نا محمد بن ابي صفوان العلي ، نا بهز يعني ابن اسد ، نا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن انس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغير عند صلاة الصبح، فإن سمع اذانا امسك، وإلا اغار، فاستمع ذات يوم فسمع رجلا، يقول: الله اكبر، الله اكبر، فقال:" على الفطرة"، فقال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال:" خرجت من النار" . قال ابو بكر: فإذا كان المرء يطمع بالشهادة بالتوحيد لله في الاذان، وهو يرجو ان يخلصه الله من النار بالشهادة بالله بالتوحيد في اذانه، فينبغي لكل مؤمن ان يتسارع إلى هذه الفضيلة طمعا في ان يخلصه الله من النار، خلا في منزله او في بادية او قرية او مدينة، طلبا لهذه الفضيلة، وقد خرجت ابواب الاذان في السفر ايضا في مواضع غير هذا الموضع، في نوم النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الصبح حتى طلعت الشمس، وامره صلى الله عليه وسلم بلالا بالاذان للصبح بعد ذهاب وقت تلك الصلاة، وتلك الاخبار ايضا خلاف قول من زعم ان لا يؤذن للصلاة بعد ذهاب وقتها، وإنما يقام لها بغير اذاننا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ الْعَلِيُّ ، نا بَهْزٌ يَعْنِي ابْنَ أَسَدٍ ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُغِيرُ عِنْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِلا أَغَارَ، فَاسْتَمَعَ ذَاتَ يَوْمٍ فَسَمِعَ رَجُلا، يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ:" عَلَى الْفِطْرَةِ"، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، قَالَ:" خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَإِذَا كَانَ الْمَرْءُ يَطْمَعُ بِالشَّهَادَةِ بِالتَّوْحِيدِ لِلَّهِ فِي الأَذَانِ، وَهُوَ يَرْجُو أَنْ يُخَلِّصَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ بِالشَّهَادَةِ بِاللَّهِ بِالتَّوْحِيدِ فِي أَذَانِهِ، فَيَنْبَغِي لِكُلِّ مُؤْمِنٍ أَنْ يَتَسَارَعَ إِلَى هَذِهِ الْفَضِيلَةِ طَمَعًا فِي أَنْ يُخَلِّصَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ، خَلا فِي مَنْزِلِهِ أَوْ فِي بَادِيَةٍ أَوْ قَرْيَةٍ أَوْ مَدِينَةٍ، طَلَبًا لِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ، وَقَدْ خَرَّجْتُ أَبْوَابَ الأَذَانِ فِي السَّفَرِ أَيْضًا فِي مَوَاضِعَ غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، فِي نَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمْرُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلالا بِالأَذَانِ لِلصُّبْحِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِ تِلْكَ الصَّلاةِ، وَتِلْكَ الأَخْبَارُ أَيْضًا خِلافُ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنْ لا يُؤَذَّنَ لِلصَّلاةِ بَعْدَ ذَهَابِ وَقْتِهَا، وَإِنَّمَا يُقَامُ لَهَا بِغَيْرِ أَذَانٍ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے وقت (دشمن کی بستیوں پر) حملہ آور ہوتے تھے پھر اگر اذان کی آواز سن لیتے تو (حملہ کرنے سے) رُک جاتے (اور اگر اذان کی آواز نہ سنتے تو) حملہ کر دیتے۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا: «اللہُ أَکبَرُ، اللہُ أَکبَرُ» ”اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ فطرتِ اسلام پر ہے۔“ تو اُس نے کہا: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توجہنّم کی آگ سے نجات پا گیا۔“ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کواذان میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے اعلان و گواہی دینے کی خواہش ہو اور وہ امید رکھتا ہو کہ اس کی اذان میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی دینے سے اللہ تعالیٰ اٗسے جہنّم کی آگ سے نجات عطا فرمائیں گے تو ہر مومن کو اس خواہش اور تمنّا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اُس کو آگ سے نجات دے دیں گے، اس فضیلت کے حُصول میں سبقت کرنی چاہیے۔ وہ اپنے گھر میں تنہا ہو یا جنگل میں یا بستی وشہر میں اکیلا ہو، اس فضلیت واجر کو حاصل کرنے کے لئے (اُسے اذان دینی چاہیے) میں نے اس جگہ کے علاوہ بھی کئی مقامات پر سفر میں اذان کے ابواب کو بیان کیا ہے (مثلاً) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح کی نماز سے سوئے رہ جانا حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کوصبح کی نماز کی اذان دینے کا حُکم دینا جبکہ اُس کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ یہ احادیث اُن لوگوں کے قول کے برعکس ہیں اُن کا دعویٰ ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اُس کے لیے اذان نہیں دی جائے گی بلکہ بغیر اذان کے صرف اقامت کہی جائے گی۔