ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
امر النبي صلى الله عليه وسلم في خبر يعلى بغسل الطيب الذي كان على المحرم، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر المحل ايضا بغسل الخلوق الذي كان قد تخلق به، فسوى في الامر بغسل الخلوق بين المحرم والمحل. أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَبَرِ يَعْلَى بِغَسْلِ الطِّيبِ الَّذِي كَانَ عَلَى الْمُحْرِمِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ الْمُحِلَّ أَيْضًا بِغَسْلِ الْخَلُوقِ الَّذِي كَانَ قَدْ تُخَلَّقَ بِهِ، فَسَوَّى فِي الْأَمْرِ بِغَسْلِ الْخَلُوقِ بَيْنَ الْمُحْرِمِ وَالْمُحِلِّ.
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میرا رنگ بدلا ہوا تھا (طبیعت ناساز تھی) تو میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ گھر چلو، تو میں گھر گیا، میں نے غسل کیا اور خلوق خوشبو لگائی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ آپ (نماز کے وقت) ہمارے چہروں پر اپنا دست مبارک پھیرتے (اور ہمارے لئے دعائے خیر فرماتے) پھر جب آپ میرے قریب ہوئے تو آپ نے زعفرانی خوشبو سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھ سے کہا: ”اے یعلی، تم نے زعفرانی خوشبو کیوں لگائی ہوئی ہے کیا شادی کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حُکم دیا۔ ”جاؤ اور اس خوشبو کو دھو ڈالو۔“ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک کنویں پر گیا اور اُس میں نہایا پھر میں نے مٹی کے ساتھ مل مل کر وہ خوشبو صاف کردی۔ پھر میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”یعلی توبہ کرکے اپنے بہترین دین پر واپس آ گیا ہے اور آسمان والا بھی خوش ہوگیا ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کو زعفرانی خوشبو دھونے کا حُکم دیا حالانکہ وہ غیر محرم تھے جیسا کہ آپ نے محرم کو زعفرانی خوشبو دھونے کا حُکم دیا تھا۔