250. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک ”نماز اوّل وقت میں اداکرنا افضل ہے“ سے آپ کی مراد سب نمازوں کی بجائے کچھ نمازیں اور سب اوقات کی بجائے کچھ اوقات ہیں
إذ قد اخبر النبي صلى الله عليه وسلم بتبريد الظهر في شدة الحر، وقد اعلم ان لولا ضعف الضعيف، وسقم السقيم لاخر صلاة العشاء الآخرة إلى شطر الليل.إِذْ قَدْ أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَبْرِيدِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ، وَقَدْ أَعْلَمَ أَنَّ لَوْلَا ضَعْفُ الضَّعِيفِ، وَسَقَمُ السَّقِيمِ لَأَخَّرَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ.
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید گرمی میں نماز ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی خبر دی ہے اور یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر کمزور شخص کی کمزوری اور بیمار کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشا کو آدھی رات تک مؤخر فرما دیتے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے ظہر کی اذان کہی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھنڈا کرو، ٹھنڈا کرو۔“ یا فرمایا کہ ”انتظار کرو، انتظار کرو“ پھر فرمایا: ”بیشک گرمی کی شدت جہنّم کی بھاپ سے ہے لہٰذا جب گرمی شدید ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈا کرلو۔“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (لہٰذا ہم نے نماز ظہر اُس وقت ادا کی) جب ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا۔