148 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا زيد بن اسلم بمني قال: قال ابن عمر: ذهب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلي مسجد بني عمرو بن عوف بقبا ليصلي فيه، فدخلت عليه رجال الانصار يسلمون عليه، فسالت صهيبا وكان معه كيف كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو يصلي؟ فقال صهيب: «كان يشير إليهم بيده» قال سفيان: فقلت لرجل سله اسمعته من ابن عمر؟ فقال: يا ابا اسامة اسمعته من ابن عمر؟ فقال: اما انا فقد كلمته وكلمني ولم يقل سمعته منه148 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ بِمِنًي قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَا لِيُصَلِّيَ فِيهِ، فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ رِجَالُ الْأَنْصَارِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ، فَسَأَلْتُ صُهَيْبًا وَكَانَ مَعَهُ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي؟ فَقَالَ صُهَيْبٌ: «كَانَ يُشِيرُ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ» قَالَ سُفْيَانُ: فَقُلْتُ لِرَجُلٍ سَلْهُ أَسَمِعْتَهُ مِنِ ابْنِ عُمَرَ؟ فَقَالَ: يَا أَبَا أُسَامَةَ أَسَمِعْتَهُ مِنَ ابْنِ عُمَرَ؟ فَقَالَ: أَمَّا أَنَا فَقَدْ كَلَّمْتُهُ وَكَلَّمَنِي وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ
148- سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں بنو عمرو بن عوف محلے کی مسجد میں تشریف لے گئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز ادا کریں، کچھ انصاری سلام کرے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں) میں نے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیونکہ وہ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیسے جواب دیا تھا؟ جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے کے دوران سلام کیا تھا، تو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“: برقم: 2258، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5638، 5643، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 4657، برقم: 24516،»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:148
فائدہ: اس سے ثابت ہوا کہ اگر جماعت ہو رہی ہو تو باہر سے آنے والا اونچی آواز میں السلام علیکم کہہ سکتا ہے اور نمازی نماز کے اندر ہی اپنے ہاتھ کے اشارے سے جواب دے سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا مسجد میں آ کر السلام علیکم کہنے سے منع کرنا قرآن وحدیث کی صریح مخالفت ہے۔ شیخ عبدالولی حقانی رحمہ اللہ کی قیمتی کتاب ”سلام کے احکام“ مولا نا عبدالغفور اثری باللہ کی”السلام علیکم“ کے احکام و آداب۔ میں اس مسئلے پرتفصیلی بحث کی گئی ہے، فجزاہ اللہ خیرا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 148