۔ عبید اللہ کے والجد معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ابن اشعث کے زمانے میں ایک شخص (حکم نے اس کا نام لیا) کوفہ (کے اقتدار) پر قابض ہو گیا، اس نے ابو عبیدہ بن عبد اللہ (بن مسعود) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، وہ نماز پڑھاتے تھے، جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر کھڑے ہوتے کہ میں یہ دعا پڑھ لیتا: ” اے اللہ! ہمارب! حمد تیرے ہی لیے ہے جس سے آسمان و زمین بھر جائیں اور کے سوا جو چیز تو چاہے بھر جائے۔ اے عظمت وثنا کے سزا وار! جو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک لے اسے کوئی بھی دینے والا نہیں اور نہ ہی کسی مرتبے والے کو تیرے سامنے اس کا مرتبہ نفع دے سکتا ہے۔“ (صرف تیری رحمت ہے جو فائدہ دے سکتی ہے۔) حکم نے کہا: میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (قیام)، آپ کا رکوع اور جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے، آپ کے سجدے اور دونوں سجدوں کے درمیان (والا بیٹھنے) کا وقفہ تقریباً برابر تھے۔ شعبہ نے کہا: میں نے اس کا ذکر عمرو بن مرہ سے کیا تو انہوں نے کہا: میں نے عبد الرحمان بن ابی لیلیٰ کو دیکھا ہے، ان کی نماز اس طرح نہیں ہوتی تھی۔ (وہ ثقہ تھے۔ ان کی روایت قابل اعتماد ہے چاہے وہ اس پر پوری طرح عمل نہ کر سکتے ہوں
حضرت حکم سے روایت ہے کہ ابن اشعت کے زمانہ میں ایک شخص کوفہ پر غالب آ گیا، (حکم نے اس کا نام لیا تھا، اور وہ مطر بن ناجیہ تھا) اس نے ابو عبیدہ بن عبد اللہ کو لوگوں کی امامت کروانے کا حکم دیا تو وہ نماز پڑھاتے تھے، جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ میں یہ دعا پڑھ لیتا: اے اللہ! تو اس قدر حمد و ستائش کا حقدار ہے جس سے سب آسمان، زمین اور ان سے جو چیز تو چاہے بھر جائے، اے ثنا اور مجد (عظمت و بزرگی) کے لائق جو تو دے، اس کو کوئی روک نہیں سکتا، اور جو تو نہ دینا چاہے (روک لے) وہ کوئی بھی نہیں دے نہیں سکتا، اور نہ کسی محنت و کوشش کرنے کی کوشش تیرے مقابلہ میں اس کو فائدہ دے سکتی ہے یا کسی عظمت و بزرگی والے کی عظمت و دولت تیرے مقابلہ میں اس کو نفع دے سکتی ہے۔ (جَد دولت و تونگری یا عظمت) حکم کہتے ہیں میں نے یہ حدیث عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ کو سنائی تو اس نے کہا: میں نے براء بن عازب ؓ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (قیام) آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان والا جلسہ یہ سب تقریباً برابر تھے۔ شعبہ کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث عمرو بن مرہ کو بتائی تو اس نے کہا، میں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ کو دیکھا ہے، وہ اس کیفیت سے نماز نہیں پڑھتے تھے۔