صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الِاسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ.
پانی سے استنجا کرنے کے ابواب کا مجموعہ
66. (66) بَابُ ذِكْرِ اسْتِنْجَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَاءِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پانی سے استنجا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 87
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نا شُعْبَةُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ الْخَلاءَ فَأَحْمِلُ أَنَا وَغُلامٌ نَحْوِي إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ وَغَيْرِهِ، فَيَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اُٹھا کر لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی سے استنجا کرتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء: 150، صحيح مسلم: كتاب الطهارة: باب الاستنجاء بالماء من التبرز: 271، سنن النسائي: 45، مسند احمد: 171/3 203، 259، 284، والدارمي: 675»
صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نمبر 87 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 87
فوائد:
➊ قضائے حاجت کے لیے اتنا دور جانا کہ انسان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ مستحب عمل ہے۔
➋ فاضل شخص کا ذاتی ضرورت کے لیے اپنے رفقاء سے خدمت لینا جائز ہے اور صالحین اور اہل فضل کی بطور تبرک خدمت کرنا جائز ہے۔
➌ پانی سے استنجا کرنا جائز و مستحب ہے اور پتھروں پر اکتفا کرنے کے بجائے پانی سے استنجا افضل ہے۔ پھر اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے لیکن جمہور سلف و خلف کا موقف اور جمیع مفتیان کا اجماع ہے کہ استجا میں پانی اور پتھر (دونوں چیزوں کا استعمال) افضل ہے چنانچہ تخفیف نجاست کے لیے اولاََ پتھر استعمال کیے جائیں پھر پانی بہایا جائے، پھر استنجا کرنے والا اگر دونوں (پانی اور پتھر) میں سے کسی ایک چیز پر اکتفا کرنا چاہے تو حسب منشا کسی ایک چیز پر اکتفا کر سکتا ہے، خواہ دوسری چیز موجود ہو یا نہ۔ چنانچہ پانی کی موجودگی میں پتھر پر کفایت کرنا جائز ہے اور اس کا عکس بھی درست ہے۔ لیکن اگر (پانی اور پتھروں میں سے) کسی ایک چیز پر اکتفا کرنا ہو تو پانی افضل ہے؟ کیونکہ پانی موضع نجاست کی حقیقی صفائی کرتا ہے جب کہ پتھر سے کلی طہارت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ ان سے نجاست کی تخفیف ہوتی ہے اور اتنی نجاست میں نماز پڑھنا مباح ہے۔
[نووي: 162/3]
➍ نیز مسند بزار کی وہ روایت جس میں اہل قبا کا یہ عمل منقول ہے کہ ہم ڈھیلوں کے بعد پانی استعمال کرتے ہیں، ضعیف ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 87