صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ ذِكْرِ الْمَاءِ الَّذِي لَا يَنْجُسُ، وَالَّذِي يَنْجُسُ إِذَا خَالَطَتْهُ نَجَاسَةٌ
اس پانی کے ابواب کے مجموعے کا بیان جو ناپاک نہیں ہوتا اور وہ پانی جو نجاست ملنے سے ناپاک ہو جاتا ہے
71. (71) بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ لِلَّفْظَةِ الْمُجْمَلَةِ الَّتِي ذَكَرْتُهَا
گذشتہ مجمل روایت کی مفسرروایت کا بیان
حدیث نمبر: 92
نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَمُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ ، وَأَبُو الأَزْهَرِ حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، نا الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، حَدَّثَهُمْ، أَنَّ أَبَاهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، حَدَّثَهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْمَاءِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ الدَّوَابِّ وَالسِّبَاعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ، لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ" . هَذَا حَدِيثُ حَوْثَرَةَ. وَقَالَ مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَقَالَ أَيْضًا:" لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ". وَأَمَّا الْمُخَرِّمِيُّ، فَإِنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ مُخْتَصَرًا، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ"، وَلَمْ يَذْكُرْ مَسْأَلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَاءِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کے متعلق پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے (پانی پینے کے لئے) آتے جاتے رہتے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو مٹکے ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوتا۔“ یہ موثرہ کی روایت ہے۔ موسٰی بن عبدالرحمٰن نے اپنی روایت میں «حدث» کی بجائے «عن» بیان کیا ہے۔اور «لم يَحْمِلْ الخُبَثَ» کی بجائے «لَم يُنْجِسْهُ شَيٌءُٗ» ”اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ (امام صاحب کہتے ہیں) مخرمی نے ہمیں مختصر روایت بیان کی ہے، اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب پانی دو مٹکے ہو تو ناپاک نہیں ہوتا “ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانی اور اس پر آنے جانے والے پرندوں اور چاپائیوں کے متعلق سوال کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: ارواء الغليل: 23، صحيح ابي داود: 59، 56، سنن الترمذي: كتاب الطهارة: باب منه أخر، رقم الحديث: 67، سنن ابن ماجه: 517، سنن الدارمي: 732، و سنن نسائي: 52، والبيهقي فى الكبرىٰ: رقم: 1162»
صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نمبر 92 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 92
فوائد:
➊ یہ حدیث دلیل ہے کہ دو مٹکے سے زائد پانی میں اگر نجاست گر پڑے تو وہ محض نجاست واقع ہونے سے ناپاک نہیں ہوتا، بلکہ اس میں نجاست سمونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، البتہ اگر دو مٹکے سے زائد پانی میں اتنی نجاست گرے کہ تینوں اوصاف یعنی رنگ، بو، ذائقہ، میں سے کوئی وصف تبدیل ہو جائے تو وہ پانی نجس ہو جائے گا، نیز دو مٹکوں سے کم پانی میں محض نجاست واقع ہونے سے وہ پانی ناپاک ہو جاتا ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما مجاہد، شافعیہ، احناف احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور اہل بیت میں سے ہادی موید باللہ ابو طالب اور ناصر کا موقف ہے یہ قلیل (دو مٹکوں سے کم) پانی مجرد نجاست واقع ہونے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔ ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
1. «وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ» ”اور گندگی ترک کر دیجئے۔“ [المدثر: 5]
2. نیند سے بیدار ہو کر تین مرتبہ ہاتھ دھونے کی روایت۔ [ابن خزيمه: 99]
3. وہ روایت جس میں بیان ہے کہ کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا فرض ہے۔ [ابن خزيمه: 90]
4. کھڑے پانی میں کوئی پیشاب نہ کرے۔ [ابن خزيمه: 90]
5. حدیث الباب۔
6. مسند احمد ابو یعلی طبرانی اور مستخرج ابونعیم کی مرفوع روایت کہ اپنے دل سے فتویٰ طلب کر خواہ تجھے مفتیان کرام کوئی فتویٰ دیں۔
7. نسائی، احمد، ابن حبان، حاکم اور ترمذی میں مروی حدیث کہ شک ترک کر دیجئے حتٰی کہ شک باقی نہ رہے۔
ان علماء کا موقف ہے کہ مذکورہ بالا احاديث «الْمَاءُ طُهُورٌ لا يُنجسه شيء» کی تخصیص کرتی ہیں کہ دو مٹکے سے زائد پانی میں جب تک اتنی نجاست نہ گرے جو اس کے رنگ، بو اور ذائقہ کو تبدیل کر دے، پانی ناپاک نہیں ہوتا اور دومٹکوں سے کم پانی میں محض نجاست گرنے سے پانی نجس ہو جاتا ہے۔
[نيل ولا وطار: 39/1]
➋ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں: یہ مسئلہ صریح دلیل سے ثابت ہے کہ دو مٹکوں کی مقدار کے برابر پانی میں نجاست گرنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوتا لیکن نجاست واقع ہونے سے اس کے اوصاف تبدیل ہو جائیں تو پانی ناپاک ہو جاتا ہے خواہ اس کی مقدار کثیر ہی ہو۔ اور دو مٹکوں سے کم پانی میں مجرد نجاست گرنے سے وہ پانی ناپاک ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے اوصاف تبدیل نہ ہی ہوں، نیز نجاست واقع ہونے سے جس پانی کے اوصاف تبدیل ہو جائیں وہ نجس ہو جاتا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ابن منذر بیان کرتے ہیں۔ اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ قلیل و کثیر پانی میں اتنی نجاست واقع ہو جائے، جو اس کے ذائقے رنگ یا بو کو تبدیل کر دے تو وہ پانی اس حالت میں ہمیشہ نجس رہتا ہے۔
[المغنى مع الشرح الكبير: 53/1]
➌ ابن قدامہ حنبلی بیان کرتے ہیں: قلتین (دومٹکوں) کی تحدید دلیل ہے کہ دو مٹکوں سے قلیل مقدار میں پانی (نجاست گرنے سے) نجس ہو جاتا ہے کیونکہ اگر دو مٹکوں کے برابر پانی اور دو مٹکوں سے کم پانی کا حکم مساوی ہوتا تو تحدید چنداں مفید نہ تھی۔ [المغنى مع الشرح الكبير: 54/1]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 92