ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ کنکری پر ہاتھ نہ پھیرے، کیونکہ رحمت اس کا سامنا کر رہی ہوتی ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1192
1192۔ اردو حاشیہ: چونکہ نماز دراصل اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنا ہے۔ کسی سے باتیں کرتے ہوئے ادھر ادھر متوجہ ہونا اور فضول کام کرنا اس سے بے توجہی ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی شخص نماز میں اللہ تعالیٰ سے بے توجہی کرتا ہے تواللہ تعالیٰ بھی اس سے منہ پھیر لے گا اور وہ شخص رحمت الہٰی سے محروم رہے گا، البتہ اگر ضرورت ہو، مثلاً: سجدے کے لیے جگہ ہموار کرنا مقصود ہو تو صرف ایک دفعہ کنکریاں ہموار کر سکتا ہے، ورنہ وہ سارے سجدے میں بے چین رہے گا اور نماز کا خشوع ختم ہو جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1192
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 189
´نماز میں سجدہ گاہ کو ہموار اور صاف نہیں کرنا چاہیے` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا قام احدكم في الصلاة فلا يمسح الحصى، فإن الرحمة تواجهه . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز ادا کر رہا ہو تو (سجدہ گاہ) سے سنگریزوں (کنکریوں) کو اپنے ہاتھ سے نہ ہٹائے۔ کیونکہ (اس وقت) رحمت خداوندی نمازی کی طرف متوجہ ہوتی ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 189]
� لغوی تشریح: «فَلَا يَمْسَح» یعنی پیشانی رکھنے یا سجدہ کرنے کی جگہ سے کنکریاں نہ ہٹائے۔ «اَلْحُصٰي» چھوٹے سنگریزے، چھوٹی چھوٹی کنکریاں۔ «زَادَ أَحْمَدُ» امام أحمد نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ اگر کنکریوں کے ہٹانے کی اشد ضرورت ہو تو پھر ایک مرتبہ ہٹا لے یا چھوڑ دے، ہاتھ بھی نہ لگائے۔ «بِغَيْرِ تَعْلِيلِ» اس میں علت، سبب اور وجہ بیان نہیں کی گئی، یعنی اس روایت میں یہ نہیں کہ رحمت الٰہی اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث راہ نمائی کرتی ہے کہ نماز میں سجدہ گاہ کو ہموار اور صاف نہیں کرنا چاہیے، اگر ضرورت اس بات کی متقاضی ہو تو نماز سے پہلے یہ عمل کر لیا جائے۔ ➋ اس ممانعت کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز میں، نماز کے ماسوا دوسری کسی چیز کا خیال نہیں ہونا چاہیے۔ اگر سجدے کی وجہ سے پیشانی خاک آلود ہو جائے تو دوران نماز میں اسے ہاتھ یا کپڑے سے صاف نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس موقع پر رحمت الہٰی نمازی کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اگر نمازی ایسا فعل کرے گا تو رحمت سے محروم رہ جانے کا اندیشہ ہے، البتہ شدید ضرورت کے لاحق ہونے کی صورت میں جائز ہے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ)”میم“ پر ضمہ اور ”عین“ پر فتحہ ہے۔ معیقیب بن ابوفاطمہ قبیلہ دوس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دوسی کہلائے۔ مکہ کے قدیم الاسلام صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں۔ حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں شامل تھے۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی ان کے پاس ہوتی تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر پر متعین تھے۔ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے ان کو بیت المال کا عامل مقرر کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 189
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 379
´نماز میں کنکری ہٹانے کی کراہت کا بیان۔` ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے سے کنکریاں نہ ہٹائے ۱؎ کیونکہ اللہ کی رحمت اس کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 379]
اردو حاشہ: 1؎: اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نمازی نماز میں نماز کے علاوہ دوسری چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہو، اس لیے کہ اللہ کی رحمت اس کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اگر وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ کرتا ہے تو اندیشہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس سے روٹھ جائے اور وہ اس سے محروم رہ جائے اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔
نوٹ: (ابوالأحوص لین الحدیث ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 379