قال: كذلك حدثنا بندار ، حدثنا ابو بكر يعني الحنفي ، نا افلح ، قال: سمعت القاسم بن محمد ، عن عائشة ، فذكرت بعض صفة حجة النبي صلى الله عليه وسلم، وقالت: " فاذن بالرحيل في اصحابه، فارتحل الناس، فمر بالبيت قبل صلاة الصبح، فطاف به، ثم خرج، فركب، ثم انصرف متوجها إلى المدينة" . قال ابو بكر: ولم نسمع احدا من العلماء من اهل الفقه يجعل ما وراء البناء المتصل بعضه ببعض في المدن من المدن، وإن كان ما وراء البناء من حد تلك المدينة، ومن اراضيها المنسوبة إلى تلك المدينة، لا نعلمهم اختلفوا ان من خرج من مدينة يريد سفرا، فخرج من البنيان المتصل بعضه ببعض ان له قصر الصلاة، وإن كانت الارضون التي وراء البناء من حد تلك المدينة وكذلك لا اعلمهم اختلفوا انه إذا رجع يريد بلدة فدخل بعض اراضي بلدة، ولم يدخل البناء، وكان خارجا من حد البناء المتصل بعضه ببعض ان له قصر الصلاة ما لم يدخل موضع البناء المتصل بعضه ببعض ولا اعلمهم اختلفوا ان من خرج من مكة من اهلها، او من قد اقام بها قاصدا سفرا يقصر فيه الصلاة، ففارق منازل مكة، وجعل جميع بنائها وراء ظهره وإن كان بعد في الحرم ان له قصر الصلاة، فالنبي صلى الله عليه وسلم لما قدم مكة في حجته، فخرج يوم التروية قد فارق جميع بناء مكة، وسار إلى منى، وليس منى من المدينة التي هي مدينة مكة، فغير جائز من جهة الفقه إذا خرج المرء من مدينة لو اراد سفرا بخروجه منها جاز له قصر الصلاة ان يقال إذا خرج من بنائها هو في البلدة، إذ لو كان في البلدة لم يجز له قصر الصلاة حتى يخرج منها، فالصحيح على معنى الفقه ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يقم بمكة في حجة الوداع إلا ثلاثة ايام ولياليهن كوامل، يوم الخامس والسادس والسابع، وبعض يوم الرابع، دون ليله، وليلة الثامن وبعض يوم الثامن، فلم يكن هناك إزماع على مقام اربعة ايام بلياليها في بلدة واحدة، فليس هذا الخبر إذا تدبرته بخلاف قول الحجازيين فيمن ازمع مقام اربع، انه يتم الصلاة ؛ لان مخالفيهم يقولون: إن من ازمع مقام عشرة ايام في مدينة، واربعة ايام خارجا من تلك المدينة في بعض اراضيها التي هي خارجة من المدينة على قدر ما بين مكة ومنى في مرتين لا في مرة واحدة، ويوما وليلة في موضع ثالث ما بين منى إلى عرفات كان له قصر الصلاة، ولم يكن هذا عندهم إزماعا على مقام خمس عشرة على ما زعموا ان من ازمع مقام خمس عشرة وجب عليه إتمام الصلاةقَالَ: كَذَلِكَ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي الْحَنَفِيَّ ، نَا أَفْلَحُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، فَذَكَرَتْ بَعْضَ صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: " فَأَذِنَ بِالرَّحِيلِ فِي أَصْحَابَهُ، فَارْتَحَلَ النَّاسُ، فَمَرَّ بِالْبَيْتِ قَبْلَ صَلاةِ الصُّبْحِ، فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَرَكِبَ، ثُمَّ انْصَرَفَ مُتَوَجِّهًا إِلَى الْمَدِينَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَمْ نَسْمَعْ أَحَدًا مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ يَجْعَلُ مَا وَرَاءَ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ فِي الْمُدُنِ مِنَ الْمُدُنِ، وَإِنْ كَانَ مَا وَرَاءَ الْبِنَاءِ مِنْ حَدِّ تِلْكَ الْمَدِينَةِ، وَمِنْ أَرَاضِيهَا الْمَنْسُوبَةِ إِلَى تِلْكَ الْمَدِينَةِ، لا نَعْلَمُهُمُ اخْتَلَفُوا أَنَّ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَدِينَةٍ يُرِيدُ سَفَرًا، فَخَرَجَ مِنَ الْبُنْيَانِ الْمُتَّصِلُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ أَنَّ لَهُ قَصْرَ الصَّلاةِ، وَإِنْ كَانَتِ الأَرْضُونَ الَّتِي وَرَاءَ الْبِنَاءِ مِنْ حَدِّ تِلْكَ الْمَدِينَةِ وَكَذَلِكَ لا أَعْلَمُهُمُ اخْتَلَفُوا أَنَّهُ إِذَا رَجَعَ يُرِيدُ بَلْدَةً فَدَخَلَ بَعْضَ أَرَاضِي بَلْدَةٍ، وَلَمْ يَدْخُلِ الْبِنَاءَ، وَكَانَ خَارِجًا مِنْ حَدِّ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ أَنَّ لَهُ قَصْرَ الصَّلاةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ مَوْضِعَ الْبِنَاءِ الْمُتَّصِلِ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ وَلا أَعْلَمَهُمُ اخْتَلَفُوا أَنَّ مَنَ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ مِنْ أَهْلِهَا، أَوْ مَنْ قَدْ أَقَامَ بِهَا قَاصِدًا سَفَرًا يَقْصُرُ فِيهِ الصَّلاةَ، فَفَارَقَ مَنَازِلَ مَكَّةَ، وَجَعَلَ جَمِيعَ بِنَائِهَا وَرَاءَ ظَهْرِهِ وَإِنْ كَانَ بَعْدُ فِي الْحَرَمِ أَنَّ لَهَ قَصْرَ الصَّلاةِ، فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ فِي حَجَّتِهِ، فَخَرَجَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ قَدْ فَارَقَ جَمِيعَ بِنَاءِ مَكَّةَ، وَسَارَ إِلَى مِنًى، وَلَيْسَ مِنًى مِنَ الْمَدِينَةِ الَّتِي هِيَ مَدِينَةُ مَكَّةَ، فَغَيْرُ جَائِزٍ مِنْ جِهَةِ الْفِقْهِ إِذَا خَرَجَ الْمَرْءُ مِنْ مَدِينَةٍ لَوْ أَرَادَ سَفَرًا بِخُرُوجِهِ مِنْهَا جَازَ لَهُ قَصْرُ الصَّلاةِ أَنْ يُقَالَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بِنَائِهَا هُوَ فِي الْبَلْدَةِ، إِذْ لَوْ كَانَ فِي الْبَلْدَةِ لَمْ يَجُزْ لَهُ قَصْرُ الصَّلاةِ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْهَا، فَالصَّحِيحُ عَلَى مَعْنَى الْفِقْهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُقِمْ بِمَكَّةَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ إِلا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ كَوَامِلَ، يَوْمَ الْخَامِسِ وَالسَّادِسِ وَالسَّابِعِ، وَبَعْضَ يَوْمِ الرَّابِعِ، دُونَ لَيْلِهِ، وَلَيْلَةِ الثَّامِنِ وَبَعْضِ يَوْمِ الثَّامِنِ، فَلَمْ يَكُنْ هُنَاكَ إِزْمَاعٌ عَلَى مُقَامِ أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ بِلَيَالِيهَا فِي بَلْدَةٍ وَاحِدَةٍ، فَلَيْسَ هَذَا الْخَبَرُ إِذَا تَدَبَّرْتَهُ بِخِلافِ قَوْلِ الْحِجَازِيِّينَ فِيمَنْ أَزْمَعَ مُقَامَ أَرْبَعٍ، أَنَّهُ يُتِمُّ الصَّلاةَ ؛ لأَنَّ مُخَالِفِيهِمْ يَقُولُونَ: إِنَّ مَنْ أَزْمَعَ مُقَامَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ فِي مَدِينَةٍ، وَأَرْبَعَةِ أَيَّامٍ خَارِجًا مِنْ تِلْكَ الْمَدِينَةِ فِي بَعْضِ أَرَاضِيهَا الَّتِي هِيَ خَارِجَةٌ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى قَدْرِ مَا بَيْنَ مَكَّةَ وَمِنًى فِي مَرَّتَيْنِ لا فِي مَرَّةٍ وَاحِدَةٍ، وَيَوْمًا وَلَيْلَةً فِي مَوْضِعٍ ثَالِثٍ مَا بَيْنَ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ كَانَ لَهُ قَصْرُ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَكُنْ هَذَا عِنْدَهُمْ إِزْمَاعًا عَلَى مُقَامِ خَمْسَ عَشْرَةَ عَلَى مَا زَعَمُوا أَنَّ مَنْ أَزْمَعَ مُقَامَ خَمْسَ عَشْرَةَ وَجَبَ عَلَيْهِ إِتْمَامُ الصَّلاةِ
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی کچھ کیفیت بیان کی اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روانگی کا حُکم دیا تو لوگ روانہ ہونے شروع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (روانگی کے وقت) صبح کی نماز کے وقت بیت اللہ کے پاس سے گزرے تو اس کا طواف کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بیت اللہ سے) باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوکر مدینہ منوّرہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی فقیہ عالم دین کے بارے میں نہیں سنا کہ اس نے کسی شہر کی ہاہم متصل آبادی اور عمارات کے بعد والے علاقے کو اسی شہر کا حصّہ قرار دیا ہو، اگرچہ آبادی کے بعد والا علاقہ اسی شہر کی حدود سے اور اس شہر کی طرف منسوب زمینوں میں سے ہو۔ ہمارے علم میں نہیں کہ علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف ہو کہ جو شخص سفر کے ارادے سے شہر سے نکل جائے، اور وہ باہم متصل آبادی اور عمارات سے باہر چلا جائے تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے اگرچہ آبادی کے بعد والی زمینیں اسی شہر کی حدود میں ہوں۔ اسی طرح ہمارے علم میں علمائے کرام کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب وہ شخص واپس کسی شہر میں آنا چاہے اور وہ اس شہر کی بعض زمینوں میں داخل ہو جائے اور آبادی میں داخل نہ ہوا اور وہ ابھی باہم متصل آبادی کی حدود سے باہر ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے جب تک کہ آپس میں ملی ہوئی آبادی میں داخل نہ ہو جائے اور مجھے اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف معلوم نہیں ہے کہ جو شخص مکّہ مکرّمہ سے سفر کی نیت سے نکل گیا، وہ مکّہ کا رہائشی ہو یا جو وہاں عارضی مقیم تھا وہ مکّہ (کی حدود میں) نماز قصر کر سکتا ہے - جب اس نے مکّہ مکرّمہ کی منازل کو چھوڑ دیا، اور ساری آبادی اپنے پیچھے چھوڑ دی، اگرچہ وہ حدود حرم میں دور نکل جائے تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے حج کے لئے مکّہ مکرّمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الترویہ کو مکّہ مکرّمہ سے نکل گئے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ کی تمام آبادی کو چھوڑ دیا اور منیٰ روانہ ہو گئے، جبکہ منیٰ مکّہ مکرّمہ شہر میں داخل نہیں ہے - لہٰذا فقہی نقطہ نظر سے یہ درست نہیں ہے کہ جو شخص سفر کی نیت و ارادے سے شہر سے نکل گیا اور اس کے لئے نماز قصر کرنا جائز تھا، اسے کہا جائے کہ جب وہ شہر کی آبادی سے نکل گیا کہ وہ ابھی شہر ہی میں ہے۔ کیونکہ اگر وہ ابھی تک شہر ہی میں ہے تو اس کے لئے نماز قصر کرنا درست نہیں ہے حتیٰ کہ وہ شہر سے نکل جائے ـ لہٰذا فقہی رو سے یہی بات صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقع پر مکّہ مکرّمہ میں صرف تین دن رات مکمّل قیام پذیر رہے، پانچ، چھ اور سات تاریخ کو۔ چار تاریخ کا کچھ حصّہ سوائے اس کی رات کے اور آٹھویں تاریخ کی رات اور اس کے دن کا کچھ حصّہ، لہٰذا وہاں کسی ایک شہر میں چار دن رات کے قیام کا پختہ ارادہ نہیں تھا۔ اس لئے یہ روایت، جب تم غور و فکر کرو، تو اہل حجاز کے اس قول کے مخالف نہیں ہے کہ جو شخص کسی ایک مقام پر چاردن رہنے کا پختہ ارادہ کر لے وہ نماز مکمّل پڑھے۔ کیونکہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ جس شخص نے کسی شہر میں دس دن کے قیام کا پختہ ارادہ کر لیا، اور چار دن اس شہر سے باہر اس شہر کی ایسی زمینوں میں رہنے کا ارادہ کیا جو شہر سے مکّہ مکرّمہ اور منیٰ جیسی دوہری مسافت کے برابر ہو، اکہری نہ ہو۔ اور ایک رات اور دن کسی تیسری جگہ پر گزارے جو منیٰ سے عرفات جتنی مسافت پر ہو تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے اور یہ ان کے نزدیک ایک مقام پر پندرہ دن کے قیام کا پختہ ارادہ نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک جس شخص نے پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا اس پر مکمّل نماز ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔