داخل ہوئے پھر (قضائے حاجت سے فارغ ہوکر باہر) نکلے، پھر ایک چُلّو پانی لیا اور (اپنے ہاتھوں کو) دھویا، پھر (ہمارے پاس) آئے، اور قرآن مجید کی کچھ تلاوت کی، توہم نےاُسے ناپسند کیا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہو کر قضائے حاجت کیا کرتے تھے۔ پھر باہر تشریف لاتے تو ہمارے ساتھی روٹی اور گوشت کھاتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور جنابت کے سوا کوئی چیز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی تلاوت سے نہیں روکتی تھی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ نے یہ حدیث امام شعبہ رحمہ اللہ سے بھی روایت کی ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میرے اصل مال (یعنی علم) کا تہائی حصّہ ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کتاب البیوع میں بیان کرچُکا ہوں کہ مکروہ اور حرام کے درمیان فرق ہے۔ میں نے اُن دونوں میں فرق کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے «ان الله كره لكم ثلاثا و حرم عليكم ثلاثا...» اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند فرمایا ہے اور تین چیزوں کو تم پر حرام قرار دیا ہے۔ تمہارے لئے قبل وقال (بے مقصد گفتگو)، کثرتِ سوال اور مال ضائع کرنےکو مکروہ اور ناپسند کیا ہے۔ ماؤں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے اور بخل و لالچ کوتم پر حرام قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمہاجربن قنفذ کی حدیث میں اپنےاس فرمان سےمکروہ اور حرام میں فرق کیا ہے۔ «كرهت ان اذكر الله على طهر» (میں نے بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کو نا پسند کیا۔) یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اس لئے نا پسند کیا ہو کہ طہارت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا افضل ہے، اس لئے نہیں کہ بغیر طہارت ذکر کرنا حرام ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر طہارت کے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت افضل ترین ذکر ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے، جیسا کہ ہمیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر وضو کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کو مکروہ سمجھنا اس لیے ہو کہ اس ذکر سے مراد وہ ذکر ہو جو مسلمان پر نفل کی بجائے فرض ہوتا ہے۔ اور جو ذکر الٰہی فرض ہو وہ بغیر طہارت کے ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے طہارت حاصل کرکے ہی ادا کر نا چا ہیے. کیونکہ اکثرعلما ئے کرام کے نزدیک سلام کا جواب دینا فرض ہے، اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر طہارت کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےطہارت حاصل کر کے سلام کا جواب دیا لیکن اگرکوئی شخص نفلی ذکر کر رہا ہو اور ناپاکی کی حالت میں اسے ترک کر دیتا ہے تو اُس پر اس ذکر کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کے لئے نفلی ذکر کرنا جائز ہے اگرچہ وہ پاک (باوضو) نہ ہو۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف