(مرفوع) اخبرنا عمرو بن هشام، قال: حدثنا مخلد، عن سفيان، عن ابي العلاء، عن عبادة بن نسي، عن غضيف بن الحارث، انه سال عائشة رضي الله عنها: اي الليل كان يغتسل رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت:" ربما اغتسل اول الليل وربما اغتسل آخره"، قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَيُّ اللَّيْلِ كَانَ يَغْتَسِلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:" رُبَّمَا اغْتَسَلَ أَوَّلَ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا اغْتَسَلَ آخِرَهُ"، قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً.
غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے کس حصہ میں غسل کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ابتدائی حصہ میں غسل کیا، اور کبھی آخری حصہ میں کیا، میں نے کہا: شکر ہے اس اللہ تعالیٰ کا جس نے معاملہ میں وسعت اور گنجائش رکھی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 90 (226) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الصلاة 179 (1354)، (تحفة الأشراف: 17429)، مسند احمد 6/138، ویأتي عند المؤلف برقم: 405 (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 223
223۔ اردو حاشیہ: ➊ باب کا مقصود یہ ہے کہ اگر آدمی رات کے شروع میں جماع یا احتلام کے ساتھ جنبی ہو جائے تو کیا اسے اسی وقت غسل کرنا ضروری ہے یا صبح کی نماز تک تاخیر کر سکتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح تک تاخیر کی گنجائش ہے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ جلدی غسل کر لیا جائے۔ «والله أعلم» ➋ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اپنائے اور اگر معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق اہل علم سے دریافت کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 223
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 226
´غسل جنابت کو مؤخر کرنا ` «. . . عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَرَأَيْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، أَوْ فِي آخِرِهِ؟ قَالَتْ: رُبَّمَا اغْتَسَلَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فِي آخِرِهِ . . .» ”. . . غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے پہلے حصہ میں غسل جنابت کرتے ہوئے دیکھا ہے یا آخری حصہ میں؟ کہا: کبھی آپ رات کے پہلے حصہ میں غسل فرماتے، کبھی آخری حصہ میں . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 226]
فوائد و مسائل: ➊ صالحین امت کے سوالات پر غور کیا جائے کہ ان کی بنیاد اللہ کی رضا کی طلب، اس کی قربت کا شوق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہوتا تھا۔ ➋ غسل جنابت کو مؤخر کرنا مباح ہے، مگر مستحب مؤکد یہ ہے کہ وضو کر کے سویا جائے۔ ➌ نماز وتر کو رات کے کسی بھی وقت ادا کرنا مباح ہے، مگر ترغیب اور ترجیح یہی ہے کہ اسے رات کے آخری حصے میں (نماز تہجد کے بعد) ادا کیا جائے۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تلاوت قرآن کا حقیقی وقت اور موقع رات میں نماز تہجد ہوا کرتا تھا۔ ➎ اس قرأت میں اہل خانہ کی رعایت رکھنا بہت ضروری ہے کہ زیادہ اونچی آواز سے دوسروں کو تشویش نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 226
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 228
´جنبی نہانے میں دیر کرے اس کے حکم کا بیان` «. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنَامُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَمَسَّ مَاءً . . .» ”. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں بغیر غسل فرمائے سو جاتے تھے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يُؤَخِّرُ الْغُسْلَ: 228]
فوائد و مسائل: ➊ امام ابوداود رحمہ اللہ نے اس حدیث کا وہم ہونا نقل کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی یہی اشارہ دیا ہے، مگر یہ بھی فرمایا ہے کہ ابواسحٰق سے یہ روایت شعبہ، ثوری اور دیگر کئی ایک نے روایت کی ہے۔ ہمارے دور حاضر کے محقق اور محدثین کرام علامہ احمد محمد شاکر اور شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: [سنن ترمذي شرح احمد محمد شاكر، 1؍202۔ 206] اور آداب الزفاف از شیخ البانی اور بطور خلاصہ علامہ ابن قتیبہ کی ”تاویل مختلف الحدیث“[306] سے یہ اقتباس پیش خدمت ہے: ”(مذکورہ مسئلہ میں) یہ سب امور جائز ہیں یعنی جو چاہے بعد از جماع نماز والا وضو کر کے سو جائے اور جو چاہیے صرف شرمگاہ اور اپنے ہاتھ دھو لے اور جو چاہے ویسے ہی سو رہے۔ مگر وضو کرنا افضل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تو پہلی صورت پر عمل کیا تاکہ فضیلت ثابت ہو اور کبھی دوسری پر، تاکہ رخصت رہے اور لوگوں کو عمل میں آسانی ہو، لہٰذا جو افضل پر عمل کرنا چاہے کر لے اور جو رخصت پر کفایت کرنا چاہے کر لے۔“ «والله اعلم بالصواب»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 228
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 405
´رات کے ابتدائی حصے میں غسل کرنے کا بیان۔` غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، تو میں نے ان سے سوال کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی حصہ میں غسل کرتے تھے یا آخری حصے میں؟ تو انہوں نے کہا: دونوں طرح سے (کرتے تھے)، کبھی رات کے ابتدائی حصہ میں غسل کرتے، اور کبھی آخری حصہ میں، اس پر میں نے کہا: اس اللہ کی تعریف ہے جس نے شریعت مطہرہ والے معاملہ کے اندر گنجائش رکھی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 405]
405۔ اردو حاشیہ: فائدہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث 223 اور اس کا فائدہ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 405
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث581
´غسل کیے بغیر جنبی کے سوئے رہنے کا حکم۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوتے، اور پانی چھوے بغیر سو جاتے، پھر اس کے بعد اٹھتے اور غسل فرماتے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 581]
اردو حاشہ: (1) پانی کو ہاتھ لگائے بغیر سونے کا مطلب یہ ہے کہ غسل نہیں کیا اور وضو بھی نہیں کیا، اسی طرح سوگئے۔
(2) ہمارے فاضل محقق نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر روایات کی رو سے بہتر اور افضل یہ ہے کہ وضو کر کے سویا جائے جیسا کہ اگلے باب میں آ رہا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 581
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث583
´غسل کیے بغیر جنبی کے سوئے رہنے کا حکم۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوتے، پھر پانی چھوئے بغیر اسی حالت میں سو جاتے۔ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز یہ حدیث بیان کی تو مجھ سے اسماعیل نے کہا: اے نوجوان! اس حدیث کو کسی دوسری حدیث سے تقویت دی جانی چاہیئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 583]
اردو حاشہ: اسماعیل کا مقصد یہ ہے کہ یہ صرف ”ابو اسحاق عن اسود عن عائشہ رضی اللہ عنہا“ کی سند سے مروی ہے، لہٰذا کوئی دوسری سند بھی ہونی چاہیےجس سے ابو اسحاق کی تائید ہو، تاہم دوسرے طرق سے یہ روایت صحیح یا حسن قرار پاتی ہے۔ (اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو احمد شاکر مصری رحمہ اللہ کی تعلیق ترمذی: 1؍202)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 583
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 118
´جنبی غسل کرنے سے پہلے سوئے اس کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سوتے اور پانی کو ہاتھ نہ لگاتے اور آپ جنبی ہوتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 118]
اردو حاشہ: 1؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی وضو اور غسل کے بغیر سوسکتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل بیانِ جواز کے لیے ہے تاکہ امت پریشانی میں نہ پڑے، رہا اگلی حدیث میں آپ کا یہ عمل کہ آپ جنابت کے بعد سونے کے لیے وضو فرما لیا کرتے تھے تو یہ افضل ہے، دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 118