صحيح ابن خزيمه
كِتَابُ: الْوُضُوءِ
وضو کے متعلق ابواب
8. (8) بَابُ نَفْيِ قَبُولِ الصَّلَاةِ بِغَيْرِ وُضُوءٍ، بِذِكْرِ خَبَرٍ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسِّرٍ.
وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی، اس کے متعلق مجمل غیر مفسر حدیث کا بیان
حدیث نمبر: 8
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الذَّارِعُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ . ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، قَالُوا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ بُنْدَارٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: مَرِضَ ابْنُ عَامِرٍ فَجَعَلُوا يُثْنُونَ عَلَيْهِ، وَابْنُ عُمَرَ سَاكِتٌ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَسْتُ بِأَغَشِّهِمْ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلا صَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ"
مصعب بن سعد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابن عامر بیمار ہو گئے، تو لوگ ان کی تعریف کرنے لگے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خاموش رہے۔ پھر اُنہوں نے فرمایا کہ سنو، میں ان سے زیادہ دھوکہ دینے والا نہیں ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ طہارت (وضو) کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور نہ خیانت (کے مال) سے صدقہ قبول کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة، رقم: 224، مسند احمد، رقم: 4700، سنن ابن ماجه: 272، احمد 20/2، 51، 27 -73/3»
صحیح ابن خزیمہ کی حدیث نمبر 8 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 8
فوائد:
➊ «أمَا إِنِّى لَسْتُ بِأَغَشِهِم: .......» ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اس موقع پر یہ الفاظ کہنا کہ میں ان سے زیادہ دھوکا دینے والا نہیں ہوں۔ مقصود ان لوگوں کے اس فعل پر زجر و توبیخ تھا جو ابن عامر کی تعریف و توصیف اور مدح سرائی کر رہے تھے کیونکہ ایسے وقت میں اسے آخرت، رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار کی تلقین کرنے کی ضرورت تھی اس لیے کہ وہ شخص اپنی مدح سرائی پر اپنے گناہوں کی معافی، تو بہ و استغفار سے غافل نہ ہو جائے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سن رکھی تھی کہ اذا «رأيتم المداحين فاحثوا فى وجوههم التراب» ”جب تم لوگوں کو مدح سرائی کرتے دیکھو تو ان کے چہرے مٹی سے بھر دو.“ ابن عمر رضی اللہ عنہما با قاعدہ اس پر عمل کرتے تھے۔
[ديكهيں: الادب الــمـفــرد للبخارى رقم: 340، صحيح ابن حبان: 510/7، رقم: 5740]
➋ پاکیزگی سے مراد وضوء اور غسل ہے نماز کے لیے شرط ہے کہ نمازی حدث اصغر، حدث اکبر اور ظاہری نجاست سے پاک ہو۔ ظاہری نجاست دھونے سے، حدث اصغر وضوء سے اور حدث اکبر غسل سے دور ہوتا ہے ”حدث“ سے مراد انسان کا ایسی حالت میں ہونا ہے جس سے وضو یا غسل کرنا ضروری ہو، جیسے باوضو شخص کی ہوا خارج ہو جائے یا وہ قضائے حاجت کر لے تو اس کا وضو برقرار نہیں رہتا۔ یہ حالت حدث اصغر کہلاتی ہے۔ اور اگر بیوی سے ہم بستر ہوا ہے یا ویسے ہی اسے احتلام ہو گیا ہے۔ تو یہ حالت حدث اکبر کہلاتی ہے۔ ایسی حالت میں غسل فرض ہے۔ قبول نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ثواب نہیں ملتا اور اگر وہ فرض نماز ہے تو انسان کے ذمہ اس کی ادائیگی باقی رہتی ہے۔ ”خیانت کے مال کے“ حدیث میں لفظ غلول استعمال ہوا ہے اس سے مراد مال غنیمت میں کی ہوئی خیانت ہے۔ یعنی جہاد میں کافروں سے ہونے والے مال غنیمت کے مجاہدین میں باقاعدہ تقسیم ہونے سے پہلے اگر کوئی مجاہد اس میں سے کوئی چیز اپنے قبضے میں رکھتا ہے۔ تو یہ مسلمانوں کے اجتماعی مال میں خیانت ہے۔ جو بہت بڑا گناہ ہے۔ اس طریقے سے حاصل ہونے والا مال حرام کمائی میں شامل ہے۔ لہذا اس کو اگر نیکی کے کسی کام میں خرچ کیا جائے تو وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ یعنی جس طرح مال کو خرچ کرتے وقت حلال و حرام مصرف کا خیال رکھنا ضروری ہے اس طرح مال کے حصول میں حلال و حرام میں تمیز کرنا ضروری ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 8
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ ڈاكٹر عبد الرحمٰن فريوائي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذي، تحت الحديث1
´وضو (طہارت) کے بغیر نماز مقبول نہ ہونے کا بیان۔3`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 1]
اردو حاشہ:
1؎:
طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے،
یعنی نماز کے لیے حدثِ اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے،
نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدَثوں سے پاکی (معنوی پاکی) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی (مکان،
بدن اور کپڑا کی پاکی) بھی ضروری ہے،
نیز دیگر شرائط نماز بھی،
جیسے رو بقبلہ ہونا،
یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر نماز ہو جائیگی۔
2؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض،
یا نماز جنازہ۔
3؎:
”یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے“ اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو،
یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہؓ کی ہے جو صحیحین میں ہے (بخاری:
الوضوء باب 135/2 ومسلم:
الطہارۃ 275/2) اور مؤلف کے یہاں بھی آرہی ہے (رقم: 76) نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذیؒ کے اس قول ”اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے“ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ اُن صحابہ سے بھی روایت ہے،
بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ اُن صحابہ سے بھی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 535
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ابنِ عامر کے پاس ان کی بیماری کی عیادت کے لیے گئے۔ ابن عامر نے کہا: اے ابنِ عمر! کیا آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کریں گے؟ عبداللہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے: ”کوئی نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی صدقہ خیانت کی صورت میں۔“ اور آپ بصرہ کے حاکم رہ چکے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:535]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
غُلُولٌ:
اصل میں غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں،
پھر اس کا اطلاق ہر قسم کی خیانت پر ہونے لگا۔
فوائد ومسائل:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے زجر وتوبیخ کے لیے ابن عامر سے کہا:
آپ حاکم بصرہ رہ چکے ہیں اور حاکم سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجاتی ہے،
اور بیت المال کے سلسلہ میں بھی کوتاہی ہو سکتی ہے،
اس لیے ایسے فرد کے بارے میں دعا کی قبولیت مشکل ہوتی ہے،
اس لیے آپ توبہ واستغفار کریں اور حق تلفی کے ازالہ کی کوشش کریں،
تاکہ تیرے حق میں دعا قبول ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 535