● صحيح البخاري | 4717 | عبد الرحمن بن صخر | فضل صلاة الجميع على صلاة الواحد خمس وعشرون درجة تجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الصبح |
● صحيح البخاري | 477 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجميع تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه خمسا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن وأتى المسجد لا يريد إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفعه الله بها درجة وحط عنه خطيئة حتى يدخل المسجد إذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت تحبسه وتصلي يعني عليه الملائكة |
● صحيح البخاري | 647 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسا وعشرين ضعفا إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم خرج إلى المسجد لا يخرجه إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة وحط عنه بها خطيئة إذا صلى لم تزل الملائكة تصلي عليه ما دام في مصلاه اللهم صل عليه |
● صحيح البخاري | 2119 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة أحدكم في جماعة تزيد على صلاته في سوقه وبيته بضعا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم أتى المسجد لا يريد إلا الصلاة لا ينهزه إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفع بها درجة أو حطت عنه بها خطيئة الملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه الذي يصلي فيه |
● صحيح مسلم | 1475 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة تعدل خمسا وعشرين من صلاة الفذ |
● صحيح مسلم | 1506 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه بضعا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم أتى المسجد لا ينهزه إلا الصلاة لا يريد إلا الصلاة فلم يخط خطوة إلا رفع له بها درجة وحط عنه بها خطيئة حتى يدخل المسجد إذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت |
● صحيح مسلم | 1473 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة في الجميع على صلاة الرجل وحده خمسا وعشرين درجة تجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر |
● صحيح مسلم | 1472 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا |
● صحيح مسلم | 1476 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة مع الإمام أفضل من خمس وعشرين صلاة يصليها وحده |
● جامع الترمذي | 216 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في الجماعة تزيد على صلاته وحده بخمسة وعشرين جزءا |
● سنن أبي داود | 559 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه خمسا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن الوضوء وأتى المسجد لا يريد إلا الصلاة ولا ينهزه إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفع له بها درجة وحط عنه بها خطيئة حتى يدخل المسجد إذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت الصلا |
● سنن النسائى الصغرى | 487 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة الجمع على صلاة أحدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا يجتمع ملائكة الليل والنهار في صلاة الفجر |
● سنن النسائى الصغرى | 839 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحدكم وحده خمسا وعشرين جزءا |
● سنن ابن ماجه | 786 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه بضعا وعشرين درجة |
● سنن ابن ماجه | 787 | عبد الرحمن بن صخر | فضل الجماعة على صلاة أحدكم وحده خمس وعشرون جزءا |
● صحيح البخاري | 648 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءا تجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 97 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة افضل من صلاة احدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا |
● المعجم الصغير للطبراني | 199 | عبد الرحمن بن صخر | تزيد صلاة الجماعة على صلاة الرجل وحده خمسا وعشرين |
● المعجم الصغير للطبراني | 223 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة الجميع على صلاة الفذ بخمس وعشرين صلاة |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 97
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 287، ك 8 ب 1 ح 2، التمهيد 316/6، الاستذكار: 256
● وأخرجه مسلم 649، من حديث مالك به ورواه البخاري 648، من حديث الزهري عن سعيد بن المسيب و أبى سلمة عن أبى هريره به نحو المعني مطولاً]
تفقه:
➊ صحیح العقیدہ مسلمانوں کی نماز باجماعت میں لوگوں کی جتنی اکثریت ہو اتنی افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وصلاته مع الرجلين ازكٰي من صلاته مع الرجل وما كثر فهو اَّحب إلى الله» اور آدمی کی دو آدمیوں کے ساتھ نماز ایک آدمی کے ساتھ نماز سے بہتر ہے اور جتنی کثرت ہو تو وہ اللہ کے ہاں زیادہ محبوب ہے۔ [مسند أحمد 140/5، وسنده حسن، سنن ابي داود: 554، و صححه ابن خزيمه، وبن حبان، الموارد: 429 وللحديث لون آخر عند ابن ماجه: 790 وغيره وسنده حسن]
تنبیہ: اس حدیث پر حافظ ابن عبدالبر کی جرح مردود ہے۔
➋ جماعت کے بغیر اکیلے شخص کی نماز ہو جاتی ہے لیکن باجماعت پڑھنا افضل ہے۔
➌ بعض روایت میں ستائیس (27) درجے ثواب کا ذکر ہے۔ ان روایات میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ہر شخص کو اس کی نیت، خلوص، اتباع سنت اور بہترین عمل کے مطابق اجر ملے گا۔ ان شاء اللہ۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 11
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 477
´ کسی جگہ کا بند ہونا نماز سے نہیں روکتا`
«. . . وَصَلَّى ابْنُ عَوْنٍ فِي مَسْجِدٍ فِي دَارٍ يُغْلَقُ عَلَيْهِمُ الْبَابُ . . .»
”. . . اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: Q477]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عون کا ایک اثر ذکر فرمایا ہے بعض کا کہنا ہے کہ یہ اثر معلق ذکر فرمایا ہے تعلیق ترجمہ کی دلیل اور مناسبت باب کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی جگہ کا بند ہونا نماز سے نہیں روکتا اس لیے کہ ابن عون نے بند حویلی میں نماز پڑھی اس بندش نے اس کے اندر مسجد بنانے کو منع نہ کیا اسی طرح بازار اگر بند ہوتا ہے تب بھی وہاں نماز درست ہے، ذیل میں جو حدیث پیش فرمائی ہے اس سے بھی ترجمۃ الباب کا مناسبت ہونا واضح ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماعت کی نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجہ زیادہ ہے۔“ جب بازار میں انفرادی نماز جائز ہے تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بالاولیٰ جائز ہوا۔
اگر غور کیا جائے تو مندرجہ بالا ترجمہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل امام قسطلانی رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ «شر البقاع أسواقها» یعنی بازار بدترین مقامات ہیں اور مساجد بہترین جگہیں۔ لہٰذا اس سے یہ امر ظاہر ہے کہ بازار میں شور و غل، مکر و فریب، جھوٹی قسموں کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ جگہ شر اور فساد کا مرکز ہے۔ لہٰذا اس امر سے کسی کو یہ وھم نہ لگ جائے کہ بازار میں نماز ادا کرنا یا مسجد کا بنانا جائز نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ بازار میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور مسجد السوق کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا کہ بازار میں نماز کی جگہ مقرر کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے ابن عون کا اثر ذکر فرمایا تاکہ مسئلہ واضح ہو جائے۔
◈ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بازار نماز کی جگہیں نہیں ہیں، مگر ان میں نماز ادا کرنا درست و جائز ہے۔ جس طرح دوسرے مقامات میں نماز جائز ہے۔“
مزید فرماتے ہیں:
«وكذالك الصلاة فى المسجد المحجور فانه جائز فنبه عليه بحديث ابن عمر» [مناسبات تراجم البخاري، ص47]
اسی طرح سے محجور مسجد میں نماز درست ہے جس کی خبر حدیث ابن عمر سے ہوتی ہے۔
تنبیہ:
مندرجہ بالا اثر میں ابن عمر نہیں ہیں بلکہ ابن عون ہیں، بدرالدین بن جماعۃ نے یہ حوالہ صاحب المتواری ابن المنیر سے نقل فرمایا ہے، جب کہ ان سے بھی وہاں سھو ہوا ہے۔ کیونکہ صحیح بخاری کے نسخے میں ابن عمر نہیں ہیں بلکہ ابن عون ہیں۔
فائدہ:
«وقال الكرماني: لعل غرض البخاري منه الرد على الحنفية قالوا بامتناع اتخاذ المسجد فى الدار المحجوبة عن الناس والذي فى كتب الحنفية الكراهية لا التحريم .» [فتح الباري، ج1، ص743]
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کو احناف کا رد مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ گھر میں جہاں لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہ ہو مسجد بنانا جائز نہیں حالانکہ حنفیہ کی کتب میں اسے مکروہ لکھا ہے نہ کہ حرام۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 164
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 487
´نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماعت کی نماز تمہاری تنہا نماز سے پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ۱؎ رات اور دن کے فرشتے نماز فجر میں اکٹھا ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو آیت کریمہ «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا» ۲؎ پڑھ لو“ (الاسراء: ۲۸)۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 487]
487 ۔ اردو حاشیہ:
➊”پچیس گنا“ کیونکہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے انسان کو بہت سے نیک کام زائد کرنے پڑتے ہیں، مثلاً: گھر سے نماز کے ارادے سے نکلنا، دعا پڑھنا، مسجد کی طرف چلنا، راستے میں ملنے والوں سے سلام و جواب کرنا، مریض کی بیمارپرسی کرنا، راستے کوصاف رکھنا، کسی کو راستہ بتانا اور عاجز کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔
➋ویسے تو فرشتے ہر نماز میں حاضر ہوتے ہیں مگر چونکہ فجر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا خصوصی ذکر فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 487
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث786
´جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر میں یا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ درجہ افضل ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 786]
اردو حاشہ:
(1)
دنیا میں جو ہمیں عمل کی مہلت ملی ہے وہ بہت مختصر سی ہے۔
یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ اس نے بعض اعمال کا ثواب بہت زیادہ رکھا ہے۔
ہمیں اللہ کی اس رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے نماز ہمیشہ باجماعت ادا کرنی چاہیے
(2)
اس حدیث میں (بِضْعًا وَعِشْرِينَ)
کا لفظ ہے۔
بضع کا لفظ تین سے نو تک بولا جاتا ہے۔
اس کی وضاحت اگلی حدیثوں سے ہوتی ہے جن میں پچیس گنا اور ستائیس گنا کے الفاظ وارد ہیں۔
(3)
اس عدد کا مطلب یہ ہے کہ ثواب اس حد تک پہنچ سکتا ہے۔
اگر نماز میں توجہ خشوع و خضوع اور اطمینان میں نقص ہوگا تو ثواب میں بھی کمی ہوجائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 786
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 216
´باجماعت نماز کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی باجماعت نماز اس کی تنہا نماز سے پچیس گنا بڑھ کر ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 216]
اردو حاشہ:
1؎:
پچیس اور ستائیس کے مابین کوئی منافات نہیں ہے،
پچیس کی گنتی ستائیس میں داخل ہے،
یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ نے پچیس گنا ثواب کا ذکر کیا ہو بعد میں ستائیس گنا کا،
اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فرق مسجد کے نزدیک اور دور ہونے کے اعتبار سے ہے اگر مسجد دور ہو گی تو اجر زیادہ ہو گا اور نزدیک ہو گی تو کم،
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کمی و زیادتی خشوع و خضوع میں کمی و زیادتی کے اعتبار سے ہو گی،
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرق جماعت کی تعداد کی کمی و زیادتی کے اعتبار سے ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 216
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1475
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: باجماعت نماز پڑھنا، اکیلے کی پچیس نمازوں کے برابر ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1475]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الفذ:
وحده یعنی اکیلے اور منفرد کے معنی میں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1475
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1506
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے اکیلے گھر میں یا اکیلے بازار میں نماز پڑھنے سے بیس سے زائد درجہ ثواب کا باعث ہے کیونکہ جب کوئی نمازی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر وہ مسجد میں آتا ہے اور صرف نماز ہی کی خاطر اٹھتا ہے۔ صرف نماز ہی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، اس کے بدلہ میں اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1506]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لَايَنْهَزُهُ:
اس کو نمازکےسوا کوئی چیزنہیں اٹھاتی،
آگے لَايُرِيْدُ إِلَّاالصَّلٰوةَ:
اس کی تفسیر وتوضیح ہے کہ وہ صرف نماز ہی کا ارادہ کرتا ہے۔
(2)
خُطْوَة:
پیش کے ساتھ،
قدم۔
(3)
خُطْوَة:
زبر کے ساتھ،
ایک قدم اٹھانا۔
(4)
مَالَمْ يُؤْذِ:
کی تفسیر ہے مَالَمْ يُحْدِثْ:
یعنی ہوا خارج کرکے حاضرین (فرشتوں،
انسانوں)
کو اذیت وتکلیف پہنچانا،
یا اس(مسجد)
میں خلاف شریعت کسی حرکت کا ارتکاب کرنا۔
فوائد ومسائل:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے اور وہاں اس کے فوائد گزر چکے ہیں مقصد یہ ہے کہ دور کی مسافت سے آنے والے نمازی کو قدم زیادہ اٹھانے پڑتے ہیں اس لیے اس کو اجرو ثواب بھی زیادہ ملتا ہے اور انسان جب تک مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھتا ہے وہ نماز کے حکم میں ہوتا ہے اور فرشتوں کی دعاؤں کا حقدارٹھہرتا ہے اس لیے اس کو مسجد میں ادب و احترام اور وقار کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1506
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2119
2119. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی ایک کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے بازار اور گھر میں نماز پڑھنے سے بیس سے کئی درجے زیادہ باعث ثواب ہے یہ اس لیے کہ جب وہ وضوکرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتاہے۔ پھر مسجد میں آتا ہے اور اس کا ارادہ صرف نماز پڑھنے کا ہوتا ہے اور اس کو نماز ہی مسجد میں لے جاتی ہے تو ایسے حالات میں وہ قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کے باعث ایک درجہ بلند ہوتا ہے، نیز اس کے بدلے میں اس کا ایک گناہ بھی معاف ہوتا ہے اور فرشتے تو مسلسل اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے، جس پر اس نے نماز پڑھی ہو۔ فرشتے کہتے ہیں۔ اے اللہ!اس شخص پر اپنی رحمت بھیج، اے اللہ! اس پر رحم فرما، جب تک وہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو اذیت نہ پہنچائے۔“ نیز آپ نے فرمایا: ”جتنی دیر تک آدمی نماز کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2119]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں بازاروں کا ذکر آیا۔
اور بوقت ضرورت وہاں نماز پڑھنے کا بھی ذکر آیا۔
جس سے ثابت ہوا کہ اسلام میں بازاروں کا وجود قائم رکھا گیا اور وہاں آنا جانا، خرید و فروخت کرنا بھی، تاکہ امور تمدنی کو ترقی حاصل ہو، مگر بازاروں میں جھوٹ، مکر و فریب بھی لوگ بکثر ت کرتے ہیں اس لحاظ سے بازار کو بدترین زمین قرار دیا گیا، باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2119
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4717
4717. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "اور فجر کا قرآن پڑھنا، یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4717]
حدیث حاشیہ:
اس میں رات اور دن کے دونوں فرشتے حاضر ہوتے اور پھر اپنی اپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4717
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 477
477. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں: اے اللہ اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:477]
حدیث حاشیہ:
بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔
خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔
حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔
جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 477
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 647
647. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ”آدمی کا باجماعت نماز ادا کرنا اس کے اپنے گھر اور اپنے بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب ہے اور یہ اس طرح کہ جب وہ عمدہ طریقے سے وضو کر کے مسجد کی طرف روانہ ہو اور محض نماز کے لیے چلے تو جو قدم بھی اٹھائے گا اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند ہو گا اور ایک گناہ بھی معاف ہو گا۔ پھر جب وہ نماز ادا کر لے گا تو جب تک اپنی جائے نماز پر رہے گا، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہیں گے کہ یا اللہ! تو اس پر اپنا فضل و کرم فرما، یا اللہ! تو اس پر رحم و شفقت فرما۔ اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ گویا نماز ہی میں رہتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:647]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں پچیس درجہ اورابن عمر ؓ کی حدیث میں ستائیس درجہ ثواب باجماعت نماز میں بتایاگیا ہے۔
بعض محدثین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابن عمر ؓ کی روایت زیادہ قوی ہے۔
اس لیے عدد سے متعلق اس روایت کو ترجیح ہوگی۔
لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح مسلک یہ ہے کہ دونوں کو صحیح تسلیم کیا جائے۔
باجماعت نماز بذات خود واجب یا سنت مؤکدہ ہے۔
ایک فضیلت کی وجہ تو یہی ہے۔
پھر باجماعت نماز پڑھنے والوں کے اخلاص وتقویٰ میں بھی تفاوت ہوگا اور ثواب بھی اسی کے مطابق کم وبیش ملے گا۔
اس کے علاوہ کلام عرب میں یہ اعداد کثرت کے اظہار کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔
گویا مقصود صرف ثواب کی زیادتی کو بتانا تھا۔
(تفہیم البخاری)
ابن دقیق العید ؒ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مسجد میں جماعت سے نمازادا کرنا گھروں اوربازاروں میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے گو بازار یا گھر میں جماعت سے نماز پڑھے، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں گھر میں اوربازار میں نماز پڑھنے سے وہاں اکیلے پڑھنا مراد ہے۔
واللہ اعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:477
477. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں نماز ہی کے ارادے سے آئے تو مسجد میں پہنچنے تک جو قدم اٹھاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب وہ مسجد میں پہنچ جاتا ہے تو جب تک نماز کے لیے وہاں رہتا ہے، اسے برابر نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ اور جب تک وہ اپنے اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے ہیں: اے اللہ اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما، بشرطیکہ ہوا خارج کر کے دوسروں کو تکلیف نہ دے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:477]
حدیث حاشیہ:
1۔
مساجد کی دو اقسام ہیں:
ایک تو اصطلاحی مساجد ہیں جن میں نماز پڑھنے کے متعلق اذن عام ہوتا ہے اور وہ تمام مسلمانوں کے لیے وقف کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دوسری جگہ وہ مساجد ہوتی ہیں جو صرف لغوی طور پر مساجد کہلاتی ہیں جیسا کہ گھر میں مسجد بنالی جاتی ہے یا بازار میں کسی دکان کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ متعین کرلی جاتی ہے۔
جب بازار بند ہوگیا تو اس کے ساتھ مسجد بھی بند ہوجاتی ہے۔
عہد نبوی میں بھی بازاروں کی مساجد اسی طرح ہوتی تھیں کیونکہ وہ بازار آبادی سے باہر ہوتے تھے۔
عارضی طور پر مسجد بنالی جاتی،جب بازار ختم ہوجاتا تو مسجد بھی ختم ہوجاتی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان میں تنہا اور باجماعت نماز کے ثواب کا فرق بیان کرناچاہتے ہیں یعنی باجماعت نماز میں بانسبت تنہایا بازار میں نماز پڑھنے کے پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔
بازار کی مساجد میں نماز تو ہوجاتی ہے لیکن انسان باجماعت نماز کے اضافی ثواب سے محروم رہتاہے،چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
مسجد سوق سے مراد ہو جگہ ہے جسے بازار والے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کریں۔
اس کے علاوہ محلے کی مسجد اور ہوتی ہے اس کےلیے تو ہمیشہ مسجد کا حکم ہے،یعنی بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے کا جواز ثابت کرتا ہے۔
کہ وہاں نماز ہوجاتی ہے لیکن اس دور میں آبادی کےاندر بازار اور مارکیٹیں ہیں اور بعض مقامات میں کچھ دکاندار مل کر مسجد کے لیے جگہ خرید کر وہاں مسجد بنالیتے ہیں۔
یعنی وہ اصطلاحی مسجد بناتے ہیں۔
اس میں باقاعدہ اذان اور جماعت بلکہ بعض میں جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے۔
اگر کوئی بازار میں اس طرح کی مساجد میں نماز ادا کرے گا تو وہ پورے اضافی ثواب کا حقدار ہوگا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد سوق کا عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ بازار شوروشغب،خریدوفروخت اور جھوٹی قسموں کی جگہ ہے اور اسے شرالبقاع کہا گیا ہے،اس بنا پر وہم ہوسکتا ہے کہ شاید ایسے مقام پر نماز جائز نہ ہو،اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
2۔
ابن بطال کہتے ہیں:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو بازار کے متعلق آنے والی حدیث شرالبقاع کی وجہ سے یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا وہاں نماز پڑھنا ناجائز ہو،اس لیے انھوں نے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں بازار کے اند رنماز پڑھنے کا ثبوت ہے۔
اگر کوئی وہاں نماز پڑھتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے گھر میں اکیلا نماز پڑھتا ہے۔
مزید برآں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب بازار میں انفرادی نماز کا جواز معلوم ہواتو بازار میں مسجد شرعی تعمیر کرنے کا جواز بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔
(شرح ابن بطال 124/1۔
)
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شارح بخاری ابن بطال نے بھی مسجد سوق سے شرعی مسجد مراد نہیں لی بلکہ درجہ اولیٰ(بدرجہ اولی)
میں لاکر بازار کی شرعی اور لغوی دونوں قسم کی مساجد میں نماز کا جوازثابت کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرعذر ہوتوگھر یا بازار میں اکیلا نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی،البتہ اضافی ثواب نہیں ملے گا اور اگر مسجد شرعی محلے یا بازار میں ہو،وہاں نماز پڑھنے سے اضافی ثواب بھی ملے گا،لہذا بازار میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔
اوربازار میں اگر مسجد شرعی ہوتو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی محلے کی مسجد کے ثواب کے برابر ہوگا۔
w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 477
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:647
647. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ”آدمی کا باجماعت نماز ادا کرنا اس کے اپنے گھر اور اپنے بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب ہے اور یہ اس طرح کہ جب وہ عمدہ طریقے سے وضو کر کے مسجد کی طرف روانہ ہو اور محض نماز کے لیے چلے تو جو قدم بھی اٹھائے گا اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند ہو گا اور ایک گناہ بھی معاف ہو گا۔ پھر جب وہ نماز ادا کر لے گا تو جب تک اپنی جائے نماز پر رہے گا، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہیں گے کہ یا اللہ! تو اس پر اپنا فضل و کرم فرما، یا اللہ! تو اس پر رحم و شفقت فرما۔ اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ گویا نماز ہی میں رہتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:647]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی داد و دہش کے چار اسباب بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭عمدہ طریقے سے وضو کرنے کو رفع درجات اور کفارۂ سیئات کا سبب قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے حتی کہ جب انسان وضو سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے تمام صغیرہ گناہ دھل جاتی ہیں۔
٭نماز کے لیے گھر سے مسجد کی طرف جتنے قدم چل کر آئے گا اسے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ایک گناہ معاف ہوگا۔
٭نماز سے فراغت کے بعد جائے نماز پر بیٹھ کر ذکرو فکر میں مشغول ہونا بھی فرشتوں کی دعائیں لینے کا بڑا سبب ہے۔
٭مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنا،اس سے وہ نماز ہی میں متصور ہوتا ہے۔
یہ وہ اس باب ہیں جو نماز باجماعت ادا کرنے سے اللہ کے فضل وکرم کا باعث ہیں۔
انھیں انفرادی نماز کے مقابلے میں اجتماعی نماز کی پچیس گنا فضیلت کے اسباب قرار نہیں دینا چاہیے، جیسا کہ حدیث کےظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:648
648. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”نماز باجماعت تنہا شخص کی نماز سے پچیس درجے میں زیادہ ہے۔ اور رات دن کے فرشتے نماز فجر میں جمع ہوتے ہیں۔“ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ”فجر میں قرآن کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:648]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں نماز فجر باجماعت ادا کرنے کی وجہ فضیلت کو بیان کیا ہے کہ اس میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔
اسی فضیلت کے پیش نطر حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تمام رات نوافل پڑھنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ نماز فجر کی جماعت میں شرکت کروں۔
(2)
یہ فضیلت نماز عصر کوبھی حاصل ہے، جیسا کہ احادیث میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔
ممکن ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر میں فرشتوں کا حاضر ہونا دو اضافی درجے ہوں جو پچیس درجات کے علاوہ ہوں، کیونکہ اس حدیث میں پچیس درجات کے بیان کے بعد مستقل طور پر اجتماع ملائکہ کا ذکر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے بعد حدیث ابن عمر ؓ کو بیان کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ نماز باجماعت انفرادی نماز کے مقابلے میں ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہیں۔
(شرح ابن بطال: 278/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2119
2119. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی ایک کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے بازار اور گھر میں نماز پڑھنے سے بیس سے کئی درجے زیادہ باعث ثواب ہے یہ اس لیے کہ جب وہ وضوکرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتاہے۔ پھر مسجد میں آتا ہے اور اس کا ارادہ صرف نماز پڑھنے کا ہوتا ہے اور اس کو نماز ہی مسجد میں لے جاتی ہے تو ایسے حالات میں وہ قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کے باعث ایک درجہ بلند ہوتا ہے، نیز اس کے بدلے میں اس کا ایک گناہ بھی معاف ہوتا ہے اور فرشتے تو مسلسل اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے، جس پر اس نے نماز پڑھی ہو۔ فرشتے کہتے ہیں۔ اے اللہ!اس شخص پر اپنی رحمت بھیج، اے اللہ! اس پر رحم فرما، جب تک وہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو اذیت نہ پہنچائے۔“ نیز آپ نے فرمایا: ”جتنی دیر تک آدمی نماز کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2119]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بازار کا ذکر آیا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کا بیان ہوا ہے، اس سے ثابت ہواکہ اسلام میں بازاروں کا وجود قائم رکھا گیا ہے۔
وہاں آنا جانا،خریدوفروخت کرنا بھی جائز ہے تاکہ تمدفی امور کو ترقی حاصل ہو مگر کچھ لوگ بازاروں میں لوٹ کھسوٹ، دھوکا، جھوٹ اور مکرووفریب کرتے ہیں،اس اعتبار سے انھیں زمین کا بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس میں بازار کا ذکر اور وہاں نماز پڑھنے کا بیان ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2119
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4717
4717. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "اور فجر کا قرآن پڑھنا، یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4717]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ فجر کی نماز کا ذکرہے لیکن اس میں عصر کی نماز کی نفی نہیں ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خوب جانتاہے:
تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں:
”جب ہم ان کے پاس گئے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس سے آئے توانھیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔
“ (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 555)
اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے۔
(باب فضل صلاة العصر)
"نماز عصر کی فضیلت" اور اس حدیث میں یہ الفاظ قابل ملاحظہ ہیں:
"دن اور رات کے فرشتے نماز فجر اور نماز عصر کے وقت جمع ہوتے ہیں۔
" بہرحال اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نماز فجر کی فضیلت کو ثابت کیا ہے، جس سے نماز عصر کی فضیلت کی نفی نہیں ہوتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4717
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 647
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اس کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کا راستہ پکڑتا ہے اور سوا نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا... [صحيح بخاري ح: 647]
فوائد:
➊ بہت سے حضرات نے ان احادیث کو باجماعت نماز فرض نہ ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ بے شک باجماعت نماز میں پچیس یا ستائیس درجے زیادہ فضیلت ہے، مگر گھر یا بازار میں نماز سے ایک نماز کا ثواب تو مل ہی جاتا ہے، حالانکہ اس سے پچھلے باب میں متعدد دلائل سے جماعت کا فرض ہونا ثابت کیا گیا ہے اور یہ کہ اذان سننے کے بعد عذر کے بغیر گھر یا بازار میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ان احادیث سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے جماعت سے رہ جائے، مثلاً نیند یا قضائے حاجت وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ شامل نہ ہو سکے اور اسے گھر یا بازار میں نماز پڑھنی پڑے تو اسے صرف ایک درجہ حاصل ہو گا جب کہ وہ مسجد میں جا کر نماز باجماعت پڑھے تو اسے پچیس یا ستائیس درجے حاصل ہوں گے۔
➋ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ بعض احادیث میں باجماعت نماز کو پچیس درجے زیادہ قرار دیا گیا ہے اور بعض میں ستائیس درجے، دونوں میں بظاہر تعارض ہے تو ان میں تطبیق کیا ہے؟ اس کے مختلف جواب دیے گئے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ستائیں پچیس کے خلاف نہیں، بلکہ ستائیس درجوں میں پچیس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے متعدد جواب ذکر کیے ہیں اور ان سب میں سے اس جواب کو ترجیح دی ہے جس کی طرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اشارہ موجود ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانے والے کو ہر قدم پر کیا اجر ملتا ہے، پھر انتظار میں کیا اجر ہے۔ اس اشارے سے شارحین حدیث نے یہ بات اخذ کی ہے کہ مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے کو پچیسں ایسی فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں جو گھر یا بازار میں پڑھنے والے کو حاصل نہیں ہوتیں۔ رہا پچیس اور ستائیں کا فرق تو وہ سری اور جہری نمازوں کے فرق کی وجہ سے ہے کہ جہری نمازوں میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے دو مزید فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں، ایک امام کی قراءت سننا اور دوسری اس کی «وَلَا الضَّالينَ» کے بعد «آمين» کہنا۔
➌ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے صرف وہ فضیلتیں منتخب کی ہیں جن کا تعلق جماعت کے ساتھ ہے اور وہ یہ ہیں:
1. جماعت کے ساتھ نماز کی نیت سے مؤذن کی اذان کا جواب دینا۔
2. اول وقت میں نماز کے لیے جلدی جانا۔
3. مسجد کی طرف سکون کے ساتھ چل کر جانا۔
4. مسجد میں داخلے کی دعا پڑھ کر داخل ہونا۔
5. مسجد میں داخل ہو کر تحیۃ المسجد ادا کرنا۔
6. جماعت کا انتظار کرنا۔
7. فرشتوں کی اس کے لیے صلاۃ اور استغفار -
8. فرشتوں کا اس کے حق میں شہادت دینا۔
9. اقامت کا جواب دینا۔
10. اقامت سن کر شیطان کے بھاگ جانے کی وجہ سے اس کے شر سے محفوظ رہنا۔
11. امام کی تکبیر تحریمہ کے انتظار میں کھڑا ہونا یا امام جس حال میں ہو اس کے ساتھ شامل ہو جانا۔
12. تکبیر تحریمہ میں امام کے ساتھ شامل ہونا۔
13. صفیں درست کرنا اور خالی جگہ پر کرنا۔
14. امام کے «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کا جواب دینا۔
15. اکثر و بیشتر سہو سے محفوظ رہنا اور امام کی سہو پر اسے متنبہ کرنا یا لقمہ دینا۔
16. خشوع کا حصول اور بے کار باتوں سے اکثر و بیشتر سلامت رہنا۔
17. عموماً گھر کی بہ نسبت ہیئت و کیفیت کا بہتر ہونا۔
18. فرشتوں کا اس کے گرد گھیرا ڈالنا۔
19. قرآن کی تجوید کی مشق اور نماز کے ارکان اور اس کی دوسری چیزوں کا علم حاصل کرنا۔
20. اسلام کے شعائر کا اظہار۔
21. عبادت کے لیے جمع ہو کر شیطان کی ناک کو مٹی میں ملانا اور اسے ذلیل کرنا، نیکی میں تعاون اور ست آدمی کا ہوشیار ہونا۔
22. نفاق کی صفت سے اور لوگوں کی اس بد گمانی سے محفوظ رہنا کہ یہ صاحب نماز نہیں پڑھتے۔
23. امام کے سلام کا جواب دینا۔
24. مسلمانوں کی اجتماعی دعا، ذکر سے فائدہ اٹھانا اور ان میں سے کم درجہ والوں کا کامل لوگوں کی برکت سے فائدہ اٹھانا۔
25. ہمسایوں کے درمیان الفت و محبت کے نظام کا قائم ہونا، نمازوں کے وقت میں مسجد میں آ کر ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہنا اور حسب مقدور ایک دوسرے کی مدد کرنا۔
یہ تمام چیزیں سری اور جہری سب نمازوں میں پائی جاتی ہیں۔ جہری نمازوں میں دو چیزیں سری نمازوں سے زیادہ ہیں:
ایک امام کی قراءت سننا،
دوسری سورۃ فاتحہ کے خاتمے پر آمین کہنا۔
ان تمام چیزوں کے متعلق کوئی نہ کوئی حکم یا ترغیب موجود ہے۔ [فتح الباري]
شیخ عبد العزیز ابن باز رحمہ اللہ نے فتح الباری کے حاشیہ میں اس پر لکھا ہے کہ ستائیس درجوں کو جہری نمازوں کے ساتھ خاص کرنے کو راجح قرار دینے میں نظر ہے۔ زیادہ ظاہر یہ بات ہے کہ ستائیس درجے سری اور جہری سب نمازوں کے لیے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا زائد عطیہ ہے جو وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کو عطا فرماتا ہے۔ گویا شیخ صاحب کے نزدیک پہلا جواب رائج ہے جو اس فائدے کے شروع میں ذکر ہوا ہے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 647