سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
58. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُجَادَلَةِ
58. باب: سورۃ المجادلہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3301
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يونس، عن شيبان، عن قتادة، حدثنا انس بن مالك، ان يهوديا اتى على النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه، فقال: السام عليكم، فرد عليه القوم، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " هل تدرون ما قال هذا؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، سلم يا نبي الله، قال: " لا، ولكنه قال كذا وكذا، ردوه علي "، فردوه، قال: قلت: السام عليكم، قال: نعم، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " عند ذلك إذا سلم عليكم احد من اهل الكتاب، فقولوا: عليك، قال: عليك ما قلت، قال: وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله سورة المجادلة آية 8 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا قَالَ هَذَا؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، سَلَّمَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا، رُدُّوهُ عَلَيَّ "، فَرَدُّوهُ، قَالَ: قُلْتَ: السَّامُّ عَلَيْكُمْ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عِنْدَ ذَلِكَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقُولُوا: عَلَيْكَ، قَالَ: عَلَيْكَ مَا قُلْتَ، قَالَ: وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ سورة المجادلة آية 8 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس ابن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس آ کر کہا: «السام عليكم» (تم پر موت آئے) لوگوں نے اسے اس کے «سام» کا جواب دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، اے اللہ کے نبی! اس نے تو سلام کیا ہے، آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس نے تو ایسا ایسا کہا ہے، تم لوگ اس (یہودی) کو لوٹا کر میرے پاس لاؤ، لوگ اس کو لوٹا کر لائے، آپ نے اس یہودی سے پوچھا: تو نے «السام عليكم» کہا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت سے یہ حکم صادر فرمایا دیا کہ جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں «عليك ما قلت» (جو تم نے کہی وہی تمہارے لیے بھی ہے) کہہ دیا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی «وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله» یہ یہودی جب تمہارے پاس آتے ہیں تو وہ تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا ہے (المجادلہ: ۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1305) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 117)

   صحيح البخاري6926أنس بن مالكالسام عليك قالوا يا رسول الله ألا نقتله قال لا إذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا وعليكم
   صحيح البخاري6258أنس بن مالكإذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا وعليكم
   صحيح مسلم5652أنس بن مالكإذا سلم عليكم أهل الكتاب فقولوا وعليكم
   صحيح مسلم5653أنس بن مالكأهل الكتاب يسلمون علينا فكيف نرد عليهم قال قولوا وعليكم
   جامع الترمذي3301أنس بن مالكإذا سلم عليكم أحد من أهل الكتاب فقولوا عليك قال عليك ما قلت قال وإذا جاءوك حيوك بما لم يحيك به الله
   سنن أبي داود5207أنس بن مالكقولوا وعليكم
   سنن ابن ماجه3697أنس بن مالكإذا سلم عليكم أحد من أهل الكتاب فقولوا وعليكم
   المعجم الصغير للطبراني664أنس بن مالكالله رفيق يحب الرفق يعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3301 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3301  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ یہودی جب تمہارے پاس آتے ہیں تو وہ تمہیں اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا ہے (المجادلة: 8)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3301   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5207  
´اہل ذمہ (معاہد کافروں) کو سلام کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا: اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) ہم کو سلام کرتے ہیں ہم انہیں کس طرح جواب دیں؟ آپ نے فرمایا: تم لوگ «وعليكم» کہہ دیا کرو ابوداؤد کہتے ہیں: ایسے ہی عائشہ، ابوعبدالرحمٰن جہنی اور ابوبصرہ غفاری کی روایتیں بھی ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5207]
فوائد ومسائل:
دیگر بعض احادیث میں کفار کے سلام کے جواب صرف علیکم آیا ہے، یعنی واو کےبغیر۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5207   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6258  
6258. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6258]
حدیث حاشیہ:
یہ بھی ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے جب کہ یہودی نے صاف لفظوں میں بد دعا کے الفاظ سلام کی جگہ استعمال کئے تھے۔
آج کے دور میں غیر مسلم اگر کوئی اچھے لفظوں میں دعا سلام کرتا ہے تو اس کا جواب بھی اچھا ہی دینا چاہئے ﴿وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ میں عام حکم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6258   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6258  
6258. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6258]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض دیگر احادیث میں کفار کے سلام کے جواب میں صرف "علیکم" آیا ہے، یعنی واؤ کے بغیر۔
بعض اہل علم نے واؤ عاطفہ اور اس کے بغیر سلام کا جواب دینے میں نکتہ آفرینی کی ہے، تاہم دونوں طرح صحیح ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔
بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سلام کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ انداز اختیار کیا ہے جیسا کہ مسيء الصلاة نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ نے"وعلیك" کہا تھا۔
(جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث: 2692) (2)
اب یہ انداز اہل کتاب کو جواب دینے کے لیے مشہور ہوچکا ہے، اس لیے مسلمان کے جواب میں اس انداز کو اختیار نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
"ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ اہل کتاب کے سلام کے جواب میں "وعلیکم" کے الفاظ پر کسی چیز کا اضافہ نہ کریں۔
(مسند أحمد: 113/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےبھی اس امر کو بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 56/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6258   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6926  
6926. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: تم پر ہلاکت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے (اس کے جواب میں) فرمایا: تجھ پر بھی پھر رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ کرام سے) پوچھا: تمہیں معلوم ہے کہ اس نے کیا کہا تھا؟ اس نے السام علیك کہا تھا۔ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! اسے ہم قتل نہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں جب تمہیں اہل کتاب سلام کہیں تو تم جواب میں یہ کہہ دیا کرو، وعلیکم تم پر بھی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6926]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ جب کوئی ذمی یا معاہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اعلانیہ سب وشتم نہ کرے بلکہ اشارے کنائے کے ذریعے سے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہے تو اسے قتل نہ کیا جائے جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ یہودی کے متعلق قتل کرنے کی اجازت نہیں دی۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ یہودی کو تالیف قلب کی مصلحت کی بنا پر قتل نہیں کیا یا اس لیے کہ واضح طور پر اس نے سب وشتم نہیں کیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں وجوہات ہوں اور یہی زیادہ بہتر ہے۔
(فتح الباري: 352/12)
اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر برا بھلا کہے تو ایسے شخص کے قتل پر اجماع ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی کی ام ولد لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوتی تھی، ایک دن جب وہ اپنے آقا کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے رہی تھیں تو انھوں نے اسے قتل کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب علم ہوا تو آپ نے اعلانیہ طور پر فرمایا:
خبردار! گواہ ہو جاؤ کہ اس لونڈی کا خون رائیگاں اور ضائع ہے۔
(سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4361)
جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ثابت ہے تو جو بدبخت شخص اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اسلام یا سنت مطہرہ اور دین اسلام میں طعن کرے تو اسے قتل کرنا بالاولیٰ لازم ہے۔
یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس پر مزید دلائل کی ضرورت نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6926   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.