صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
157. بَابُ مُكْثِ الإِمَامِ فِي مُصَلاَّهُ بَعْدَ السَّلاَمِ:
باب: سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر (نفل وغیرہ) پڑھ سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 848
وَقَالَ لَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُصَلِّي فِي مَكَانِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ الْفَرِيضَةَ وَفَعَلَهُ الْقَاسِمُ وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ لَا يَتَطَوَّعُ الْإِمَامُ فِي مَكَانِهِ وَلَمْ يَصِحَّ.
اور ہم سے آدم بن ابی ایاس نے کہا کہ ان سے شعبہ نے بیان کیا ان سے ایوب سختیانی نے ان سے نافع نے، فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (نفل) اسی جگہ پر پڑھتے تھے اور جس جگہ فرض پڑھتے اور قاسم بن محمد بن ابی بکر نے بھی اسی طرح کیا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ امام اپنی (فرض پڑھنے کی) جگہ پر نفل نہ پڑھے اور یہ صحیح نہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 848 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:848
حدیث حاشیہ:
(1)
امام جب نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھتا ہے تو وہ حسب ضرورت جو چاہے کر سکتا ہے۔
اس کا مصلے پر ٹھہرے رہنا کسی خاص کیفیت کے ساتھ مقید نہیں، وہ ذکر و دعا میں خود کو مصروف کرے یا دعوت و ارشاد کا فریضہ ادا کرے یا سنن و نوافل ادا کرے، چنانچہ اس عنوان کے تحت امام بخاری ؒ نے امام کا اسی جگہ پر نفل پڑھنے کا جواز ثابت کیا ہے اور بطور دلیل حضرت ابن عمر ؓ کا عمل پیش کیا ہے، نیز بتایا ہے کہ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر بھی ایسا کرتے تھے۔
اس اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے متصل سند کے ساتھ اپنی کتاب "المصنف" میں بیان کیا ہے۔
حضرت عبیداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم اور حضرت سالم کو دیکھا وہ پہلے فرض نماز ادا کرتے پھر اسی جگہ پر نوافل پڑھتے تھے۔
(المصنف لابن أبي شیبة، (باب)
من رخص أن یتطوع في مکانه: 23/2) (2)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو بالمعنی بیان کیا ہے۔
ابوداود میں یہ روایت بایں الفاظ مروی ہے:
”کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ نفل پڑھنے کے لیے اپنی جگہ سے آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہو کر پڑھے۔
“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1006)
سنن بیہقی میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے:
”اگر کوئی فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا چاہے تو آگے ہو کر انہیں ادا کرے۔
“ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 190/2)
امام بخاری ؒ نے حدیث ابو ہریرہ کے متعلق فیصلہ کیا ہے کہ وہ صحیح نہیں کیونکہ اس کے متن میں اضطراب اور سند میں کمزوری ہے جس کی تفصیل انہوں نے اپنی تصنیف، تاریخ الکبیر میں بیان کی ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔
اس طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”امام اس جگہ نفل نماز نہ پڑھے جہاں وہ فرض پڑھا چکا ہے، اسے چاہیے کہ وہاں سے دوسری طرف ہٹ کر نفل پڑھے۔
“ لیکن اس کی سند منقطع ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 616 وفتح الباري: 433/2) (3)
مختلف احادیث کے پیش نظر امام کی مختلف حالتیں ہیں:
٭ جس نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا ہے اس کے بعد سنن و نوافل بھی ہیں۔
٭ جس نماز سے سلام پھیر کر فارغ ہوا ہے اس کے بعد نوافل یا سنتیں وغیرہ نہیں ہیں جیسا کہ نماز فجر میں ہے۔
پہلی صورت میں اختلاف ہے کہ پہلے مسنون وظائف کیے جائیں یا نوافل وغیرہ ادا کیے جائیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ پہلے وظائف پڑھے جائیں پھر نوافل ادا کیے جائیں، اگر وظائف کے بجائے جگہ بدل لی جائے تو بھی کافی ہے جیسا کہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت معاویہ ؓ کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کی، جماعت کے بعد سنت پڑھنے لگا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا کہ جمعہ کی نماز کے بعد دوسری نماز اس وقت تک نہ پڑھی جائے جب تک گفتگو یا وظائف وغیرہ نہ کر لیے جائیں یا جگہ نہ بدل لی جائے۔
اس حدیث کے پیش نظر نوافل وغیرہ پڑھنے کے لیے صرف جگہ بدل لینا ہی کافی ہے۔
دوسری صورت جس میں نماز کے بعد سنن و نوافل نہیں ہیں تو اس صورت میں امام اور مقتدی کو چاہیے کہ وہ خود کو مسنون وظائف میں مشغول رکھیں۔
اس کے لیے کسی جگہ کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔
ان کی مرضی ہے کہ وہ نماز کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے وظائف مکمل کریں یا وہاں سے کسی دوسری جگہ پر انہیں پڑھ لیں۔
اگر وہیں اپنے وظائف پورے کرنے ہیں اور امام انہیں وعظ و نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مقتدیوں کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر یہ فریضہ سر انجام دے۔
(وفتح الباري: 433/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 848